جب ابرار الحق کی ہر دوسری بات میں پروفیسر صاحب کا ذکر آنے لگا ، جب وہ اپنے ہر حوالے میں پروفیسر صاحب کے حوالے دینے لگا ، جب ’’بلو دے گھر‘‘ جاتے جاتے اس کی گاڑی اچانک صوفی ازم اور تصوف کی طرف مڑ گئی اور جب اُس کا مجھے اپنے ’’روحانی بابے‘‘ سے ملوانے کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو پھر ابرار کے ساتھ ایک دن مجھے پروفیسر صاحب سے ملنا ہی پڑگیا ،مجھے اچھی طرح یاد کہ گرمیوں کی اُس دوپہر کالے کوٹ کے نیچے گہرے زرد رنگ کی شرٹ،زرد شرٹ پر انتہائی شوخ سرخ ٹائی اور کالے جوتوں میں رنگ برنگی جرابیں پہنے کلین شیو پروفیسرصاحب پر پہلی نظر پڑتے ہی میرا ’’روحانی بابے ‘‘ کا امیج ہوا ہوگیا ،یہی نہیں بلکہ روحانیت کی رہی سہی کسر تب نکلی جب سلام دعا اور حال احوال کے بعد صوفے پر آلتی پالتی مارکر پروفیسر صاحب خالص پینڈو سٹائل میں چائے کے کپ میں بسکٹ ڈبو ڈبوکر کھانے لگے اور اس سے پہلے کہ میں کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسکتا ، اچانک پروفیسر صاحب نے بولنا شروع کر دیا اور پھر موسم کے حال، انسانی مسائل اورپوسٹ ماڈرنزم سے ہوتے ہوئے جب باتوں کی یہ نان سٹاپ ٹرین بلّھے شاہ جنگشن پر پہنچی تو اچانک ابرار الحق کی آواز آئی ’عصر کی نماز نہ پڑھ لیں ‘عصر کا وقت ہوگیا ، میں نے یہ سوچ کر شدید حیرانی میں گھڑی دیکھی تو عصرکا وقت کیا، عصر آخری دَموں پر تھی ،5گھنٹے گذر گئے ،مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا ،افراتفری میں وضو کیلئے جاتے ہوئے ابرارالحق نے جب آہستہ سے پوچھا ’’سچی دس بھٹی۔۔ مزاآیا‘‘میں نے کہا ’’یار مزے کو چھوڑ، میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ 5گھنٹوں کی گفتگو کے دوران جب بھی میرے ذہن میں کوئی سوال آتا تو سوال پوچھنے سے پہلے ہی پروفیسر صاحب اسکا جواب دیدیتے ، یا ر میں تو ایک سوال بھی نہ کر سکا ‘‘ ابرار زیرِلب مسکرا کر بولا ’’انشاء اللہ آئندہ بھی نہیں کر سکو گے ‘‘ اور واقعی دوستو میں آج تک پروفیسر صاحب سے ایک سوال بھی نہیں پوچھ پایا ، ان گذرے 10 بارہ سالوں میں پروفیسر صاحب سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں وہ منوں ٹنوں کے حساب سے بولے لیکن ہر بار انکی انگلی پکڑے جب بھی کسی دیکھی ان دیکھی دنیا کی سیر کرتے کرتے میں ان سے کچھ پوچھنے کیلئے پرتول ہی رہا ہوتاکہ پروفیسر صاحب میرے سوال سے پہلے ہی میرے سوال کا جواب دے دیتے ۔
یہاں پہلے تو یہ بتادوں کہ میں پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کی بات کر رہا ، اُس پروفیسر مبشر کی کہ جن کے بارے میں آج لکھتے ہوئے میں کنفیوژکہ ان کا کیا کیا بتاؤ ں اور کیا کیا چھپاؤں ، دوستو! سیانے کہیں کہ دوطرح کے لوگوں سے ڈرو، ایک وہ جن کے ساتھ رہنا مشکل اور دوسرے وہ جن کے بغیر رہنا مشکل ، پروفیسر صاحب دونوں طرح کے انسان ، ان کا فنی اور طبی قد اتنا بڑا کہ پاکستان کے کسی کونے میں بھی کھڑے ہو کر کوئی بھی انہیں بڑی آسانی سے پتھر مارلے،شخصیت ایسی کہ آپ انہیں