اِدھر بل دستخطوں کیلئے گورنر کو بھجوایا گیا، اُدھر رنگ میں بھنگ پڑ گئی، کیسے، کہانی شروع سے سنیں، 3 سوا تین ہفتے پہلے اسمبلی ممبران کی تنخواہوں، الاؤنسز میں اضافے پر کام جاری تھا، ایک روز سائیں آ دھمکے، فرمایا، وزیراعلیٰ کا ریٹائرمنٹ پیکیج ہونا چاہئے، پوچھا گیا، کیا ہونا چاہئے، بولے، سوچ کر بتاتا ہوں، دو تین دن بعد سائیں جو وزیراعلیٰ ریٹائرمنٹ پیکیج لائے وہ کچھ یوں تھا، سابق وزیراعلیٰ کو 3 گاڑیاں، 10 سیکورٹی گارڈز، 2 کلرک، ایک پرسنل سیکریٹری، لاہور میں ایک گھر مع یوٹیلیٹی بلز، علاج کی سہولت، ٹیلی فون بل، دو گاڑیاں، دو ڈرائیور ملیں اور یہ سب عمر بھر کیلئے، بات اسپیکر پرویز الٰہی تک پہنچی تو انہوں نے سائیں سے کہا "ایک تو یہ کچھ زیادہ ہی، دوسرا وزیراعظم کے کانوں سے گزار لیں، بعد میں کوئی مسئلہ نہ بن جائے، سائیں بولے "پیکیج فائنل کر لیتے ہیں، وزیراعظم سے پوچھنا میری ذمہ داری"، وزیراعلیٰ، اسپیکر بیٹھے، آخرکار طے ہوا، سابق وزیراعلیٰ کی سیکورٹی کیلئے 2500 سی سی گاڑی مع پٹرول، ایک ڈرائیوار، 5سیکورٹی گارڈز، ایک جدید کار مع پٹرول و ڈرائیور سابق وزیراعلیٰ کے ذاتی استعمال کیلئے، ایک پرسنل سیکریٹری، دو جونیئر کلرک، دس ہزار ماہانہ فون بل، اگر سابق وزیراعلیٰ کے پاس لاہور میں گھر نہ ہو تو ایک گھر، یو ٹیلیٹی بلز اور گھرکی تمام maintenance کے ساتھ، یہ تمام سہولتیں عمر بھر ان سابق وزرائے اعلیٰ کو ملیں گی جو کم ازکم 6 ماہ وزیراعلیٰ رہے ہوں، یہ ہو گیا، اب مرحلہ تھا وزیراعظم کے کان سے یہ بات گزارنے کا، وزیراعظم لاہور آئے، میٹنگ ختم ہوئی، سائیں وزیراعظم کے ذرا قریب ہو کر بولے، سندھ اسمبلی ممبر کی تنخواہ ایک لاکھ 80 ہزار ماہانہ، خیبر پختونخوا اسمبلی ممبر بھی تقریباً اتنی ہی تنخواہ لے رہا، بلوچستان اسمبلی ممبر کی تنخواہ ساڑھے 4لاکھ لیکن پنجاب اسمبلی ممبر کی تنخواہ 80 ہزار کے قریب، تمام جماعتیں متفق، تنخواہ بڑھائی جائے، ہم تنخواہ اور چند الاؤنسز میں اضافہ کر رہے، وزیراعظم نے یہ سن کر کہا "زیادہ نہ کرنا، تھوڑا تھوڑا کرکے کر لیں"، اسی رات سائیں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو کہہ دیا، وزیراعظم سے پوچھ چکا، منظوری مل گئی۔
بل پاس ہوا، تفصیلات سامنے آئیں، بات میڈیا تک پہنچی، وزیراعظم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک تو الاؤنسز کی مد میں اتنا اضافہ، دوسرا سابق وزیراعلیٰ کیلئے بھی کوئی پیکیج، انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، غصہ عروج پر، سائیں کی کلاس لی، مراعات پیکیج ختم کرنے کو کہا، گورنر کو فون کیا "بل منظور نہ کرنا"، ٹویٹ کر دیا، سائیں کے ہاتھ پاؤں پھولے، شہباز گل چوہدری پرویز الٰہی کے پاس پہنچے، تجربہ کار چوہدری صاحب نے کہا: ایک راستہ ہے، جب کوئی ٹائپنگ یا کلریکل غلطی ہو جائے تو اسپیکر بل منگوا کر تصحیح کر کے دوبارہ بھجوا سکتا ہے، یہی کر لیتے ہیں، اسپیکر نے بل واپس منگوایا، سیکورٹی کے علاوہ سابق وزرائے اعلیٰ پیکیج نکال کر بل دوبارہ گورنر کو بھجوا دیا، وزیراعظم کو آگاہ کر دیا گیا، گو کہ اب بھی وزیراعلیٰ کی تنخواہ 59 ہزار سے 3 لاکھ 50 ہزار، اسپیکر کی 49 ہزار سے ایک لاکھ 75 ہزار، ڈپٹی اسپیکر کی 55 ہزار سے ایک لاکھ 65 ہزار، وزیر کی 45 ہزار سے ایک لاکھ 85 ہزار، ہر اسمبلی ممبر کی 83 ہزار سے ایک لاکھ 85 ہزارہو چکی، الاؤنسز اضافہ اس کے علاوہ، مگر 35 وزراء، 38پارلیمانی سیکرٹریوں، 40 قائمہ کمیٹیوں، 5معاونین خصوصی اور 3مشیروں والے تبدیلی چاند، وسیم اکرم پلس کا ریٹائرمنٹ پیکیج ختم ہو چکا، یہ بھی سنتے جائیے، تنخواہیں، الاؤنسز بڑھانے کا جواز یہ بنایا گیا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی زیادہ ہو گئی، لہٰذا گزارہ مشکل، مطلب پنجاب میں تحریک انصاف کہہ رہی کہ اسد عمر نے جو ڈالر مہنگا کیا، اس سے مہنگائی ہوئی جبکہ مرکز میں اسد عمر اینڈ کمپنی کہے جا رہی ڈالر بڑھنے سے بھی بھلا کبھی مہنگائی بڑھی، پھر قرارداد پیش کرنے والوں میں سابق گورنر مخدوم احمد محمود کا ارب، کھرب پتی بیٹا مخدوم عثمان محمود بھی شامل، یعنی ذاتی جہازوں والے اس نوجوان کی بھی خواہش کہ میری بنیادی تنخواہ 18 ہزار سے 80 ہزار کی جائے، مزے کی بات یہ بھی کہ بھارتی جارحیت کے بعد گزشتہ 7مہینوں میں یہ پہلی بار کہ سب جماعتیں متفق ہوئیں، چلو اپنے لئے ہی سہی، مزے کی بات یہ بھی کہ یہ سب تب کیا گیا، جب عمران خان اپنی سادگی مہم پر فخر فرما رہے، جب 7ماہ میں عوام پر ڈیڑھ ارب کے ٹیکس لگائے جا چکے، جب بجلی، گیس کے بلوں کی صورت میں بجلیاں گرائی جا چکیں، جب مہنگائی کا طوفان آ چکا اور جب حکومت کشکول تھامے پیسوں کیلئے دربدر ٹھوکریں کھا رہی۔
اب ذراسائیں لارڈ صاحب کی بھی سن لیں، پنجاب اسمبلی سے صاف پانی بل پاس کروا چکے، بل کے مطابق صوبے بھر کو صاف پانی پہنچانے منصوبے کے پیٹرن انچیف سائیں خود، بورڈ ممبران کا انتخاب بھی سائیں نے ہی کرنا، بورڈ چیئرمین بھی سائیں، اربوں کے اس منصوبے میں استعمال ہونے والی مشینری بھی سائیں کے بیٹے کی جو اس وقت دبئی میں پڑی ہوئی، یاد رہے سائیں لارڈ صاحب نے شہباز شریف دور میں بھی یہ بل لانے کی کوشش کی مگر شہباز شریف نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔
جاتے جاتے یہ بھی سن لیں، میاں صاحب کیلئے 5میڈیکل بورڈز بن چکے، بیسیؤں معائنے، ٹیسٹ ہو چکے، وزیراعظم کہہ چکے علاج کی ہر سہولت دی جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی صحت کمیٹی بنا چکے، حکومت پنجاب کا نمائندہ میاں صاحب کو جیل میں مل کر یہ آفر کر چکا "آپ بتائیں کس اسپتال، کون سے ڈاکٹر سے علاج کروانا"، کارڈیک ایمرجنسی یونٹ جیل پہنچایا جا چکا، ایکسر سائز سائیکل مہیا کی جا چکی، چند لمحوں کیلئے یہ رہنے دیتے ہیں کہ میاں صاحب کو جو سہولتیں مل رہیں، وہ کسی مجرم کو ملنی چاہئیں؟ چند لمحوں کیلئے یہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ کیا یہ سہولتیں کسی دوسرے قیدی کو ملتی ہیں؟ یہ سن لیں، میاں صاحب اب تک 5 مرتبہ یہ کہہ کر علاج کروانے سے انکار کر چکے کہ "میں نے اپیل کی ہوئی، ضمانت ہو گی تو لندن علاج کراؤں گا، نہ ہوئی تو یہاں کا سوچوں گا" اب اس کے باوجود کہا جا رہا سیاست حکومت کر رہی، ہماری تضحیک ہو رہی، علاج کی سہولتیں نہیں دی جا رہیں، خوفِ خدا، کوئی ضمیر نامی شے، اتنا جھوٹ، اتنی ڈرامہ بازی، اتنی ایکٹنگ بلکہ اتنی اوور ایکٹنگ۔
باقی یہ کہنا، ارے بھائی تین دفعہ کے وزیراعظم کے ساتھ یہ کر رہے ہو، ارے وہ تین دفعہ کے وزیراعظم، یہ سلوک ہو رہا، سنا نہیں وہ تین دفعہ کے وزیراعظم، کیا مذاق ہے، اگر کسی نے 3 حج کیے ہوں اور وہ ڈاکہ مارتے پکڑا جائے، تو کیا یہ کہا جا سکے، اسے کچھ نہ کہو، اس نے تو 3 حج کیے ہوئے، کسی شخص نے 3 ایم اے کیے ہوں، مقابلے کے امتحان میں فیل ہو جائے تو کیا یہ کہا جا سکے، اسے پاس کر دو اس نے 3 ایم اے کر رکھے، کوئی شخص اپنے 3 میڈیکل اسٹوروں پر جعلی دوائیاں بیچ رہا ہو، پکڑا جائے تو کیا یہ کہا جا سکے، اسے کچھ نہ کہا جائے، اس کے تو 3میڈیکل اسٹور ہیں، قانون ہے تو سب کیلئے، نہیں تو کسی کیلئے بھی نہیں، چاہے کوئی 20 دفعہ کا وزیراعظم ہو یا درجہ چہارم کا ملازم، قانون کی نظر میں دونوں برابر، آخری بات گاڈ فادرز کی بقا کی جنگ حتمی مرحلے میں، جاگدے رہنا، کوئی چور دروازہ نہ کھلے، کوئی پتلی گلی نہ ملے، کوئی بچ نہ پائے، جاگدے رہنا۔