حسن نثار کہا کرتے ہیں " جتنی زیادہ توقعات، اتنی زیادہ مایوسی اور جتنی زیادہ مایوسی اتنا خوفناک ردِعمل" کپتان کا امتحان شروع ہو چکا۔
ذرا فلم کو Rewind کرتے ہیں، سنا جارہا تھا کہ پی ایس پی، تحریک لبیک، جی ڈی اے، جیپ کے پیچھے کوئی ہے مگر یہ سب ناکام، سنا جارہا تھاکہ چوہدری نثار، مصطفیٰ کمال، سرفراز بگٹی کسی کے آدمی، آگے ان کا کردار بہت اہم، مگر یہ ہار گئے، سنا جارہا تھا کہ خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، ایاز صادق تو کسی صورت اسمبلی نہیں پہنچ پائیں گے مگر یہ پہنچ گئے، سنا جارہا تھا کہ پارلیمنٹ Hung رکھی جائے گی، ن لیگ70 کا ہندسہ پار کر جائے گی اورجو بھی تاج پہنے گااسے زرداری صاحب کی قدم بوسی کرنا پڑے گی مگر یہ بھی نہ ہوا، سنا جارہا تھا کہ وفاق میں اصل کھیل آزاد امیدوار کھیلیںگے، مارکیٹ ریٹ، حکومت سازی انہی کے دم سے ہوگی مگر یہ بھی نہ ہوا، سنا جارہا تھا کہ کے پی میں ایسے نتائج لائے جائیں گے کہ اے این پی اور ایم ایم اے والے پی ٹی آئی کو نکیل ڈالے رکھیں گے مگر تحریک انصاف کو پہلے سے زیادہ سیٹیں مل گئیں، سنا جارہا تھا کہ زخموں پر مرہم رکھنے اور اشک شوئی کیلئے پنجاب ن لیگ کو دیدیا جائے گا مگر یہ بھی نہ ہو سکا، سنا جارہا تھا کہ سندھ میں جی ڈی اے پیپلز پارٹی کو اوقات میں رکھے گی مگر جی ڈی اے کی اپنی عزت سادات بھی نہ رہی، سنا جارہا تھا کہ چوہدری نثار کی قیادت میں جیپ بردار عمران خان کو اِدھر سے اُدھر نہیں ہونے دیں گے مگر چوہدری صاحب اور جیپ دونوں کہیں کے نہ رہے، سنا جارہا تھا کہ کراچی کی باگ ڈور مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں میں ہوگی مگر وہ اپنی سیٹ بھی نہ جیت سکے اور تو اور اندازوں کے برعکس متحدہ مجلس عمل کی اسلام پسندی پر ووٹ نہ پڑا، اے این پی کی پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی، نواز شریف کے بیانیےکا جادو نہ چل سکا، ایم کیو ایم کراچی میں اقلیت ٹھہری، اچکزئی صاحب، سراج الحق، شیر پاؤ، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، یوسف رضا گیلانی، طلال چوہدری، سعد رفیق، عابد شیر علی اپنے گھروں میں ہار گئے، بلاول لیاری کی سیٹ نہ بچاپائے، کاش اب ہی بلاول کو لیاری کی محرومیوں، بے بسیوں اور بے چارگیوں کا خیال آجائے، یہاں یہ بتانا بھی ضروری کہ اس الیکشن میں عوام نے علاقائیت پسندی کو رد کر دیا، لسانیت پرستی ہارگئی، مذہب کے نام پر سیاست کو پذیرائی نہ ملی، کبھی دو ایسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں جو وفاق کی علامت، پی پی اور مسلم لیگ، پھر پی پی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی اور ن لیگ پنجاب تک، ان انتخابات میں تحریک انصاف وہ جماعت بن کر ابھری جسکے خیبر سے کراچی اور لاہور سے گوادر تک ووٹر اور سپورٹر، یہ مضبوط پاکستان کیلئے ایک خوش آئند بات۔
