Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Na Shukra Pan

Na Shukra Pan

ارشادِ باری تعالیٰ ’’ہم نے تو بتا دیا، اب یہ بندے پر کہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ اور نبی ؐ تو یہاں تک فرما گئے کہ ’’شکر گذار ہی دنیا وآخرت میں کامیاب ہوں گے ‘‘۔

سرد ترین رات کا آخری پہر،شیخ سعدی ؒ نماز کیلئے نکلے، جوتے ٹوٹ چکے لہذ ا ننگے پاؤں مسجد پہنچتے پہنچتے ٹھنڈ سے پاؤں ایسے کہ کاٹو تو خون نہیں، اس روز شیخ سعدیؒ نے نماز کے بعد دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو بے اختیار زبان پر آگیا ’’ اللہ تیرا شکر تو نے ان نعمتوں سے بھی نواز رکھا جن کا میں حقدار نہیں، لیکن رب العالمین اب سردی میں ننگے پاؤں چلا نہیں جاتا‘‘، قبولیت کی ایسی گھڑیاں تھیں کہ مسجد سے گھر آئے شیخ سعدیؒ ابھی صحیح طرح سے بیٹھ بھی نہ پائے کہ دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے وہ شخص جسے پہلے کبھی نہ دیکھا،شیخ سعدی ؒ نے حیران ہو کرکہا ’’جی فرمائیے ‘‘ اجنبی نے پوچھا ’’آپ شیخ سعدیؒ ہیں ‘‘ بولے ’’جی ہاں ‘‘ یہ سن کر اجنبی نے جلدی جلدی کپڑے میں لپٹی کوئی چیز شیخ سعدیؒ کو پکڑا کر کہا ’’یہ لیجیئے اپنی امانت ‘‘ اور پھریہ جا وہ جا، ہکا بکا کھڑے شیخ سعدیؒ نے چند لمحوں بعد کپڑے کی تہیں کھولیں تو اندر اچھی خاصی رقم اور پھر وہیں کھڑے انہیں جب اچانک اپنی مانگی دعا یاد آئی تو آنکھوں میں آنسو آگئے، خیر اُس روز خوشی خوشی وہ گھر سے جوتے لینے نکلے اور ابھی بازار سے دور ہی تھے کہ نظر اس شخص پر پڑی جس کی ٹانگیں گھٹنوں تک کٹی ہوئیں،یہ دیکھتے ہی شیخ سعدیؒ کی حالت غیر ہوئی، وہیں زمین پر بیٹھے، زاروقطار روئے اور پھر بہتے آنسوؤں میں آسمان کی طرف منہ کر کے بولے ’’اللہ معاف کر دینا،میں یہ بھول گیا کہ جوتے تو نہیں مگر میرے پاؤں تو سلامت ‘‘ یہ روائیت یوں بھی بیان ہوئی کہ ایک روز شیخ سعدی ؒ جب اللہ تعالیٰ سے اپنے ٹوٹ چکے جوتوں کے گلے شکوؤں میں مصروف تھے تو انکی نظر اس بھکاری پر پڑی کہ جس کے دونوں پاؤں نہیں تھے،یہ دیکھ کروہ احساسِ ندامت میں بے اختیار کہہ اُٹھے ’’اللہ تیرا شکر کہ تو نے مجھے جوتوں سے محروم رکھا، پاؤں سے نہیں‘‘۔

