محترم ڈار صاحب بلاشبہ محمد ؐسے وفا ہمارے ایمان کا حصہ مگر کبھی یہ بھی سوچ لیں کہ محمدؐ کی وفا ہم سے تقاضا کیا کرے کیونکہ یہاں اصل صورتحال دیکھ کر تو افتخار عارف ہی یاد آئیں کہ :
رحمت ِ سیّدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
امت ِ سیّدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے
حضورؐ فرمائیں ’’کوئی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اسے میں اس کے والدین اور اولاد سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں‘‘، گویا وفا کی پہلی شرط ہی یہی کہ محمدؐ ہر رشتے اور ہر شے سے زیادہ عزیز ہوں، محترم! اپنے اِردگرد نظر دوڑا کر ذرا یہ تو بتائیں کہ عملی طور پر صورتحال یہی، پھر حضور ؐ کاہی فرمان کہ ’’مومن بزدل ہوسکتا ہے، بخیل ہو سکتا ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا‘‘، محترم! بس اتنا بتا دیں کہ آپ کے ہاں ہی سچ بولا جا رہا، چلو باقی سب چھوڑ دیں، صرف پاناما لیکس کے حوالے سے ہی کچھ فرما دیں اور پھر محمدؐ کا ہی قول کہ ’’سودی کاروبار کا مطلب اللہ اور رسول ؐ سے جنگ‘‘، محترم! کاروبارِ مملکت کو ایک طرف رکھ کر صرف غیر ملکی قرضوں پر اس ساڑھے 13 سو ارب کے سود کو لے لیں کہ جو پوری قوم اب ادا کرے گی، یعنی ان ڈائریکٹ ملک کا ہر فرد سود میں پھنس چکا، اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دنیا بھر میں سود کا کاروبار ہو رہا اور دنیا کے نظام سے لیفٹ رائٹ ہونا مطلب پوری دنیا سے کٹ جانا، تو بھی پہلی بات یہ کہ جہاں اللہ اور رسول ؐ کی بات آجائے وہاں کیا اگر مگر اور جہاں معاملہ آخرت کا ہو وہاں دنیا کی کیا حیثیت اور پھر وہ کام جس کے کرنے کا مطلب اللہ اور رسول ؐ سے جنگ، وہ کام محمدؐ کے وفادار کیسے کر سکتے ہیں، چونکہ4 سال سے تو آپ خود وزیر ِخزانہ، لہٰذا سوال یہ کہ ان 4 سالوں میں محمدؐ کی وفا میں سودی نظام کے خاتمے کیلئے آپ کتنی کوششیں کر چکے، یہ الگ بات کہ حقائق تو بتا رہے کہ جس شرح سود پر آپ نے قرضے لئے یا لے رہے، اس شرح سود پر تو اُس زرداری دور میں بھی قرضے نہ لئے گئے کہ جسے ملکی تاریخ کا سب سے بُرا معاشی دور کہا جائے۔
آگے بڑھتے ہیں، محمدؐ کا عدل ایسا تھا کہ چوری کے ایک مقدمے کے دوران جب آپ ؐ سے سفارش کی گئی تو آپؐ نے فرمایا ’’فاطمہ ؓجو مجھے بہت عزیز اور جو میری آنکھوں کا نور اگر وہ بھی چوری کرتی تو میں اسے بھی یہی سزا دیتا‘‘، محترم! اب اپنا قانون اور انصاف دیکھ لیں، آپ کا سزا، جزا کا نظام تو ایسا کہ غریبوں کیلئے کانٹوں بھرا بستر جبکہ امیروں کیلئے پھولوں کی سیج، گو کہ آج ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں جے آئی ٹی سوال وجواب کر رہی اور گو کہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ آتے جاتے، ٹاٹا بائی بائی اور پریس کانفرنسیں کرتے شہزادے لیکن پھر بھی ذرا