ذرا ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا حال تو دیکھیئے کہ امام لانبیاء حضرت محمد ؐ کے اُمتی ہو کرا ور کائنات کے آخری انسان تک کی ہدایت کاذریعہ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے بھی اپنا موازنہ غیر مسلموں سے کرتے وقت شرم آجا ئے، مگر کیا کریں ، یہی حقیقت اور حقیقت کو بھلا کون جھٹلا سکے !
یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج کے امریکی صدر کی طاقت اور اختیارات وہی جو گذرے کل سکندر اعظم کے، اب یہ سنیئے کہ سیاست میں آنے سے پہلے شگا گویونیورسٹی میں کانسٹیٹیوشن لاء پڑھانے اور بحیثیت سول رائٹس وکیل کام کرنے ، 2004 میں سینیٹر اور 2008 میں پہلے سیاہ فام امریکی صدر منتخب ہونے والے باراک اوبامہ جب 20 جنوری 2017 کو دنیا کی واحد سپر پاور پر 8سالہ حکمرانی کے بعد رخصت ہوئے تو 28ٹریلین ڈالر سے زائد کا صرف وفاقی بجٹ پیش کرنے اور امریکی جی ڈی پی میں 2.1 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرنیو الے اوبامہ اپنی اہلیہ کا ہاتھ تھامے وائٹ ہاؤس سے نکل کر 90 سالہ پرانے 82 سو مربع فٹ کرائے کے گھر میں منتقل ہو ئے ، یعنی دنیا پر 8سال راج کرنے والے کے پاس واشنگٹن میں اپنا ایک گھر بھی نہ تھا ، حضورِ والا ! ا گر اوبامہ چاہتا تو اپنے 96 ماہ کے اقتدار میں بڑی آسانی سے امریکہ کیا درجنوں ممالک میں بیسوؤں گھر بنا سکتا تھا اور اربوں کما سکتا تھا ،اگر اوبامہ چاہتا تو اس کے بھی سوئس اکاوئنٹس کھل سکتے تھے اور اس کے بھی سرے محل اور مے فیئر فلیٹس ہو سکتے تھے ، اگر اوبامہ چاہتا تو ایفیڈرین سکینڈل سے رینٹل پاور گھپلے تک یہاں کے 150 میگا کرپشن کیسوں کی رقم سے زیادہ Side پر کر سکتا تھا اور اگر اوبامہ چاہتا تو بڑی آسانی سے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ملازموں کو دنیا بھر میں ٹھیکے دلوا اور طرح طرح کے کاروبار کروا کر بے نامی جائیدادوں کے انبار لگا سکتا تھا مگر باراک اوبامہ نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد سے مقدم جانا ،پیسہ بنانے کی بجائے عزت کمانے کو ترجیح دی اور یہی وجہ کہ آج وہ کرائے کے گھر میں ہی سہی مگر بڑی عزت اور بڑے سکون سے !
حضورِ والا !جہاں اہم بات یہ بھی کہ اس وقت 55سالہ اوبامہ کے 12.2 ملین ڈالر کل اثاثوں کی انٹرنیٹ پر بھی منی ٹریل اتنی واضح کہ کسی قطری شہزادے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،وہاں لمحہ بھر کیلئے ذرا رُک کر دیکھیئے کہ جس امریکہ کو ہم روزگالیاں دیں ، اسی امریکی نظام کی خوبصورتی یہ کہ پوری دنیا کو ہانکنے والا اوبامہ رخصتی سے چند روز قبل وائٹ ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں کھڑا صحافی کو بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ ’’ایوانِ صدر میں کھانے پینے کے تمام اخراجات ،ہماری چھٹیوں پر آنے والا سارا خرچہ ، حتیٰ کہ ٹوائلٹ پیپرز تک ہم اپنی جیب سے اداکریں ‘‘، مطلب ایک طرف اتنے اختیارات اور دوسری طرف اتنی بے اختیاری ، خیر یہ تو تھا صدر ،اب ذرا نائب صدر جوبائیڈن پر بھی ایک نظر مار لیں ، 44سالہ سیاسی زندگی میں 36سال سینیٹر اور 8سال نائب صدر رہ کر 20جنوری کو اقتدار اگلے نائب صدر کے حوالے کرنے کے بعد اپنی گاڑیوں کے لاؤلشکر میں یا کسی بزنس ٹائیکون دوست کے جہاز پر جانے کی بجائے بیگم کے ساتھ واشنگٹن کے یونین ا سٹیشن سے لوکل ٹرین میں آبائی علاقے ڈیلاوئیر جاتے ہوئے جوبائیڈن اپنے ساتھ سفر کرتے صحافی کو اطمینان بھر ے لہجے میں بتا رہا تھا کہ ’’ میں جس عہدے پر بھی رہا ، میں نے سفر عوامی ٹرین پر ہی کیا اور یوں واشنگٹن سے 8ہزار مرتبہ گھر جاتے اور واپس آتے ہوئے میں نے ٹرین پر تقریباً 21ملین میل سفر طے کیا ‘‘، بائیڈن کہے کہ ’’ مجھے عوامی ٹرین پر سفر کرنا اس لیئے اچھا لگے کہ اس طرح عوام سے رابطہ رہے اور عوامی مسائل بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملے‘‘ ، مستقبل میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا اور یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں پڑھا کر اپنا تجربہ اگلی نسل کو منتقل کرکے انہیں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کا عزم رکھنے والے بائیڈن نے صحافی کو بتایا کہ ’’ میری خواہش تھی کہ میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی عوامی ٹرین پر ہی گھر جاؤں اور آج میں بڑے جوش وجذبے سے واپس اپنے علاقے ، اپنے لوگوں اور اپنے گھر جار ہا ‘‘، حضورِ والا ! یہ وہی بائیڈن کہ جسکی سیاسی امانت و دیانت کا حال یہ کہ ایک طرف اس کے دستخطوں سے 840 ارب ڈالر خرچے گئے، اور دوسری طرف اپنے کینسر زدہ بیٹے کے علاج کیلئے اسے پیسے ادھار لینے پڑے اور پھر یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ اب آپکو کبھی بھولے سے بھی اوبامہ یابائیڈن دوبارہ اقتدارکے لیئے کوششیں کرتے یا کسی اور عہدے کیلئے سازشیں اور جوڑ توڑ کرتے نہیں ملیں گے ، یہ کیا ان سے پہلے صدارت سے فارغ ہوئے بش سینئر اور بش جونیئر نے کبھی پلٹ کر بھی وائٹ ہاؤس کی طرف نہ دیکھا ،دونوں باپ بیٹا بڑے مزے سے اپنی آئل کمپنیاں چلاتے اور اپنی زمینوں پر Farming کر رہے ، یہی نہیں اپنی آٹھ سالہ صدارت کے بعد سے بل کلنٹن سیاست کی بجائے دنیا بھر میں انسانی فلاح وبہبود کے کاموں میں لگا ہوا ، اسی طرح سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر او رگورڈن براؤن سیاست سے ریٹائر ہو کر اقوام متحدہ کے مشیر بن کر اور لیکچرز دے کر زندگیاں گذار رہے اور پھر ابھی پچھلے ہفتے استعفیٰ دے کر عملی سیاست چھوڑ چکے سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بڑے مزے سے ا یک ریسٹورنٹ کے باہر فش اینڈ چپس کیلئے لائن میں لگے سب نے دیکھا ۔
اب ذرا اپنے ہاں د یکھ لیں ، یہاں ایک آدھ کے علاوہ آج تک کوئی حکمران یا سیاستدان ریٹائر نہ ہوا ، یہاں ہر کوئی مرتے دم تک عہدوں کیلئے جوڑتوڑ میں لگار ہے ، یہاں اگر کسی کو اقتدار کا ایک دن بھی نصیب ہو جائے تو وہ ان چند گھنٹوں میں اتنا کما لے کہ باقی دنیا میں اتنا سالوں میں بھی نہ کمایا جا سکے اور یہاں صورتحال یہ کہ وزیراعظموں سے لیکر میونسپل کمیٹی کے ممبران تک ،وفاقی سیکرٹریوں سے کلرکوں تک اور فیکٹری مالکان سے ٹھیلے والوں تک ، چند ایک کے علاوہ ہر کوئی’ ’ھذا من فضل ربی ‘‘ کی تختی لگائے ہر لمحے ،ہر پل اور ہر گھڑی یوں مال بنارہا کہ جیسے کسی نے مرنا ہی نہیں ، اور تو اور یہاں تو کرپشن اورلوٹ مار روکنے والے خود ہی کرپشن اورلوٹ مار کر رہے ، یہاں دونمبریوں پہ نظر رکھنے والے خود ’دس نمبری ‘ ہوچکے اور یہاں کے تو شریف زادے بھی پانامہ زدہ نکلیں ،آپ ہی بتائیں بھلا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو گا کہ جہاں ’جیک اور جگاڑ‘ ایسا کام دکھائے کہ سبزیاں بیچنے والے کی 15سالوں میں دو درجن فیکٹریاں ہو جائیں ، بال بنانے اورکپڑے دھونے والا چند سالوں میں ارب پتی ہو جائے ، نالیوں اور گٹروں کے ڈھکنوں کے سرکاری ٹھیکیدار کے بچے ولائیت میں پڑھ رہے ہوں ، وفاقی دارلحکومت کے صرف ایک سرکاری محکمے کے کلرکوں کے شہر میں 4چار گھر ہوں اور ایک مالشیئے کی جائیداد 3ملکوں میں ہو ، صاحبو! کہنے کو تو اپنا ملک وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جس کی نظریاتی بنیاد یہ کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الا اللہ ‘‘ مگر اصل میں یہاں ذہنی پستی اور اور اخلاقی گراوٹ کا حال یہ کہ امام الانبیاء حضرت محمد ؐ کے امتی ہو کر اور کائنات کے آخری انسان تک کی ہدایت کا ذریعہ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے اپنا موزانہ غیر مسلموں سے کرتے ہوئے بھی شرم آئے، مگر کیا کریں، یہی حقیقت اور حقیقت کو بھلا کون جھٹلا سکے !