دوستو! ہمارا رویہ بھی کچھ اسی طرح کا، ہمارے پاس جو نہ ہو ہم ا سکے غم میں وہ بھی بھلا دیں جو ہمارے پاس ہو اور یوں شکر کی بجائے گلے شکوے ہی کرتے رہیں، ذرا سوچیئے کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہمارا اللہ وہ جو ہمیں ماں سے زیادہ پیار کرے اورجو دے دے کر نہ تھکے،ہمارے پاس وہ کتاب جو پہلی سانس سے آخری ہچکی تک مکمل ضابطہ اخلاق اور ہمارے وہ رحمت ا لعالمین نبی ؐ جو ہمیں پیدا ہونے سے مرنے تک سب کچھ عملی طور پر کر کے دکھا گئے، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم آزاد اور ہمار ے پاس وہ ملک جہاں چاروں موسم،دریا،سمندر،پہاڑ اور صحرا،جہاں ہر فصل، ہر پھل اورجہاں ایسی نعمتیں اور ایسے نظارے کہ جن کی پوری دنیا میں نظیر نہیں،کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہماری زندگیوں میں صحت،سکون،رشتے دار،دوست،گھر اور روزگار سمیت ہر شے موجود،کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم انسان پیدا ہوئے،جانور نہیں،ہم لاکھوں خداؤں کی پوجا کرتے کسی ہندو کے گھر نہیں اُگے اور ہم روانڈا،ہیٹی یا صومالیہ کی بھوک اور افلاس کا حصہ نہیں بنے،کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہماری قسمت عراق،شام اور لیبیا کے ان 20 ارب پتیوں جیسی نہیں کہ جنہیں آج دال روٹی کیلئے پناہ گزین کیمپوں کی لائنوں میں لگنا پڑ رہا اورہم دنیا کے ان اڑھائی لاکھ میں سے نہیں کہ جنگوں نے جن کا ایک رشتہ بھی زندہ نہ چھوڑا، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم دنیا بھر کی جیلوں میں بند ساڑھے 10 ملین قیدیوں میں سے نہیں،ہم ایک ارب ان پڑھوں میں سے نہیں،ہم 70 ملین ایڈززدہ میں سے نہیں اور ہم ان 9 ملین میں سے نہیں کہ جنہیں اولڈ ہومز میں رہنا پڑ رہا، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارتے 3 ارب میں سے نہیں، ہم39 ملین بینائی سے محروم،1 ارب ذہنی اور جسمانی معذوروں میں سے نہیں اور کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم 100 ملین بے گھر لوگوں میں سے نہیں،ہم 2سوملین بے روزگاروں میں نہیں،ہم ان 16 فیصد میں سے نہیں کہ جن کا کوئی خدا اور نہ کوئی مذہب اور ہم ان 25 ملین میں سے نہیں کہ جو نہ مَردوں میں اور نہ عورتوں میں،ہوسکتا ہے کہ آپ قیدی ہوں،معذور ہوں اور بے روزگار ہوں اور عین ممکن ہے کہ آپ زندگی کے کسی شعبے میں کسی کمی کا شکار ہوں،لیکن یہ بھی اک حقیقت کہ جب بھی آپ نعمتوں کا شمار کریں گے تو جو کچھ اللہ نے آپکو دے رکھا وہ اس سے بہت زیادہ کہ جس سے آپ محروم، یہاں یہ بتانا بھی ضروری کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ بھی مل جائے جو ابھی تک نہیں ملا ہوا، تو جو کچھ ملا ہوا، ا سے یاد کر کے مسلسل شکر کریں گے تووہ بھی مل جائے گا کہ جو نہیں ملا ہوا، حضورِوالا یہ میں نہیں حضرت علیؓ کہہ رہے کہ ’’شکر کرو گے تو نہ صرف اللہ نعمتوں میں اضافہ کرے گا بلکہ وہ بھی عطا کر دے گا کہ جس سے تم محروم ‘‘، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ شکر کی ادنیٰ قسم زبان سے شکر کرنا اور افضل ترین شکر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرنا۔