سی سختی پر نہال ہاشمی گرج رہے اور بھانت بھانت کے ترجمان برس رہے، مگر روزانہ تھانے کچہریوں اور جیلوں حوالاتوں میں رعایا کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر ہوتے سلوک پر کبھی کوئی نہال ہاشمی گرجا نہ کبھی کوئی حکومتی ترجمان برسا، آگے چلیے اور سنیے محمدؐ کے حقیقی وفادار عمرِفاروق ؓکا یہ قول کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے بھوک سے کتا مرے گا تو اس کا ذمہ دار بھی عمرؓ ہوگا‘‘، محترم! ویسے تو آپ کی رعایا کہیں ڈاکٹر تو کہیں دوائی نہ ملنے پر مر رہی، کہیں اسے غربت نگل رہی تو کہیں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی اس کیلئے موت بنی ہوئی اور ویسے تو سینکڑوں مثالیں ذہن میں مگر آج صرف ایک ہی مثال دینے کو دل چاہ رہا، ایک وہ دور کہ ’’امیر المومنین دریائے فرات کے کنارے بھوک سے کتے کے مرنے کی جوابدہی سے خوفزدہ‘‘ اور ایک یہ دور کہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا وزارت ِداخلہ کا وہ نائب قاصد اقبال جو جب اڑھائی تین مرلے کا سرکاری کوارٹر بچانے کیلئے ہر افسر کے پاس اپنے بیٹے کی نوکری کیلئے جا چکا، جب وہ ہر صاحب کے ترلے، منتیں کر چکا اور جب اسے سب یہی جواب دے چکے کہ ’’بیٹے کو باپ کی جگہ نوکری اور اس کا سرکاری کوارٹر تبھی مل سکے کہ جب باپ کا دورانِ ملازمت انتقال ہو جائے‘‘ تو پھر وزیراعظم ہاؤس سے ڈیڑھ سو اور ایوانِ صدر سے 100 گز کے فاصلے پر قائد کے دیس کا اقبال یہ کہہ کر وزارتِ داخلہ کی چھت سے کود گیا کہ ’’اگر میرے مرنے پر بیٹے کو نوکری اور گھر والوں کو چھت مل سکتی ہے تو پھر یہ سودا مہنگا نہیں‘‘، محترم! وقت ہمیں کس موڑ پر لے آیا کہ ایک اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور دوسرے اقبال کو اسی پاکستان میں یہ تعبیر ملی، اگر سوچا جائے تو محمدؐ کے وفاداروں کی حکومت میں یہ نوبت تو آنی ہی نہیں چاہیے تھی، لیکن چلو مان لیا کہ اقبال کے نصیب میں یہی لکھا تھا تو پھر بھی اس سانحے کے بعد صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم سے لیکر آپ تک محمدؐ کے کس وفادار نے خالی اشک جوئی کی ہی خاطر اقبال کے کوارٹر کی چوکھٹ پار کی۔
محترم! لگتے ہاتھوں یہ بھی سنتے جایئے کہ حضورؐ کا حجرہ چند فٹوں کی لمبائی چوڑائی والا تھا، بستر چمڑے کا اور اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے جبکہ بجری اور ریت والی زمین پر بچھی ایک پرانی سی چٹائی، جب آپ ؐلیٹتے تو جسم پر پتھروں کے نشان پڑ جاتے لیکن جب بھی آرام دہ بستر دینے کی کوشش کی جاتی تو آپؐ فرماتے ’’مجھے ان چیزوں کی کیا ضرورت، میرے لئے تو یہ دنیا اس درخت جیسی کہ دورانِ سفر مسافر جس کے سائے میں تھوڑی دیر آرام کے بعد آگے چل دے‘‘، محترم! اب ذرا اپنے رائے ونڈ محل کو لے لیں، 17 سو ایکڑ پر پھیلے محل کی ملحقہ زمین بھی شامل کر لی