کہاں ہمارے منڈیلے، کہاں نیلسن منڈیلا، کہاں اپنے چھومنتروں کے لچھن، کہاں منڈیلا کی عظمت، کہاں ہم باتوں کے دھنی، خودغرضیوں، مطلب پرستیوں، موقع پرستیوں کے قطب مینار، کہاں قوم اور نظریات کیلئے جیا، مرا منڈیلا، براہِ مہربانی منڈیلا کو بدنام نہ کریں، اپنی اقتداری سیاستوں، سستی شہرتوں، طعنوں سے انہیں دور رکھیں، دل تو نہیں چاہ رہا، بھینسوں کے آگے بین بجانے کا، لیکن پھر بھی، منڈیلا کیا تھے، صرف ایک ٹریلر پیشِ خدمت، یہ تو سب جانتے ہیں کہ 1918 میں کوسا زبان بولنے والے قبیلے تھیمبو میں پیدا ہونے والے منڈیلا کا پیدائشی نام رولیہلاہلا، خاندانی نام "مادیبا"جبکہ استاد نے نام دیا نیلسن، یہ بھی سب کو ہی معلوم کہ اپنی قوم، نظریات کی خاطر 27 سال جیل میں گزارنے والے منڈیلا نے 6 برس قید ِ تنہائی بھی کاٹی، یہ بھی سب کو پتا کہ رہائی کے بعد انہیں 1993 میں نوبل انعام ملا جبکہ 1994 میں وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے، لیکن یہ بہت کم کے علم میں ہوگا کہ 27 سال قید کے اگلے دن ہی یہ کہنے والے" جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طر ف لے جارہا تھا، تب میں نے سوچا کہ اگر اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا "، جی ہاں یہ کہنے والے منڈیلا صدر منتخب ہو کر آٹھ احکامات جاری کریں، جو پڑھنے، باربار پڑھنے بلکہ یاد رکھنے لائق، پہلا حکم، ایوان صدر میں موجود تمام گورے اپنے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے، اندازہ کریں جن کے خلاف عمر بھر جدوجہد کی، جلیں کاٹیں، ماریں کھائیں، اقتدار، اختیار اور طاقت ملتے ہی ان سب کو قبول کرلیا، دوسرا حکم، میری سیکورٹی کی ذمہ داری انہی گورے سکیورٹی افسروں کے پاس رہے گی جو گورے صدور کی حفاظت کرتے تھے، تیسرا حکم، میں اپنے مہمانوں کوخود چائے بنا کر دوں گا، کوئی ویٹر مجھے سرو نہیں کرے گا، چوتھا حکم، میں اپنے ذاتی گھر میں رہوں گا، پانچواں حکم، جنوبی افریقہ کے تمام گورے جنوبی افریقی شہری، جوانہیں تنگ کرے گا اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی، چھٹا حکم، آج کے بعد میرا کوئی ذاتی یا سیاسی مخالف نہیں، ساتواں حکم، ملک کی سرکاری یا سیاسی میٹنگوں میں میرے خاندان اور دوستوں میں سے کوئی شامل نہیں ہوگا اور آٹھواں حکم میں اس ملک کا عام شہری ہوں، میرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے۔
آگے سنئے، صدارت کے پہلے دن گھر سے نکلے، معمول کے مطابق گارڈز کے بغیر کیپ ٹاؤن کی ان سٹرکوں پر جاگنگ کی، جن سٹرکوں، فٹ پاتھوں پر لاشوں کاپڑے ہونا ایک عام بات اورجن سٹرکوں پر گھات لگائے بیٹھے دہشت گردوں کیلئے بندے مارنا کسی شغل سے کم نہیں، مگر جب منڈیلا باہرنکلے تو 1994 تک دنیا کا خطرناک ترین ملک جنوبی افریقہ ایک سال بعد ہی اس قابل ہوگیا کہ رگبی ورلڈ کپ ہوگیا، یہ تھے نیلسن منڈیلا، یہ ہے لیڈر شپ، ایک دھیلے کی کرپشن نہیں، کبھی اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں، اقربا پروری پاس سے نہیں گزری، یہ منڈیلا ہی کہہ سکتا ہے کہ" اگر آپ دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا، باہمت لوگ امن کیلئے کبھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے اور یہ اہم نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے اہم یہ کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کیلئے کیا کیا"۔
اب خود ہی بتائیںمیں میں کرتے اپنے خالی برتنوں میں کوئی اس قابل کہ منڈیلا چھوڑیں، لیڈر ہی کہلا سکے، یوٹرنوں کے بادشاہ، اپنی ذاتوں، اولادوں، جائیدادوں کیلئے جیتے مرتے، جھوٹ منافقت کے شاہکار، سیاست جن کیلئے کاروبار، احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کے درمیاں جھولے مائیاں کرتے، جن کی باتوں سے وعدوں تک سب ملاوٹ زدہ، جنہیں اول تا آخر حکمرانیوں کی لت، چسکہ، شوق، انہیں چھوڑیں، اپنی قوم مطلب اپنا حال ملاحظہ کر لیں جو اور بھی بدتر، ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے والے، راشن کارڈ، ہیلتھ کارڈ، رزلٹ کارڈ اُٹھائے کسی نہ کسی چوکھٹ پر سجدہ ریز، دماغ غلامی سے بھرا ہوا، پیٹ بھوک سے لبالب، ہنرکوئی ہے نہیں، کلر کی جتنی مرضی کروا لو، ہر چھوٹے نے ایک بڑا پکڑا، جانوروں کی انتڑیوں سے