ہُندا نیں کرنا پیندا اے ،عشق سمندر تَرنا پیندا اے ،سُکھ لئی دُکھ جھلنا پیندا اے ،حق دی خاطر لڑنا پیندا اے،تے جیون لئی مرنا پیندا اے ۔
ابراہم لنکن نے اپنے دوست ولیم ہرن ڈان کو کمرے میں بلایا ،دروازہ اندر سے لاک کیا اور اسے تقریر سنانا شروع کر دی ،یہاں یہ بتانا ضروری کہ تقریر کی ریہرسل کرتے لنکن کی صدارتی الیکشن مہم کے نہ صرف یہ ابتدائی دن تھے اور نہ صرف ان دنوں امریکہ میں سیاہ فاموں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل تھے بلکہ یہی وہ دن تھے کہ جب امریکہ میں کالوں کے حقوق کی بات کرنے والا بھی قابلِ نفرت ہوجایا کرتا ،خیر لنکن نے تقریر شروع کی تو بات پہلے ہی جملے پر اٹک گئی اور بات کیسے نہ اٹکتی کہ جب تقریر کا پہلا جملہ ہی یہ کہ ’’ ہمارا نظام نہیں چل سکتا کیونکہ اس میں آدھے لوگ آزاد ہیں اور آدھے غلام ‘‘ لنکن کا دوست بولا’’آپ تقریر سے یہ فقرہ نکال دیں ‘‘ ابراہم لنکن نے پوچھا’’ کیا یہ درست نہیں‘‘ دوست نے جواب دیا’’یہ درست تو ہے مگر یہ وقت اس درست بات کا نہیں،آپ گوروں سے خطاب کرنے جارہے ، گورے آپکے منہ سے یہ سن کر آپکی حمائیت سے دستبردار ہو سکتے ہیں ، آپکی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے اور یہ چیز آپ کے صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہو سکتی ہے ‘‘ پوری بات سن کر لنکن دوٹوک انداز میں بولا’’ میرے دوست ۔۔۔ لیڈرزسچ بولنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار نہیں کرتے ، کوئی بات نہیں میری مقبولیت چاہے صفر ہوجائے اور چاہے میں الیکشن بھی ہار جاؤں لیکن میں سچ پر کوئی Compromise نہیں کروں گا‘‘ اور پھر لنکن نے جب ایک لفظ بدلے بنا یہ تقریر کی تو پورے امریکہ کے گورے بھڑک اُٹھے ،احتجاج اور مظاہرے شروع ہوئے ،لنکن سے معافی مانگنے کو کہا گیا اور اسکی مقبولیت کا گراف آسمان سے زمین پر آگرا مگروہ ڈٹ گیا ، آئے روزاپنا سچ دہرانے لگا اور آخرکار جب آہستہ آہستہ لوگوں کو بات سمجھ آنا شروع ہوئی تو نہ صرف لوگ لنکن کے ہمنوا ہوئے ، اسکے Bold مؤقف کی تعریفیں شروع ہوئیں ، اسکی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ ہوئی اور وہ الیکشن جیت گیا بلکہ اس کی تقریبِ حلف برداری وہ پہلی تقریب بنی کہ جس میں شرکت کر کے کالوں نے پہلی بار وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا۔
دوستو! یہ امریکی نظام کی دیگ کا صرف ایک دانہ، اور بھی بہت کچھ اس دیگ میں ، مگر ایک ہی دانہ چکھا کر بتانا صرف یہ تھا کہ ایک تو یہ ہے وہ مضبوط بنیاد کہ جس پر کھڑا امریکہ آج پوری دنیا پر راج کررہا اور دوسرا جب لیڈرز Compromise نہیں کر تے یا جب قیادت سچی ہوتو پھر خوشامد، ریاکاری ،فراڈ ، دونمبری ،چوری اور ڈاکوں میں پڑے بنا ملک ایسی ترقی کریں کہ سپر پاور ہو جائیں لیکن کہیں اگر صورتحال اسکے برعکس ہوتو پھر کیا ہو ، یہ دیکھنے کیلئے اب ہم جھوٹ ،فراڈ ، راہزنیوں ،ڈکیٹیوں اور نااہلیوں کی آگ پر گزشتہ 70 سال سے پکتی اپنی’’ مفاداتی بریانی ‘‘سے بھی2 دانے چکھتے ہیں ،ہم گذرے کل کے جھوٹوں کو ایک طرف اور آج کے پاناما اور ڈان لیکس کو دوسری طرف رکھ کر دوتین ماہ پہلے ایک ’’فائیو سٹار ہولی ‘‘کی تقریب سے خطاب کرتے وزیراعظم نواز شریف کی بات سنتے ہیں ، وہ فرما رہے تھے کہ ’’میں مخالفین کو نہیں اللہ تعالیٰ کو جوابدہ اور مجھے یہ بھی معلوم کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ میرا مخلوقِ خدا کے ساتھ کیا سلوک ‘‘اب یہیں رُ ک کر ذرا ایک نظر اس مخلوق پر کہ جس کی جوابدہی کی بات نواز شریف صاحب کر رہے تو حضورِ والا ا س مخلوق کی حالت یہ ہو چکی کہ ابھی 5 دن پہلے غربت اور فاقوں سے تنگ آئی ایک ماں اپنے تینوں بچے نہر میں پھینک دیتی ہے ،بیسوؤں مثالیں اوربھی ،مگر دیگ کا دوسرا دانہ چکھتے ہیں ، دوچار روز پہلے یہی پاناما زدہ وزیراعظم کہ جن کیلئے سپریم کورٹ اب جے آئی ٹی بنا چکی ،فرماتے ہیں کہ ’’ چاروں طرف کرپشن دیکھ کر دل دُکھتا ہے ‘‘ ، اب بتائیے میاں صاحب کا دل دُکھ رہاہے اور وہ بھی کر پشن پر۔۔کیوں ٹھنڈپڑی کلیجے میں ۔۔
صاحبو! اپنی دیگ کے دو دانے چکھا کر بتانا یہ تھا کہ یہی وہ دو عملی کہ جس نے پاکستان کا حال یہ کر دیا کہ ایک طرف جسکے گھر سے لوٹ مارکا پونا ارب نکلے وہ سیکرٹری خزانہ بلوچستان تو ایک دن بڑے آرام سے پتلی گلی سے نکل جائے جبکہ دوسری طرف جیب کترے اور معمولی جھگڑے کرنے والے بھکے ننگے مہینوں ہتھکڑیاں پہنے کورٹ کچہریوں میں رُلتے رہیں ، ایک طرف 11 میگا کرپشن کیسوں والے یوسف رضا گیلانی ہوںیا32 کیسوں والے کراچی کے میئر وسیم اختر یا پھر اربوں کی کرپشن کے الزام والے شرجیل میمن، سب کے سب ضمانتوں پر باعزت زندگیاں گذار رہے جبکہ دوسری طرف معمولی چوری چکاری اور آوارہ گردی کے شبہے میں پکڑے ہوؤں کی روزانہ چھترول ہو اور انکی سال سال تک پہلی پیشی ہی نہ ہو پائے ،ایک طرف وہ زرداری صاحب کہ جن کے پاس صرف سوئس بینکوں میں غریبوں کا 6ارب پڑا ہوا اور جنہوں نے اپنے پنج سالہ اقتدار میں کسی غریب کیلئے کچھ نہ کیا ، دوسری طرف وہی زرداری صاحب یہ فرمائیں کہ ’’خواہش ہے کہ میرے غریبوں کو ہر چیز ملے ‘‘ ، ایک طرف جس ملک کے صرف ایک شہر اسلام آباد کے مکین ہر ہفتے ولائیت سے آیا پانی کا ایک کنٹینر پی جائیں ، جبکہ دوسری طرف اسی ملک کے سندھ اور بلوچستان میں 100 سے زیادہ جوہڑ ایسے کہ جہاں آج بھی انسان اور جانور اکٹھے پانی پی رہے ، ایک طرف ایک ایکسرے کیلئے 2 دو مہینے عوام لائنوں میں لگی ہوئی جبکہ دوسری طرف نزلے اور زکام کیلئے بھی ولائیت جاتے رہنما، ایک طرف طبقہ اشرافیہ کی پوری نسل باہر پڑھ رہی جبکہ دوسری طرف غریبوں کے ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر جبکہ غریبوں کے سکولوں کی حالت یہ کہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری سکولوں میں 11 ہزار سکول عمارتوں کے بغیر ، 15ہزار سکولوں کی عمارتیں خطرناک ڈکلیئر اور 50 ہزارسکولوں کی عمارتوں کی فوری مرمت ہونے والی اور ایک طرف جمہوریت