خیر یہ تو تھا جو سنا جارہا تھا، آج سنا جارہا کہ یہ الیکشن نہیںسلیکشن، دھاندلی نہیں دھاندلا، فارم 45 نہ دیئے گئے، ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا، سنا یہ جارہا کہ الیکشن چرا لئے گئے، جھرلو پھر گیا اورسنا یہ جارہا سب کچھ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کیلئے کیا گیا، طرح طرح کی کہانیاں، سازشی تھیوریاں، بھانت بھانت کی بولیاں، افواہوں اور مفروضوں پر جنگیں لڑی جارہیں، پہلی بات تو یہ کہ ہماری سیاست ایسی روندو کہ 2002 میں انتخابات ہوئے، کہا گیا دھاندلی ہوئی، 2008 کے انتخابات کے بعد سننے کو ملا، جھرلو پھر گیا، 2013 کے انتخابات میں تو سوائے ن لیگ کی سب جماعتیں دھاندلی دھاندلی پکار اٹھیں اور پھر 4 حلقے نہ کھولنے پر سوا سو دنوں کے دھرنے، دھاندلی پر 400 پٹیشنز، دھاندلی کمیشن کا بننا، سوا سو بے ضابطگیوں کا سامنے آنا، لیگی حکومت کو کلین چٹ مل جانا، یہ ایک علیحدہ کہانی، مگر بتانا یہ کہ 1970 کے بعد 10 الیکشن ہوئے اور اپنی روندو سیاست ایسی کہ ایک آدھ کے علاوہ سب انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا، اب آجائیں 2018 کے انتخابات پر، 72 ہزار پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ رکھنے والا "فافن" کہہ رہا دھاندلی نہیں ہوئی، یورپی یونین سمیت 30 ہزار مبصرین انتخابات پر مطمئن، 50 سے زیادہ حلقوں کی دوبارہ گنتی بھی ہوچکی، عمران خان کہہ چکے میں سب حلقے کھولنے پر بھی تیار، ابھی تک ایک پولنگ ایجنٹ ثبوتوں سمیت میڈیا کے سامنے نہ آیا، حالانکہ آج کل تو حال یہ کہ گدھے کو مارا پیٹا گیا، میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر کہرام برپا ہو گیا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دھاندلی کے ثبوت سوشل میڈیا پر نہ آتے یا پولنگ ایجنٹوں کو پذیرائی نہ ملتی مگر دھاندلی کے ثبوتوں کے حوالے سے خاموشی، الیکشن کمیشن میں گنتی کی چند شکایتیں، الیکشن ٹربیونلز میں دویا تین درخواستیں، باقی سب لڑائیاں، اخباروں، ٹی وی اسکرینوں پر، سب الزامات، دھمکیاں میڈیا پر، تمام زہر افشانی میڈیا پر، اللہ اللہ خیر صلا، آگے سنیے، الیکشن کمشنر کس نے چنا نوازشریف اور زرداری صاحب، مطلب ن لیگ اور پی پی نے، الیکشن کمیشن کے ممبران انہوں نے لگائے، الیکشن کروانے والی ٹیکنالوجی آرٹی سسٹم یہ لائے، اب اگر ان کا لایا ہو ا سسٹم بیٹھ گیا، ان کا الیکشن کمیشن نااہل، نالائق نکلا یا بقول انکے خفیہ دباؤ برداشت نہ کر سکا تو قصور کس کا، لانے والوں کا، سب سے پہلے تو انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہیے ناکام سسٹم اور نالائق لوگ لانے پر، جب 2013 میں دھاندلی پر آپ نے دھرنے بھگتے، افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوئے، پھر کیوں نہ ایسا سسٹم لائے جو غلطی پروف ہو، کیوں نہ ایسا الیکشن کمیشن لائے جو دھاندلی سے پاک الیکشن کروا جاتا، مگر نہ نہ، ہم سے کوئی کام نہ کہنا، خالی باتیں کروا لو، عملی طور پر کچھ نہ پوچھنا، ہم زبان کے افلاطون، جتنی چاہے بڑھکیں مروالو، معیشت ہم سے ٹھیک نہیں ہوسکتی، ادارے ہم منافع بخش نہیں بنا سکتے، خارجہ پالیسی ہم سے نہیں بنتی، داخلہ پالیسی ہمارے بس کا روگ نہیں، پرویز مشرف کو ہم لا نہیں سکتے، حسن، حسین، ڈار کو ہم بلا نہیں سکتے، 5 براعظموں میں جائیدادوں کا ہمارے پاس کوئی حساب کتاب نہیں، تھانہ کچہری، اسپتال ٹھیک کرنا ہمیں نہیں آتا، ہمارا احتساب کرو گے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی، سوال