جائے تو بات 25 ہزار کنال تک جا پہنچے، شاہی محل کے شاہی کچنوں، شاہی ڈرائنگ روموں اور شاہی بیڈ روموں کی بات نہ بھی کریں تو بھی شاہی سوئمنگ پول، شاہی مچھلی فارم، شاہی چڑیا گھر اور شاہی جھیل کی ٹھاٹھ باٹھ سنبھالے نہ سنبھلے، پھر خدمتیں کرتے سینکڑوں ملازمین اور محل کی تزئین وآرائش سے لیکر محل کو آتی سٹرک تک سب maintenance سرکاری خرچے پر، محترم! پھر کیا محمدؐ سے وفا یہی کہ وزیراعظم ہاؤس کا ماہانہ خرچہ ہو 8 کروڑ، ایوانِ صدر کیلئے رکھے جائیں ماہانہ ساڑھے 7 کروڑ اور ممنون حسین کی تنخواہ میں اضافہ ہو 6 لاکھ جبکہ مزدور سے کہا جائے کہ وہ 30 دن گزارے 15 ہزار میں اور کیا محمد ؐسے وفا یہی کہ میرٹ کی بجائے پسند ناپسند اور اقربا پروری سے بھرے دیس میں 2 فیصد کی ایسی موجیں لگی ہوئیں کہ ان کے نزلے زکام کے چیک اپ بھی ولائیت میں جبکہ 98 فیصد کی حالت یہ کہ ایک ایک ٹیکے اورایک ایک گولی کیلئے لائنوں میں لگنا پڑے۔
محترم ڈار صاحب! محمدؐ سے وفا تو یہ تھی کہ جرم کرنے پر امیر المومنین عمرؓ کے بیٹے کو بھی کوڑے لگیں، محمدؐ سے وفا تو یہ تھی کہ مسلمانوں کو انتشار سے بچاتے حضرت عثمان ؓ اپنا اقتدار حتیٰ کہ جان بھی قربان کردیں اور محمدؐ سے وفا تو یہ تھی کہ امام حسین ؓسب کچھ قربان کر دیں مگر یزید کی بیعت نہ کریں، مگر محترم! چونکہ محمدؐ کے وفاداروں کی اکثریت نے محمدؐ کی سیرت ہی نہ پڑھی لہٰذا یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آلِ محمدؐ نے کبھی دن میں دو کھانے نہ کھائے اور ایک مرتبہ جب حضرت فاطمہ ؓ نے روٹی پیش کی تو آپؐ نے فرمایا ’’فاطمہ تین دن کے بعد یہ پہلا لقمہ جو میرے حلق سے اترے گا‘‘ اور محمدؐ کے وفاداروں نے محمدؐ کے اسوئہ حسنہ پر توجہ ہی نہ دی ورنہ اتنا پتا تو چل ہی جاتا کہ ’’خندق کھودتے وقت جب باقیوں نے پیٹ پرایک پتھر باندھا ہوا تھا تو محمدؐ نے پیٹ پر 2 پتھر باندھ رکھے تھے اور وفات کے وقت محمدؐ کی بکری ایک یہودی کے پاس 30 سیر گیہوں کے عوض گروی تھی‘‘ مگر اسحٰق ڈار صاحب اس کے باوجود کہ یہاں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہونے والا کیونکہ حضورؐ ہی یہ بھی بتا گئے کہ ’’احد پہاڑ اپنی جگہ سے سرک سکتا ہے مگر عادتیں نہیں بدلا کرتیں‘‘ لیکن بجٹ تقریر کے آخر پر جب آپ نے ’’کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘ والا شعر پڑھا اورجب بعد میں آپ نے یہ کہا کہ ’’گردن کٹ سکتی ہے مگر شعر واپس نہیں لیا جا سکتا‘‘ تب سے دل یہ کہنے کو چاہ رہا کہ محترم ڈار صاحب بلاشبہ محمدؐ سے وفا ہمارے ایمان کا حصہ مگر کبھی یہ بھی سوچ لیں کہ محمدؐ کی وفا ہم سے تقاضا کیا کرے، کیونکہ اصل صورتحال دیکھ کر تو افتخار عارف ہی یاد آئیں کہ:
رحمت ِ سیّدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
امت ِ سیّدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے