برطانوی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے جب سے یہ کہا کہ ’’ ہزار سال بعد یہ زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی‘‘، تب سے ہم اس الجھن میں کہ اگر اس زمین پر ہمارے ہزار سال ہی رہ گئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے ہاں نہ میگاکرپشن سکینڈلز کا کوئی نتیجہ نکلے گا اور نہ پاناما لیکس کا معاملہ حل ہو پائے گا اور اگر واقعی ہزار سال ہی باقی تو پھر نہ میاں صاحب کے اقتدار چھوڑنے کا کوئی امکان اورنہ کپتان کی باری آنے کاکوئی چانس ، لیکن سٹیفن ہاکنگ کی یہ سائنسی درفتنی ایک طرف ، سچی بات تویہ کہ ہمیں تو سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی کبھی سمجھ ہی نہ آئی ،سائنسدانوں کی بات کریں تو ہمارے نزدیک ان کے ساتھ پہلا مسئلہ ہی یہ کہ ہمیشہ وہ لوگ سائنسدان ہوتے ہیں جنہیں نہیں ہونا چاہیے اور وہ سائنسدان نہیں ہوتے جنہیں ہونا چاہیے ، اور پھر دوسری پرابلم یہ کہ سائنسدانوں کی باتیں صرف سائنسدان ہی جانیں ، مطلب ان کی کبھی کوئی بات ہمارے پلے نہ پڑی ، جیسے ایک سائنسدان دوست نے سیلاب کے دنوں جب کہا کہ ’’دریائے چناب میں پانی خطرے کے نشان سے دوفٹ اوپر آگیا ‘‘تو ہم نے پریشان ہوکر کہا’’اب کیا ہوگا‘‘یہ بڑے اطمینان سے بولے ’’پریشان کیوں ہوتے ہو ،میں نے خطرے کا نشان پانی سے دوفٹ مزید اونچا کر دیا ہے ‘‘۔ اسی طرح پچھلے مہینے پارک میں واک کرتے ایک سینئر سائنسدان کو جب ہم سلا م کر بیٹھے تو سلام کا جواب دینے کی بجائے زبردستی روک کر سرگوشیانہ انداز میں بولے ’’تم پہلے انسان جسے یہ بتا رہاہوں کہ 5 سالہ ریسرچ کے بعد بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ موسیقی اور شاعری سن کربھینسیں زیادہ دودھ دیتی ہیں ‘‘ ،یہی صاحب کچھ عرصہ پہلے آنکھیں،چھاتی اور چھڑی نکال کریہ بھی بتا چکے تھے کہ ’’جس شخص کی بیوی جتنی پڑھی لکھی ، اسے دل کی بیماری لگنے کے اتنے ہی زیادہ امکان ‘‘ اور ’’ کوئی بندہ اپنی بیوی کا ہیرو نہیں ہوتا اور کوئی عورت اپنے ہیرو کی بیوی نہیں ہوتی‘‘ ،ان کو چھوڑیں وہ برطانوی سائنسدان جسکی 25 سالہ تحقیق کا نچوڑ یہ کہ ’’گنجے خاوندوں کی اپنی بیویوں سے زیادہ لڑائیاں ہوں اور ہر بے وقوف شخص کی بیوی خوبصورت ہوتی ہے ‘‘ قبر میں ٹانگیں لٹکائے اسی سائنسی بابے کو دو دن پہلے ہم نے ٹی وی پر یہ فرماتے سنا کہ ’’ مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں 10سال لگے کہ ٹانگہ کسی گھوڑے کی ایجاد ہے اور پہلی بار مچھر اس شخص نے ڈھونڈا جسے پہلی بار مچھر نے ڈھونڈا اور شوگر کے مریضوں کو صبر سے پرہیز کرناچاہیے کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے جبکہ میٹھا شوگر کے مریضوں کیلئے زہر‘‘۔
یہ توتھے سائنسدان ، اب ذرا اک نظر ڈاکٹروں پر ،اپنے ہاں ڈاکٹر دو طرح کے ، ایک وہ جو سابقہ مریض اور دوسرے وہ جن کا ’’مستقبل مریض ‘‘ اور پھر ان دو قسموں میں سے ایک قسم کے ڈاکٹر دانتوں کے،یہ صرف منہ کھلوائی کے ہی اتنے پیسے لے لیں کہ پھر بندے کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ جائے اور بقول شیخو 32 دانتوں کے 32 ہزار قسموں کے یہ ڈاکٹراگر کسی کو دیکھ کر ہنس پڑیں تو غصہ نہ کریں کیونکہ ان کا تو کام ہی دانت نکالنا ، اب ذکر ڈاکٹروں کا ہو تو یہ کیسے ممکن کہ ہم اپنے یارِخاص ڈاکٹر اللہ دتہ المعروف ڈاکٹراے ڈی کو بھول جائیں ،وہ ڈاکٹر اے ڈی جسکی صحت ایسی کہ بچپن میں خود کو دیکھ کر خود گبھرا جاتا جبکہ اب اسے دیکھتے ہی انشورنس ایجنٹ بھی پیلا پڑ جائے ، جسے پہلے دن سے ہی عینک اور کھانسی لگی ہوئی ، اگر عینک نہ لگائی ہو تو نظر کا یہ حال کہ باقیوں کو چھوڑیں خودکو بھی اپنی کھانسی سے ہی پہچانے ، جسکا رنگ کالامگر بتائے ’’میں پیدائشی کالا نہیں ، میں پیدا گورا