Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Samajh Aaye To Tabsara Karen

Samajh Aaye To Tabsara Karen

بہت سارے لوگ اس عمومی تاثر کے نتیجے دبے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل جانی چاہئیں۔ وہ جٹکی، اور پنچایتی، بات کرتے ہیں کہ اگر وہ سیٹیں پی ٹی آئی کی نہیں ہیں تو کس کی ہیں۔ بہت سارے سوالوں کے جواب جٹکے اورپنچایتی نہیں ہوتے، سادہ ہاں یا ناں میں نہیں ہوتے، ان کی پیاز کی طرح بہت ساری پرتیں ہوتی ہیں۔ جیسے آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ نے چوری کرنابند کر دیا ہے تو کیا آپ اس کا جواب ہاں یا ناں میں دے سکتے ہیں۔

کیا آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ میں نے کب چوری کی، کس نے ثابت کی۔ اس طرح بہت سارے سوالات سادہ نہیں ہوتے۔ ان کے پیچھے ایجنڈے ہوتے ہیں اور ان کے آگے مقاصد۔ جب ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھتے ہیں تووہ اس سوال کی طرح سادہ نہیں ہے جس کا جواب ہاں یا ناں میں دیا جاسکے جیسے یہ معروف سوال کہ کیا آپ نے اپنی بیوی کو مارنا چھوڑ دیا ہے؟

کیا موجودہ اسمبلی میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں، یہ سادہ سوال ہے اور اس سوال کے ساتھ بہت سارے دوسرے سوال جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی نام کی سیاسی جماعت انتخابات میں موجود تھی۔ جواب ہے، نہیں تھی۔ آپ فوری سوال کریں گے کہ کیوں موجود نہیں تھی تواس پر بھی بات کریں گے مگر ذرا دم تو لیجئے۔ اگر پی ٹی آئی نام کی سیاسی جماعت انتخابات میں موجود تھی اوراس نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی جیتی ہیں تو اس کا حق ہے کہ اسے اپنی جیت کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں۔ اب ا س سے آگے بہت دلچسپ صورتحال ہے۔

پی ٹی آئی نام کی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی تھی اور اس کے امیدوار الیکشن بھی لڑ رہے تھے مگر ان کے پا س ایک انتخابی نشان موجود نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے پاس انتخابی نشان کیوں موجود نہیں تھا تو اس کا جواب ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے مطابق جو اس نے الیکشن ایکٹ کے تحت کیا اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو درست قرار دیا۔ بہت سارے لوگوں کو اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے درست قرار کیوں دیا تو اس کاجواب ہے کہ اگر آپ پارٹی الیکشن نہیں کروائیں گے تو اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ انتخابی نشان واپس لے لے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیار کا عین قانونی استعمال کیا۔

بہت سارے لوگ یہاں پر کہیں گے کہ الیکشن تو مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی والے بھی بروقت نہیں کرواتے تو پھر الیکشن کمیشن ان کے خلاف یہ کارروائی کیوں نہیں کرتا تو اس کا جواب ہے کہ مسلم لیگ نون ہو یا جے یو آئی، وہ الیکشن نہیں کرواتے تو اس کے لئے الیکشن کمیشن سے مہلت لیتے ہیں اور پھر اس مدت میں الیکشن کروا لئے جاتے ہیں مگر جمہوریت کی اس نام نہاد علمبردار جماعت نے اپنی حکومت کے دوران پارٹی الیکشن نہیں کروائے حتیٰ کہ دو برس گزر گئے۔ پھر ان کی حکومت بھی ختم ہوگئی اوراس کے بعد بھی پارٹی الیکشن نہیں کروائے، ہاں، ایک طویل عرصے بعد ایک مشکوک سی جگہ پر مشکوک سے الیکشن کروا لئے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ باقی جماعتوں کے الیکشن بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں کہ وہاں رہنما بلامقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں مگر ایک لمحے کے لیے ٹھہریں کہ دوسری جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان الیکشن کے معاملے پر فرق یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے رہنما اور کارکن ان پارٹی انتخابات کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں یوں رٹیں دائر نہیں کرتے جیسے اکبر ایس بابر یا دیگر نے کیں۔ اب آپ کہیں گے کہ اکبر ایس بابر تو پارٹی کے رکن ہی نہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو کو ئی ایسا ریکارڈ پیش نہیں کیا جا سکا جس کے مطابق اکبر ایس بابر کو پارٹی سے فارغ کیا گیا ہو۔ جب ایک پارٹی کے رہنما خود اپنی پارٹی کے انتخابات کے خلاف الیکشن کمیشن میں جائیں گے تو وہاں سے وہی کارروائی ہوگی جس قانون میں لکھی ہوگی۔