صاحبو! مجھے اڈیالہ جیل کا وہ قیدی یاد آرہا کہ جسے 3دن بعد سزائے موت ہوناتھی او رجس سے باتوں باتوں میں جب میں یہ پوچھ بیٹھا کہ’’ کوئی خواہش جو ادھوری رہ گئی ہو‘‘، تو یہ سن کر گذشتہ 18سالوں سے قید وبند کی ہرصعوبت کا جوانمردی سے سامنا کرنے اور 4 بائی 6 فٹ کی بدبودار اورنیم تاریک کال کوٹھڑی میں متوقع پھانسی سے 3دن پہلے بھی قہقہے مارنے والے اونچے لمبے اور چوڑے شانوں والے اس سرخ وسفید شخص کا چہر ہ یکایک بجھا، آنکھوں میں آنسو آئے اور اس نے لوہے کی سلاخیں پکڑ کر اپنا سر ہاتھو ں کے درمیان سلاخوں پر رکھ کر بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہا’’بس ایک بار۔ ۔ صرف ایک بار لکڑیوں والے چولہے پر روٹیاں پکاتی ماں جی کے پاس زمین پر بیٹھ کرکھانا کھانا چاہتا ہوں‘‘ بار بار یہ دہراتے ہوئے وہ اس درد سے رویا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ سمیت ہم سب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور پھر چوتھے دن جب میں نے اڈیالہ جیل کے مرکزی دروازے کے باہر اسکی لاش سے بار بار سفید چادر ہٹا کر کبھی منہ تو کبھی ہاتھ چومتی ایک بوڑھی عورت کو دیکھا تو مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ یہی وہ ہستی کہ جس کے پہلو میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی حسرت لیئے وہ اگلے جہان سدھار چکا، یہاں مجھے اپنے ملک کا وہ ارب پتی بھی نہ بھو لے کہ زندگی کے آخری دنوں جسکے پھیپھڑے سکڑنے پر جب دنیا بھر کے ڈاکٹر جواب دے چکے تو ناک کے ذریعے مصنوعی آکسیجن لینے اور ہروقت آکسیجن کا سلنڈر ساتھ رکھنے والا یہ دولت مند ایکدن بولا’’اگر اس مصنوعی آکسیجن سے کوئی میری جان چھڑوا دے تو میں اسے اپنی ساری دولت دیدوں ‘‘،مجھے بینائی سے محروم وہ شاعر بھی نہیں بھولتا کہ ایک شام جو اپنی بے نور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگا’’بس ایکدن کی بینائی مل جائے تو پھر موت بھی قبول‘‘ اور میں آئے روز کسی نہ کسی پارک کے کونے میں گاڑی کھڑی کر کے کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے بے اولا دسابق وزیر کو بھی فراموش نہیں کر سکتا،داستانیں تو اور بھی بہت، مگر مجھے یقین کہ جو سمجھانا چاہتا تھا وہ آپ سمجھ چکے، لہذا دوستو! ہو سکتا ہے کہ آپ کو زندگی کی تپتی دھوپ یا یخ بستہ سردی میں ننگے پاؤں چلنا پڑ رہا ہو مگر یہ سوچتے ہوئے ناشکرا پن چھوڑ کر شکر گذار ہو جائیں کہ جوتے نہیں تو کیا ہوا پاؤں تو سلامت، شکر گذار ہو جائیں کیونکہ کوئی بھی پریشانی خاموش رہنے سے کم،صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جائے، شکرگذار ہو جائیں کیونکہ جسے اللہ پر یقین نہیں وہ مایوس اور جو شکر گذار نہیں وہ محروم، شکر گذار ہو جائیں کیونکہ گذشتہ نعمتوں پر شکر آئندہ نعمتوں کا سبب بنے، شکر گذار ہو جائیں کیونکہ ایمان کے دو ہی حصے ایک صبر اور دوسر ا شکر، شکر گذارہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرما چکے کہ ’’ہم نے تو بتا دیا، اب یہ بندے پر کہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ اور شکر گذار ہو جائیں کیونکہ نبی ؐ کب کے یہ خوشخبری سنا گئے کہ ’’شکر گذار ہی دنیا وآخرت میں کامیاب ہوں گے ‘‘۔