پوچھو گے تو سو یلین بالادستی کی چھت ٹپک پڑے گی، کارکردگی کے آڈٹ کی بات کرو گے تو پارلیمنٹ کی توہین ہوگی، ہم بس مظلومیت کارونا روئیں گے، سندھ قبرستان ہوجائے، بھٹو زندہ رہے گا اور پنجاب بینک کرپٹ ہوجائے، ووٹ کو عزت ملتی رہے گی، باقیوں کو چھوڑیں، آج کے تیس مارخا ں اورنظام کے سب سے بڑے ناقداسفند یار ولی، اچکزئی صاحب، سراج الحق، شیر پاؤ، مولانا فضل الرحمن سب نے پچھلے 10 سالوں میں اقتدار کے مزے لوٹے، کیوں نظام کی خرابیاں دور نہ کیں، اپنی کارکردگی کا عالم یہ کہ اسفند یارولی، کے پی میں اے این پی والے پولیس کی بلٹ پروف جیکٹوں اور اسلحے کا پیسہ تک کھا گئے، شیر پاؤ صاحب، کرپشن الزامات پر تحریک انصاف نے اتحاد ختم کر دیا، مولانا فضل الرحمن، باقی سب کچھ چھوڑدیں، 5 سالوں میں کشمیر کمیٹی کے 6 اجلاس، ایک دن پوچھا گیا تو ہنس کر بولے اب میں مقبوضہ کشمیر پر حملہ کر دوں، اچکزئی صاحب بھائی گورنر، سب رشتہ دار اقتدار میں اور بلوچستان کا حال آپکے سامنے، سراج الحق صاحب، عجیب کنفیوژ سیاست، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ووٹ نواز شریف کا، منصورہ بلا کر کھانا کھلایازرداری صاحب کو، اتحاد عمر ان خان کے ساتھ اورجہاد کرپشن فری پاکستان کا۔
قصہ مختصر کہنا یہ جو سنا جارہا تھا، جیسے 90 فیصد وہ غلط نکلا، ایسے ہی جو آج سنا جارہا یہ بھی نوے فیصد غلط، باقی سو فیصد شفاف انتخابات تو امریکہ جیسے ملک میں بھی ممکن نہیں رہے، خیر چھوڑیں گزرے کل کی نااہلیوں، نالائقیوں کو، یہ رونا دھونا تو نہ ختم ہونے والا، آج کی بات کرتے ہیں، عمران خان وزیراعظم بننے والے، ان کی وکٹری تقریرتو بے مثال، لیکن جہانگیر ترین کا جہاز، آزاد امیدواروں کی آمدورفت اور عمران خان کا آزاد امیدواروں اور ہارس ٹریڈنگ پر اپنا موقف، پھر خان صاحب کل جس پرویز الہٰی کو پنجاب کا ڈاکو کہا کرتے تھے، آج ان کی تعریفیں مگر چونکہ مجھے وکٹری تقریر سے پہلے والے عمران خان سے اب کوئی لینا دینا نہیں، مجھے وکٹری تقریر کے بعد والے عمران خان سے مطلب اور ابھی تک خان صاحب نے حلف بھی نہیں اُٹھایا، لہذااب تک جو وہ کر چکے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قابلِ قبول، یہاں تک ٹھیک، اب دیکھتے ہیں ان کی کابینہ سلیکشن، پنجاب، کے پی کے وزراء اعلیٰ کا چناؤ، حلف لینے کے بعد پنجاب، مرکز میں تگڑی اپوزیشن اور بال کی کھال ادھیڑتے میڈیا کے سامنے وعدوں، دعوئوں اور خوابوں کی طرف ان کا سفر، اوپر سے میاں صاحب جیل میں، زرداری صاحب کی انکوائریاں ہو رہیں، چھوٹے میاں صاحب نیب میں، بیوروکریسی شکنجے میں، ایکٹو جوڈیشری، فعال نیب، پھر سول ملٹری تعلقات، عالمی تنہائی، امریکی ناراضی، آئی ایم ایف کا گھیرا، قرضے، خسارے، برباد ہوچکے ملکی ادارے، نیا صوبہ، 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی، بے روزگاری، لا اینڈ آرڈر، احتساب خو دسے، پروٹوکول لینا نہیں، سرکاری پیسے پر عیاشی نہیں، قصہ مختصر 22 کروڑ کی محرومیاں، بے بسیاں اور توقعات، یہاں پھر حسن نثار یا د آجائیں کہ جتنی زیادہ توقعات، اتنی زیادہ مایوسی اور جتنی زیادہ مایوسی اتنا خوفناک ردِعمل " کپتان کا امتحان شروع ہو چکا۔