ساتھ لے جارے ہوں تو دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ وہ آپکو ساتھ لے جارہے ، گو کہ یہ اب عمر کے اس حصے میں کہ جہاں نیکی کرنے سے زیادہ مشکل برائی کرنا مگر شکل وصورت ایسی کہ آپ انہیں خوبصورت کہہ سکتے ہیں نہ بدصورت،بوڑھا کہہ سکتے ہیں نہ جوان اور ان کے ساتھ بیٹھ کر تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو کچھ کہنا ہوتا ہے ،انہی کو کہنا ہوتا ہے ، یہ دوستوں سے دوستی وہاں سے شروع کریں جہاں دوسرے چھوڑ جائیں اور دوست ایسے خطرناک کہ اکثر انکے دشمنوں کو بھی پتا تب چلے جب وہ ان کے دوست بن چکے ہوں ، دوستوں سے ہرباریوں ملیں جیسے برسوں بعد مل رہے ہوں اور برسوں بعد بھی یوں ملیں جیسے روز مل رہے ہوں ، انکے بارے میں اچھی رائے قائم کرنے کیلئے ان سے ایک بار ہی ملنا کافی البتہ ان کے حوالے سے بُری رائے قائم کرنے کیلئے انہیں بار بار ملنا ضروری ، یہ وہ کام نہیں کرتے جو ہونہ سکے اور وہ کام بھی نہیں کرتے جو ہر کوئی کر لے ،یہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ گذارا کر لیں مگر ہرقسم کے لوگ انکے ساتھ گذارہ نہیں کر سکتے ، یہ چپ بھی ہوں تو لگے کہ بول رہے اور ان کا ایک بار بولنا کئی دفعہ سنائی دے ، انہیں شکسپیئرسے زیادہ شکسپیئر کے ڈرامے ازبراورانہیں بلّھے شاہ سے زیادہ بلّھے شاہ کا کلام یاد، انہیں دورسے دیکھنے پر ان سے ایسی ہمدردی ہوکہ ان کا بوجھ بٹانے کو دل چاہے مگر قریب آنے پر اپنا بوجھ اترتا محسوس ہو اورپروفیسر صاحب مزاجاً ایسے کہ کھیلوں سے اس لیئے دلچسپی نہیں کہ انہیں وہ جیت نہیں چاہیے کہ جس سے کسی کی ہار جڑی ہوئی ہو ‘‘۔ صاحبو ! پروفیسر صاحب کی بات چھڑ جائے تو پھر بات رُوکنا مشکل لیکن مجھے بات اس لیئے روکنی پڑ رہی کیونکہ مجھے بات کرنی ہے پروفیسر ملک حسین مبشر کی آپ بیتی ’’ میم بشر ‘‘ کی کہ جس کا پونے 4سو صفحات کا مسودہ نہ صرف میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ لیا بلکہ اسے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ زندگیاں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے پروفیسر صاحب کی یہ کتاب جب چھپ کر آئے گی تو لوگوں کی اکثریت بھی اسے ایک ہی نشست میں پڑھے گی ۔
مجھے یہ کتاب ہٹ بلکہ سپر ہٹ ہونے کا اس لیئے بھی یقین کیونکہ ’’ میم بشر ‘‘ اُس انسان کی بائیو گرافی جو ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز پاچکا ،جو دنیا کے 100 ممتاز عالموں میں سے ایک،جو ذہنی امراض کا کامیاب ترین معالج ، جو سینکڑوں پوسٹ گریجویٹس کو سکائٹرسٹ بناچکا ،جو پاکستان کی پہلی ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کا وائس چانسلر،جو مبہوت کر دینے والا مقرراور جو بے مثال یاداشت کا حامل استاد ،منتظم اور صوفی،پھر ’’میم بشر‘‘ ہی یہ بھی بتائے کہ زندگی لاکھ مشکلات اور مصائب میں گھری ہو مگر توکل کی چھتری تلے محنت ،ہمت اور برداشت کی راہوں پر جب بندہ اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کیلئے جینا سیکھ جاتا ہے تو پھر سب کچھ ہی آسان اور ممکن ہوجاتا ہے ،’’میم بشر‘‘ میں ہی آپ یہ بھی پڑھ سکیں گے کہ پاکستان کی پیدائش کے 4ماہ بعد اندرون لاہورمسجد وزیر خاں کے نواحی محلے کوچہ چابک سواراں میں پیدا ہونے والے پروفیسرصاحب کے پر دادا ملک وزیر محمد کو لاہور کی چوتھی اینٹ کا لقب کیسے ملا،رشوت کی آفر ہونے پر پروفیسر صاحب کے والد کیوں رو پڑے،انکی نانی کو روحانی خلافت کیسے ملی ، ڈاکٹر صاحب کو الف ب سکھانے والی آپا مریم کون تھیں ،یہ سکول کے ’’لنچ ٹائم‘‘ میں لنچ کرنے کی بجائے مس بٹ کا سودا خریدنے کیوں چلے جاتے ،بچپن میں یہ اپنے محلے کی مسجد میں جھاڑو کیوں دیا کرتے اور8 سال کی عمر میں گدوبندر کے پاگل خانے میں آہنی پنجروں میں قید جانور نما انسانوں کو دیکھ کر انہوں نے خودسے کیا تہیہ کیا ،’’میم بشر ‘‘ میں ہی آپ کو یہ بھی ملے گا کہ انہیں خواب میں کیسے نبی کریم ؐ اور علی بخش ہجویریؒ کے دیدار نصیب ہوئے ، انہیں کیسے حضرت زینبؓ کی ذاتی آرام گاہ کی زیارت ہوئی ، انہوں نے حضرت بلالؓ کے مزار کی چادر کیسے حاصل کی ، وہ شیخ سعدی ،ؒ حضرت جامیؒ ، امیر خسروؒ اور فریدالدین عطارؒ کے مترجم کیسے بنے ، ان کی نظر میں معرفت ،شریعت اور طریقت کیا اور ان کے خیال میں بدن ،نفس اور عقل کے تقاضے اورواحدانیت ،روحانیت،تصوف اور صوفی ازم کی منزلیں کیا، ’’میم بشر‘‘ میں آپ یہ بھی پڑھیں گے کہ اللہ والے کیسے ہوتے ہیں ،عشق اول اور عشق آخر کا مطلب کیا اور عقیدتِ نبیؐ ،حبِّ علیؓ اور محبتِّ اہل بیت کے تقاضے کیا ، پھر وہ’’ درگاہی پیالہ ‘‘کیا جو پروفیسر صاحب نے عابدہ پروین کے ہاتھوں پیا اور دنیا بھر کیلئے ایک گلوکارہ پروفیسر صاحب کیلئے مرشد کیسے ہوئیں اور’’میم بشر‘‘ہی آپکو یہ بھی بتائے گی کہ پروفیسر صاحب کو راولپنڈی جنرل اسپتال میں مردہ خانے اور دھوبی گھاٹ کے ساتھ بڑ کے درخت کے نیچے میز کرسی لگا کر کیوں بیٹھنا پڑا ، انکی شکائیت لگانے پر سزادینے کی بجائے جنرل ضیاء الحق نے انہیں ایوارڈ کیوں دیدیا،اُنہوں نے 82 کتابوں کے مصنف اور عظیم ماہر نفسیات ڈیوڈسٹیفورڈ کلارک کی شاگردی کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے ،اُنہوں نے برطانوی شہریت کیوں ٹھکرادی،پرائیویٹ میڈیکل کالجز مافیا ان کا دشمن کیوں ہوا،انہیں 27 سو 35عدالتی چکر کیوں لگانا پڑے ، انہیں انکے ہی دفتر میں کس نے 3دن قید کیئے رکھا ، ان کی دومرتبہ جان لینے کی کوشش کیوں کی گئی ،وہ خالد مقبول اور شہباز شریف کی تعریف کیوں کرتے ہیں اور انہیں زرداری صاحب،لطیف کھوسہ اور ڈاکٹر عاصم سے کیا شکائیتیں ، صاحبو! یہ تو ایک جھلک اوریہ تو چند باتیں ورنہ ’’لاانسان سے میم بشر تک ‘‘ اس کہانی میں اور بھی بہت کچھ اور ایسا کچھ کہ میں بڑے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ جہاں یہ کتاب پڑھ کراپنے لیئے جینے والوں میں دوسروں کیلئے جینے کی اُمنگ پیدا ہوگی وہاں یہ کتاب پڑھ کر پروفیسر صاحب کو پسند کرنے والے ان سے محبت کرنے اور ان سے حسد کرنے والے ان سے رشک کرنے لگ جائیں گے ۔