مجھے علم ہے کہ آپ کے ذہن میں کون سا سوال ہے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ پھر سپریم کورٹ نے ہی دوبارہ نشستیں دینے کا حکم دیا تواس کا جواب یہ ہے کہ پھر سپریم کورٹ کو کہنا چاہئے تھا کہ اس کا پچھلا فیصلہ غلط تھا مگر وہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ عین قانون کے مطابق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ جج آئین کو ری رائیٹ کر رہے تھے اوراسے اپنا حق کہہ رہے تھے۔ کیا کہا؟ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی؟ بہت خوب، ہمارے یہ جج صاحبان جو اب پارلیمنٹ کے ہر اجلاس کے موقعے پر وضاحتیں جاری کر رہے ہیں اس وقت کہاں تھے جب اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد ڈیکلئیر کیا جا رہا تھا۔ یہ جج صاحبان سات فروری کی شام کو ہی بیٹھ جاتے کہ سب کچھ ٹی وی اور اخبارات میں آ رہا تھا اور اس وقت وہ کچھ کہہ دیتے جو بعد میں کہا۔

اصل بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان یہ چاہتے تھے کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ دو تہائی اکثریت کیوں نہ ہو کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ کسی طور پر بھی سسٹم میں موجود نہ رہیں کیونکہ وہ بہت سارے لوگوں کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ کیونکہ وہ جرأت مند اور دیانتدار تھے۔ کیونکہ وہ اپنے موضوع پر گرفت رکھتے تھے اور برطانیہ تک کو جواب دینے کی اہلیت۔ بس ساری گڑبڑ یہیں سے ہوئی جب بہت سارے پیشہ ور اور آئینی سمجھے جانے والے لوگوں نے جٹکے اورپنچائتی فیصلے کئے۔

کیا کہا، میں رولز اینڈ ریگولیشنز میں نہ پڑوں؟ پی ٹی آئی بہت مقبول تھی اور اسے ہی جیتنا چاہئے تھا۔ میں اگرچہ پی ٹی آئی کی تمام تر مقبولیت سوشل میڈیا کے گیمکس کا نتیجہ سمجھتا ہوں مگراس کے باوجود مان لیتا ہوں کہ ایک امیدوار بہت پاپولر ہے۔ رولز اینڈ ریگولیشنز کہتے ہیں کہ وہ ہفتے کی شام تک کاغذات جمع کروائے تاکہ سوموار کو الیکشن لڑ سکے مگر وہ ہفتے کی بجائے اتوار یا پیر کو کاغذات لے کر آجاتا ہے تو کیا جج اس گمان کے تحت کے کہ وہ بہت مقبول ہے، اسے منتخب قرار دے سکتے ہیں۔ میرا واضح اور دوٹوک جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ اسے رولز اینڈ ریگولیشنز پورے کرنے ہوں گے۔

مجھے علم ہے کہ آپ کے ذہن میں آخری سوال کلبلا رہا ہے کہ سب باتیں درست ہیں مگر ادارے پی ٹی آئی کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے تو میرا جواب ہے کہ اگر ادارے پی ٹی آئی کے خلاف ہیں تو اسے زیادہ محتاط زیادہ جمہوری اور زیادہ شفاف ہونا چاہیے تھا بلکہ میرا سوال ہے کہ ادارے پی ٹی آئی کے خلاف کیوں ہیں۔ اس وجہ سے کہ اس نے نومئی برپا کیا۔ اب یہ مت کہئے گا کہ وہ فالس فلیگ تھا۔ آپ مخصوص نشستوں کا سوال اٹھاتے ہیں اور میرا سوال ہے کہ نے نو مئی کے حملہ آوروں نے الیکشن ہی کیسے لڑ لیا، یہ دہشتگرد گروہ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں کیسے موجود ہے؟