کی بقاء کیلئے شریف برادران زرداری صاحب کو دعوت کھلائیں تو وہ 72 ڈشوں والی ہو جبکہ دوسری طرف ابھی پچھلے ہفتے تھر میں بھوک 5بچے مزید مار دے اور ایک بچہ تو یوں جان سے جائے کہ اسے جو ایمبولینس اسپتال لے جارہی تھی وہ راستے میں ہی خراب ہوگئی یعنی 70 سال پہلے قائداعظم ؒ بھی خراب ایمبولینس کی نذر ہوئے جبکہ 70 سال بعد تھرپارکر کابچہ بھی خراب ایمبولینس میں ہی مرجائے ، مطلب 70سالوں میں ہم اپنی ایمبولینس ہی ٹھیک نہ کرسکے ۔
لیکن بات ایمبولینس تک ہی محدود نہیں ، یہاں تو حال یہ کہ 1988 میں بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوا ز شریف جس تونسہ لیہ پل کا افتتاح کرتے ہیں ،30 سال بعد رواں ماہ اسی پل کا دوبارہ افتتاح فرمادیتے ہیں ،کیا مستقل مزاجی ہے ، اب ایک طرف 30 سالوں میں سویت یونین ٹوٹ گیا ،چین اکنامک سپر پاور بنا اور ملائشیا اور ترکی دنیا کے نقشے پرچھا گئے ، ایک طرف 30 سالوں میں دنیا کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ پر ،لیپ ٹاپ سے آئی پیڈ پراورآئی پیڈ سے سمارٹ فون پر آگئی اور ایک طرف ان 30 سالوں میں انٹرنیٹ وائی فائی میں بدلا اور تھری جی، فورجی ،وٹس ایپ اور فیس بک پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنادے جبکہ دوسری طرف 30 سالوں میں ہم ایک تونسہ لیہ پل بھی نہ بنا پائے ،تو صاحبو ! بات تو سمجھ آچکی ہوگئی کہ یہاں یہ سب کیوں ؟لیکن اب یہاں سوال یہ کہ کیا کرنا چاہیے کہ یہ سب کچھ بدل جائے تو بات بڑی سادہ سی کہ یہ سب کچھ تبھی بدلے گا، جب ہم بدلیں گے ، اب سوا ل یہ کہ ہم کیسے بدلیں تو وہ ایسے کہ جب ہمارے ہاں عقیدت پرستی کی بجائے بصیرت پرستی ہوگی ،جب ہمارے ہاں قرآن خوانی کی بجائے قرآن فہمی ہوگی ، جب ہمارے ہاں جہالت کی بجائے علم معتبر ٹھہرے گا ، جب ہمارے ہاں سائنس بھی سائیں جتنی اہم ہو گی ،جب ہاں تضحیک کی بجائے تحقیق پر فوکس ہوگا، جب ہم الائشوں کو آرائشوں میں بدلنا سیکھ لیں گے ،جب آپس میں لڑنے کی بجائے ہم حالات سے لڑیں گے ، جب ہم مسل کی بجائے عقل پر بھروسہ کریں گے ، جب ہمیں صبر اور جبرمیں فرق کا پتا چل جائے گا ، جب ہمارے ہاں تعداد کی بجائے استعداد بڑھے گی ،جب سوال اُٹھا نا کفر نہیں فخر کہلائے گا،جب ہم فتوے کی بجائے تقوے پر فخر کریں گے ، جب ہم کائنات کو بے توقیر کرنے کی بجائے کائنات کو تسخیر کرنے لگ جائیں گے ،جب ہم تکبر کی بجائے تدبر کریں گے اور جب امام ضامن کے ساتھ ساتھ ہماری حفاظت کاہمارا نظام ضامن بھی ہوجائے گاتو پھر ہم بھی بدل جائیں گے اور ہمارا سب کچھ بھی بدل جائے گا، مگریاد رہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے چسکوں اور غیبتوں کی محفلیں سجانے سے نہ کبھی کچھ بدلا اور بدلے گا ، اگر آپ واقعی کچھ بدلنا چاہتے ہیں تو منوبھائی کی یہ بات پلے باندھنا ہوگی کہ’’ ہُندا نیں کرنا پیندا اے ،عشق سمندر تَرنا پیندا اے ،سُکھ لئی دُکھ جھلنا پیندا اے ،حق دی خاطر لڑنا پیندا اے،تے جیون لئی مرنا پیندا اے‘‘ ۔