گھی بنانے سے کھوتے کا گوشت کھلا نے تک، زندوں کی جیبیں کاٹنے سے مردوں کے کفن کھینچتے تک، منہ پر خوشامدیں کرنے سے پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے تک، 90 سالہ مائی کو لوٹنے سے 4 سالہ بچی کی جسمانی زیادتی تک، ہر دونمبری، ہر برائی میں ماہر، خود انحصار، خود کفیل، با ضمیرایسے کہ ایک مرلے زمین کیلئے سگا بھائی سگے بھائی کو ما ر دے اور چار چار ہٹے کٹے بیٹوں کے ہوتے ہوئے ماں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی، یہ انہی رہنماؤں اور قوم کا تال میل کہ آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں۔
کیا کیا بتاؤں، ایک ہوم میڈ مینڈیلا 3 دفعہ وزیراعظم بنا، گزرے سوا دوسالوں میں اتنے جھوٹ کہ گینزبک آف ورلڈ ریکارڈ والے ڈھونڈتے پھریں، کہانی یہ سنائے کہ ہمیں بھٹو نے تباہ کیا، ہم سے بی بی نے دشمنی کی، ہمیں مشرف نے کہیں کا نہ چھوڑ ا، صورتحال یہ کہ چالیس پچاس فیکٹریاں ملک میں، 5 براعظموں میں جائیدادیں الگ، کمائی ایسی حلال کہ پیسے کما ئے کیسے، باہر بھجوائے کیسے اور جائیدادیں بنائیں کیسے، ایک جواب بھی نہیں، مجرم ہوا تو فرمایا، اب عوام اور جمہوریت کی جنگ لڑی جائے گی، سبحان اللہ، ایک چنی منی ٹریل ہے نہیں، نان اسٹاپ فرمودات ختم نہیں ہو رہے، یہ بھی کمال کہ جن فیلٹس کا منڈیلا کو علم نہیں اورجن فلیٹس کے کاغذات ان کے پاس نہ بچوں کے پاس، عدالت کا فیصلہ انہی فلیٹس میں بیٹھ کر سنا اور پریس کانفرنس انہی فلیٹس میں بیٹھ کر کی، آگے سنئے، میں جمہوریت کی جنگ لڑنے آرہا، باہر نکلو، لیکن میرے بیٹے لندن کے پرفضا مقام پر ہی رہیں گے اور اس بار بھی قوم کے بچوںسے کام لیا جائے گا، واہ بھائی واہ، محلات میں رہیں آپکے بیٹے، جائیدادوں کے مزے لوٹیں آپکے بیٹے، لیکن مشکل وقت آئے تو باہر نکلیں قوم کے بیٹے، میں صدقے میں واری اس انقلاب پر۔
دوسرے منڈیلے کو دیکھ لیں، سندھ کو قبرستان میں بدل کر پھر سے امیدوار، پھر سے ملک ان کے حوالے کروتا کہ رہی سہی کسر بھی نکل سکے، بیڈ گورننس، کرپشن، اقرباپروری، سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکیں، عزیر بلوچ سے نثار مروہی تک، ایان علی سے ڈاکٹر عاصم تک، شرجیل میمن سے انور مجید تک سب قصے کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر صرف 35 ارب کی منی لانڈرنگ کی ایف آئی اے رپورٹ ہی پڑھ لیں، ترس آئے پاکستان پر، کس بے دردی سے لوٹا ان قصائیوں نے، اپنے تیسرے منڈیلے پر نظر مار لیں، پورے ملک کے "صاف شفاف نگینے "ان کی پارٹی میں جڑ چکے، ایسے ایسے نام، ایسے ایسے کام، نیب کے ملزم، قرضے معاف کرانے والے، کرپشن زدہ اور نجانے کو ن کون، اللہ خیر ہی کرے۔
یقین جانئے انہی منڈیلوں اور ان کے پجاریوں کی محنتیں کہ ملک قرضوں میں مکمل ڈوب چکا، بیروزگاری، مہنگائی عروج پر، تمام قومی ادارے آخری سانسیں لیتے ہوئے، عالمی تنہائی، سرحدوں پر کشیدگی، عدم برداشت نے گھر تقسیم کر دیئے، پانی ہے نہیں، آبادی آؤٹ آف کنڑول، چاروں صوبوںمیں بڑھتی دوریاں، جبکہ قوم کو لگایا ہوا اس طرف کہ نواز شریف، مریم کی گرفتاری شو کتنا پاور فل ہوگا، جیپ کا نشان کس نے کیوں دیا، کون کس کا لاڈلا، فلاں کو فلاں کال کر رہا، فلاں فلاں کو دھمکیاں دے رہا اور کون محب وطن، کون آئین شکن، یعنی زمینی مخلوق بھوکی، باتیں ہو رہیں خلائی مخلوق کی، پھر یہ بھی ہے نامزے کی بات کہ ہم کسی کرپٹ، ڈاکو یالیٹرے سے سوال پوچھ لیں تو جمہوریت پسندوں کی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے، سویلین بالادستی کا وجود تھر تھر کانپنے لگ جائے، مطلب لٹ مار کا نام جمہوریت، چتر چالاکیوں کا نام جمہوریت، مظلومیت، رونے دھونے کا نام جمہوریت، ہم نے سنا تھا کہ جمہو ریت تو خود احتسابی اور کارکردگی کا نام، خیر ہم بولیں تو طوفان آجائے لیکن خود تمام جمہوریت پسند جن دو منڈیلوں میں منقسم، سب جن دو منڈیلوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر جمہوریت اور سویلین بالادستی کا سفر طے کرنے کے خواہاں، ان منڈیلوں کی اصلیت یہ کہ ایک پارلیمنٹ عدلیہ، عوام کو بے وقوف بنا کر چھ چھ ماہ اسمبلی اور سال سال سینٹ تشریف نہ لاکر جمہوریت کو بے توقیر کرچکا جبکہ دوسرا چوکوں چوراہوں میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیج چکا۔