ایک طرف دن دیہاڑے بند ہ ما ر کر ٹکے ٹکے کی باتیں سناتا ’’اقتدار واختیار کا متکبرانہ ملاپ ‘‘ اور دوسری طرف جان نکلنے تک ٹینکر کے سوراخوں سے تیل نکالتا ’’غربت و جہالت کا لالچ بھرا امتزاج ‘‘، یقین جانئے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ’’ ‘‘ٹائٹل کا اصل حقدار کون ؟
بات آگے بڑھانے سے پہلے ذرا یہ دوتین سچی باتیں سنتے جائیں، ہو سکتا ہے کہ آپ نے یہ باتیں سن رکھی ہوں مگر پھرسے سنانے کا مقصد ایک ہی کہ باقی سب کچھ بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا، پہلے یہ ارشادِ باری تعالیٰ کہ ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ‘‘ پھر حضور ﷺ کا یہ فرمان کہ ’’ اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت اور اس کے مال وجان کی حرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ‘‘ اور پھر ربیع الاول 11 ہجری کا وہ دن جب مسلسل بخار سے نڈھال اور کمزور پڑ چکے حضورؐ حضرت علی ؓ اور حضرت فضل بن عباس ؓ کے سہارے بمشکل حجرے سے مسجد نبوی ؐ کے منبر پر تشریف لائے، چند لمحے سانسیں درست کیں، اللہ پاک کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا ’’چونکہ میرا آخری وقت آن پہنچا، لہٰذا اگر کسی کا کوئی قرض میرے ذمے ہو، کسی کا کوئی حق مجھ پر ہو یا اگر مجھ سے کسی کیساتھ کوئی زیادتی ہو گئی ہو تووہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے، حضور ؐ خاموش ہوئے تو سامنے بیٹھے عکاشہ بن محصن اسدی ؓ کھڑے ہوئے ’’ یا نبی ؐ سفرِ اُحد کے دوران اونٹ کو چابک مارتے ہوئے آپ ؐکا ایک چابک میری کمر پر بھی لگا تھا اور مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی، میں آج اپنا وہ بدلہ لینا چاہتاہوں‘‘ یہ سن کر پہلے حضورؐ نے یہ فرمایا کہ ’’ عکاشہ ؓ اللہ تمہیں جزا دے، تم نے اپنا بدلہ یہیں لینے کا فیصلہ کیا، اسے قیامت پر نہیں چھوڑا‘‘ پھر آپؐ نے عکاشہؓ کے بتائے ہوئے چابک ( لکڑی کے دستے اور خیزران سے بنے تسمے والا چابک )منگوا کر ان لمحوں میں جب دم سادھے بیٹھے تمام صحابہ کرام ؓ نہایت غصے سے عکاشہ ؓ کوگھور رہے تھے، چابک عکاشہ ؓ کے حوالے کیا، وہ چابک پکڑ کراور قریب آکر بولے ’’ یا رسول ؐ اللہ اس دن میری پیٹھ برہنہ تھی‘‘ یہ سنناتھا کہ آپؐ نے بھی فوراً اپنی کمرسے قمیض اُٹھا دی اور پھر اگلے ہی لمحے سب نے دیکھا کہ چابک پھینک چکے عکاشہ ؓ کمر مبارک پر مہرِنبوت کو بے اختیار چومتے اور بہتے آنسوؤں میں کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نے کیا بدلہ لینا تھا، میں تو چاہتا تھا کہ مہرِ نبوت چوم کر جنت کا حقدار بن جاؤں ‘‘، آپ ؐ مسکرا کر بولے ’’تم نے جنت واجب کر لی ‘‘اب ذرا یہیں رُک کر سوچئے کہ وہ مذہب جس میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل، جس میں مومن کی حرمت خانہ کعبہ سے بھی زیادہ اور جس میں جوابدہی ایسی کہ امام الانبیاءؐ خود کو پیش کردیں، آج اسی مذہب کے پیروکار اور اسی رسولؐ کے امتی زوال کی گہرائیوں میں کیوں دھنس چکے، آپ بھی یہ ضرور سوچئے گا، جہاں تک میری بات تو میں اس مسلسل لگے ریورس گیئر کا جب بھی سوچوں توہر بار میرے سامنے پنجابی زبان کا لفظ ’’ دا‘‘ آجائے، جی ہاں’’دا‘‘یعنی خالصتاً خود غرضی اور لالچ کے جذبے میں دوسر ے کو دھوکے، فراڈاور دونمبری سے زیر کرنے کو پنجابی میں ’’دا‘‘ لگانا کہیں، ویسے تو اپنے مذہب سے اپنی سیاست تک اور اپنی حکومت سے اپنی تجارت ومعاشرت تک سب کچھ ہی ’’دا‘‘ سے بھراپڑا، لیکن اپنے ہاں اوپرسے نیچے تک اب تو ’’دا‘‘ایسی معمول کی کارروائی کہ پٹرول پمپ پر آنکھ بچاکر دوسرے سے پہلے پٹرول بھروانے کے ’’دا‘‘ سے شادی بیاہ اور دعوتوں میں اپنی پلیٹ پہلے بھرنے کے ’’دا‘‘تک کے ہم چیمپئن ہوچکے، اور تو اور یہاں تو اب مُردے بھی ہمارے ’’داؤں ‘‘ کی زد میں، جیسے ٹرینوں کا حادثہ ہو، کوئی جہاز گرجائے، زلزلہ آجائے یاسیلاب تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے اک مخلوق نکلے، لاشوں کی انگلیاں کاٹ کر انگوٹھیاں، خون آلود بازؤں سے گھڑیاں اور اجڑے گھروں کی اینٹیں تک اُکھاڑ لے جائے، مذہب وسیاست میں ’’دا‘‘ کی دو نادرمثالیں ملاحظہ ہوں، کچھ عرصے پہلے ڈنمارک میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں پر احتجاج کرتے کرتے لوگوںکا جب ’’دا‘‘ لگا تو پھرسب نے ہی بڑے مزے سے دکانیں تک لوٹ لیں اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے فوراً بعد ملک بھر میں جہاں جس کا’’ دا‘‘لگااس نے وہیں کارروائی ڈال دی، دوستو یہی سوچ اوریہی ذہنیت تھی کہ احمد پورشرقیہ کی مخلوق کو جب پتا چلا کہ ان کے نواح میں آئل ٹینکر الٹ چکا تو پھر بوتلوں، بالٹیوں، د یگچیوں اور شاپروں سے لیس یہ مومنین جائے وقوع پر پہنچے اور تب تک ’’پٹرولی دا‘‘ میں لگے رہے کہ جب تک موت کے فرشتے کا’’دا‘‘ نہ لگ گیا۔ صاحبو! یہ توتھے 95 فیصد چھوٹے موٹے عادی ’’دا ‘‘والے، ہمارے پاس تو 5 فیصد ’’دا ‘‘کے ایسے بھی جو 70 سالوں سے ان 95 فیصد کو بھی ’’دا‘‘ لگائے بیٹھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب کہ ہر ’’دا‘‘ لگا کر بھی معصوم کے معصوم، لٹو پھٹو اور موقع ملنے پر پھر سے لٹو کے منشوروں والے یہ’’ دائی ‘‘ اب تو سرِعام بہو بیٹیوں کو اٹھانے، ماؤں بہنوں پر کتے چھوڑنے اور دن دیہاڑے کیٹرے مکوڑوں کی طرح بندے مار کر بھی ہمارے تعظیمی کندھوں پر، بلکہ اب تو ہماری مجبور اور بے کس چپ نے اس طبقے کو ایسا بنادیا کہ چند روز پہلے جب بلوچستان اسمبلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین عبدالمجید اچکزئی نے دن دیہاڑے سب کے سامنے ایک ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی کے نیچے دے کر مارڈالا، جب چالاکی، سیاسی اور خاندانی اثرورسوخ کے ’’دا‘‘ کے زور پر مقدمہ کسی نامعلوم کے خلاف درج ہو گیا اورجب میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر کسی ٹریفک کانسٹیبل کی بھیجی ٹریفک سارجنٹ کو کچلتی گاڑی کی ویڈیو چلی اور اتنی بار چلی کہ قانون کی آنکھیں کھلیں، عدلیہ جاگی اور بالآخر جب وڈیرے سائیں کے خلاف مقدمہ درج ہونے پر یہ پہلی پیشی پر عدالت تشریف لائے تو پھر مولاجٹ اسٹائل میں پولیس وین سے چھلانگ مارکر اترنے اور سہمی سہمی پولیس کے درمیان اک شانِ بے نیازی سے چلتے ہوئے میڈیا کوریج کرتے کیمرہ مینوں کے پاس رُک کر وہ نوری نت اسٹائل میں بولے ’’تمہیں بھی پولیس نے بلایا ہے، ‘‘ لفظ’’ ‘‘کہتے ہوئے موصوف کے چہرے پر حقار ت دیکھ کر ایسے لگا کہ وہ انسانوں سے نہیں جانوروں سے مخاطب۔
صاحبو!عبدالمجید اچکزئی اور احمد پورشرقیہ کے عوام کو سامنے رکھ کر جب میں بلا امتیاز وتفریق اوپر ملک لوٹتے بڑوں کو دیکھتا ہوںاورجب میں نیچے دکانوں، گھروں میں نقب لگاتے اور لاشوں کو نوچتے کھسوٹتے چھوٹوں کو پاتا ہوں، جب میںہر اقتداری کو پاکستان کا تیل نکالتے دیکھتا ہوں اور جب ہر بے اختیار کو اپنے اپنے ٹینکر کے سوراخوں سے شاپرز بھرتے پاتاہوں، جب میں ایک طرف حکومتی حمایتی چادر والی سرکارکے کزن ایم پی اے کو بندہ مار کر بھی وی آئی پی ماحول میں مزے کر تے پاتاہوں اور جب میں دوسری طرف پانی چوری کے الزام میں حکومتی مخالف ایم این اے جمشید دستی کو ہتھکڑیوں میں ہاتھ جوڑے رحم رحم کی دہائیاں دیتے سنتاہوں اور جب مجھے ایک طرف ہمارے ٹیکسوں پر پلتی بڑھتی سرکار اور سرکاری مشینری ’’سرکار شریف‘‘ کو بچانے کیلئے ٹمپرنگ کرتی ملتی ہے، اور جب دوسری طرف صرف این ایف سی ایوارڈ سے 9 سو ارب لینے، موٹروے، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں والے پنجاب کے آج کے مری میں بھی ڈولیوں کے پل صراط سے گر کر 13 لوگوں کی مرنے کی خبریں پڑھتاہوں تو جہاں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ چلو اس نکونک زوال میں کچھ حصہ تو اپنے ’’کرتوتوں اور اپنے داؤں ‘‘ کابھی وہاں کبھی کبھی اوپر سے نیچے تک پھیلی یہ بے حسی اور مفافقت کنفیوژ بھی کردے، جیسے کئی دنوں سے ان دو مناظر نے کنفیوژ کر رکھا کہ ایک طرف دن دیہاڑے بند ہ ما ر کر ٹکے ٹکے کی باتیں سناتا ’’اقتدار واختیار کا متکبرانہ ملاپ ‘‘اور دوسری طرف جان نکلنے تک ٹینکر کے سوراخوں سے تیل نکالتا ’’غربت اور جہالت کا لالچ بھرا امتزاج ‘‘تبھی تو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ’’ ‘‘ ٹائٹل کا اصل حقدار کون ؟