ہی ہواتھا ، وہ تو اسپتال میں نرس کی غلطی سے مجھے کالے بچے سے بدل دیا گیا ‘‘ جو عمر کے اس حصے میں کہ جہاں جو چیز واضح نظرآئے وہ دوسروں کی خامیاں ، جس کی یاداشت ایسی کہ خود کہے کہ ’’ مجھے تو اکثر یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ میں کھانا کھا کر بیٹھا ہوں یا کھانا کھانے بیٹھاہوں ‘‘، جسے سردیوں کی ایک شام بھیگا کُکڑّ بنا دیکھ کر جب وجہ پوچھی گئی تو بولا’’آج بارش میں گھر سے دفتر جاتے ہوئے چھتری لے جانا بھول گیا ‘‘ ، ایک دوست نے جب ازراہِ مذاق کہہ دیا کہ ’’حضور آپکو یہ کیسے پتا چلا کہ چھتری لے جانا بھول گئے ‘‘ تو بولا ’’بارش میں پیدل آفس کے دروازے پر پہنچ کر جب میں نے چھتری بند کرنے کیلئے ہاتھ اوپر کیا تو اوپر چھتری ہی نہیں تھی ‘‘ ، جو ایسی یا داشت کے ہوتے ہوئے بھی اس لیئے خوش کہ میرا حافظہ تو پھر بھی بہت بہتر، کچھ ڈاکٹروں کی یاداشت تو ایسی کہ انہیں یہ بھی یاد نہ رہے کہ پچھلے ہفتے وہ زندہ تھے یا نہیں ، وہ ڈاکٹر اے ڈی جس کا پسندیدہ لباس تہمند یا لنگی،خود بتائے ’’ایک تو یہ ایسا لباس کہ سردیوں میں بُکل مار لیں تو ہیٹر ،گرمیوں میں گیلا کرکے اُوڑھ لیں تو ائیر کولر اور دوسرا یہ واحد لباس کہ جو بندے کو لڑائی جھگڑوں سے بچائے کیونکہ لڑائی ہونے پر بندہ مخالف کو سنبھالنے کی بجائے اپنی تہمند ہی سنبھالنے میں لگار ہے‘‘ اور جس سے ایک بار کسی نے جب یہ پوچھا کہ ’’طویل عمر کیسے ممکن ‘‘ تو اسکا جواب تھا کہ ’’ بہت آسان ہے ،بس سانس لیتے رہو ،یہ نہ رُکے ‘‘ ، ہمار ایہی ڈاکٹراے ڈی جسکی پریکٹس ایسی کہ ایک بار مریض سے کہنے لگا ’’ ایک ہفتے کے علاج کے بعد تیری عینک چھڑوا دوں گا ‘‘ اور پھر واقعی ایک ہفتے کے بعد علاج کروانے والے نے عینک پہننا چھوڑ دی کیونکہ اب اسے عینک پہن کربھی نظر آنا بند ہو گیا تھا، لیکن اسے اپنی پریکٹس پر ایسا ناز کہ ایک شام کلینک پر پہلے یہ فرما کر کہ ’’آج تک کوئی شخص میرے علاج سے نہیں مرا‘‘پھر مریضوں کے مجمے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’اگر کوئی میرے علاج سے مرا ہے تو وہ ہاتھ کھڑا کرے ‘‘ جب کسی مرے شخص نے ہاتھ کھڑا نہ کیا تو رعونت بھری عاجزی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولا’’جاہلوں نے بدنام کر دیا، ورنہ ڈاکٹر ہم بھی تھے بڑے کا م کے ‘‘ ۔ دوستو! یقین ما نیئے ، اس وقت بھونڈ ی آواز میں بے وزنا شعر سنتے ہوئے ہمارا دل گوجرانوالہ کے اُس بٹ صاحب کا ماتھا چومنے کو کر رہا تھا کہ جس نے ڈاکٹر اے ڈی جیسے ایک ڈاکٹر کے پاس جب اپنے ایک ہٹے کٹے رشتہ دار کولا کر کہا’’رپورٹ میں لکھو کہ مریض کے بازو کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے ‘‘تو ڈاکٹر نے غصے سے کہا’’ایسے کیسے لکھ دوں ،ایکسرے رپورٹ کے بعد لکھوں گا‘‘ اور پھر اگلے دن ایکسرے رپورٹ کے مطابق واقعی ڈاکٹر صاحب کے بازو کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی ۔
صاحبو! بات کہاں سے کہاں جاپہنچی ،ذکر ہو رہا تھا کہ ایک ہزار سال بعد ہماری زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی ،اب جب سے نظریاتی فزکس میں آئن سٹائن کے بعد سب سے قابل 70 سالہ سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی یہ تحقیق سامنے آئی تب سے الجھن یہ کہ وہ پاکستان جہاں حالت یہ ہو چکی کہ پوری حکومتی مشینری وزیراعظم چیمبر اور پارلیمنٹ بلڈنگ سے 7 ماہ میں صرف 430 چوہے ہی پکڑسکے اور وہ بھی ایک نجی کمپنی کی مددسے ، وہاں ایک ہزار سال کی اس تھوڑی سی مدت میں اداکارہ میرا کی شادی کا ہو جانا یا اصلی اور نقلی ایم کیو ایم کا پتا چلنا تو دور کی بات ، یہاں توصرف چوہوں کا مکمل خاتمہ بھی اس لیئے Mission Impossible، کیونکہ سننے میں آرہا کہ اب تو چوہوں کو بھی پلی بارگین قانون کا پتا چل چکا ۔