Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Qaum Ka Dard

Qaum Ka Dard

ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ وہ زمانہ اورتھا اور یہ زمانہ اور ،ممکن ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیں کہ بھلا ان معمولی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے، لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قوم کا درد رکھنے والی قیادت کا فقدان ۔

پہلے تصویر کا ایک رُخ ملاحظہ ہو !

اے ڈی سی کو جب بتایا گیا کہ گورنر جنرل جناح کھانے کے کمرے میں یا د فرمار ہے ہیں تو اس غیر متوقع طلبی پر تشویش کے عالم میں کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جیسے ہی اے ڈی سی کی نظر کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے قائداعظمؒ کے ناگواری بھرے چہرے پر پڑی تو اس کی تشویش گھبراہٹ میں بدل گئی،یس سر۔۔ اے ڈی سی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ قائدِاعظم ؒ بول پڑے ’’آپکو کہا گیا تھا کہ کھانے کی ٹیبل پر جتنے مہمان ہوں،اتنے ہی سیب رکھا کریں مگر آج میں ،فاطمہ اور ایک مہمان مطلب 3لوگ تھے لیکن سیب 4رکھوائے گئے ،جہاں یہ سرکاری پیسے کااسراف اور کھانے کا ضیاع ،وہاں یہ آپ کی لاپرواہی بھی ‘‘انتہائی کڑوے کیسلے لہجے میں یہ کہہ کر محمد علی جناح ؒ خاموش ہوئے تو چپ چاپ سرجھکائے کھڑے اے ڈی سی نے جب یہ کہا کہ ’’ واقعی سر یہ میری غلطی اورآئندہ ایسا نہیں ہوگا‘‘تو یہ سن کر قائداعظم ؒ قدرے نرم لہجے میں بولے ’’اوکے۔۔ آپ جا سکتے ہیں ‘‘۔

مشرقی پاکستان کے پہلے وزیراعلیٰ اور پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اپنی سرکاری گاڑ ی میں گھرسے دفتر کیلئے نکلے تو انتہائی لجاحت بھرے انداز میں ان کا ڈرائیور بولا ’’سر دفتر میں گاڑی کھڑی کرنے کیلئے کوئی سایہ دار جگہ ہے اور نہ کوئی شیڈ،آپکو اتار کر مجھے گاڑی دھوپ میں کھڑی کرنا پڑتی ہے اور پھر چھ سات گھنٹے مسلسل دھوپ میں کھڑی رہنے سے گاڑی اتنی تپ جاتی ہے کہ پہلے تو کم ازکم آدھے گھنٹے تک تندور بنی کار کے اندر بیٹھنا مشکل ہوتا ہے پھر جب کسی نہ کسی طرح اندر بیٹھ جاؤ تو سٹیرنگ اتنا گرم کہ اس پر کپڑا رکھ کر بھی اسے پکڑنا مشکل ،لہذا سر برائے مہربانی گاڑی سائے میں کھڑی کرنے کیلئے ایک شیڈ تعمیر کرنے کے احکامات جاری فرمادیں ‘‘وزیراعظم نے جب یہ بات سن کرحیرت سے کہا کہ ’’ واقعی۔۔ اچھا ٹھیک ہے‘‘ تو ڈرائیور سمجھا بات بن گئی ، لیکن 3چار دن تک جب کوئی ہل جل نہ ہوئی تو ایک دن خواجہ صاحب کا موڈ اچھا دیکھ کر ڈرائیور نے جب پھر اپنی بات دہرائی تو اُس دن دفتر پہنچ کر خواجہ صاحب نے اپنے سٹاف افسر سے کہا کہ’’ میری گاڑی کیلئے شیڈ کی تعمیر کے خرچے کا تخمینہ لگا کر بتائیں‘‘ ،اسی شام سٹاف افسر نے جب ایک کاغذ پر 13سو رپے کا تخمینہ لگا کر وزیراعظم کو پیش کیا تو اُنہوں نے یہی کاغذ سیکرٹری خزانہ کو مارک کر دیا اور پھر اگلے دن یہی کاغذ سیکرٹری خزانہ کے اس نوٹ کے ساتھ وزیراعظم کو واپس ملا کہ ’’چونکہ مہاجرین کی آمدورفت زوروں پر ہے اور ان کی فلاح وبہبود کیلئے رقم کی اشد ضرورت ہے لہذا فی الحال شیڈ تعمیر نہیں کیا جا سکتا ‘‘ یہ نوٹ پڑھ کر خواجہ صاحب نے اسی نوٹ کے نیچے لکھا ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ،جہاں لوگ چھت سے محروم ہوں وہاں میری گاڑی کیلئے شیڈ کی تعمیر کی کیا تُک ‘‘۔

پاکستان کے چوتھے وزیراعظم چوہدری محمد علی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دن رات گئے کام ختم کرکے جب دفتر سے اُٹھے تو سٹاف سے وزیراعظم سیکرٹریٹ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ، یہ سن کر آناً فاناً وزیراعظم سیکرٹریٹ کی تمام بتیاں روشن کرکے سٹاف نے انہیں جب پورا وزیراعظم سیکرٹریٹ دکھادیا تو چوہدری محمد علی واپس اپنے دفتر میں آئے ، تمام سٹاف کو اکٹھا کیا اور پھر درجن بھر جگہوں کی نشاندہی کر کے کہا کہ’’ جب تک میں وزیراعظم ہوں ان جگہوں پر بتیاں نہیں جلیں گیں ،کیونکہ یہ سرکاری خزانے کا ضیاع ہے‘‘ اور پھر واقعی چوہدری محمد علی کی 13ماہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ان جگہوں پر کبھی بتیاں نہ جلائی گئیں ۔

اب ذرا ملاحظہ ہو تصویر کا دوسرا رُخ !

وقت بدلا تو ہمارے ایک وزیراعظم ایسے بھی بنے کہ جنہوں نے اپنے امریکی دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ کی دعوت کیلئے نہ صرف 2افسروں کے ہمراہ تیتر اور بیٹر مرچ مصالحوں سمیت سپیشل فلائیٹ پر امریکہ منگوائے بلکہ پاکستان سے باورچی کو بھی ہنگامی طور پر بلالیا ،اپنے ملک کے ہی ایک صد ر صاحب ہوا کرتے تھے کہ جوا پنی بیٹی کے پسند یدہ اداکار کو بلانے کیلئے سال میں کم ازکم دوبار سرکاری جہاز بھجوایا کرتے ،پاکستان کے ہی ایک قائم مقام صدر ایسے بھی تھے کہ جو سرکاری خرچے پر ہر ماہ بیسوؤں مزاروں پر صرف اس لیئے چادریں چڑھا نے جایاکرتے تا کہ وہ مسلسل اقتدار میں رہ سکیں ، یہ بھی ہمارے ہی ایک صدر تھے کہ جنہوں نے اپنے غیر ملکی مہمانوں کیلئے نتھیاگلی میں ایک رات محفل سجائی تو اس پر خرچہ ہوا ڈیڑھ کروڑ کا اور پھر یہ بھی ہمارے ہی وزیراعظم تھے کہ جنہوں نے جب ولائیتی پیٹھے کدو کے حلوے کی فرمائش کی تو ہنگامی طو ر پر دو افراد دبئی روانہ ہوئے، وہاں سے پیٹھے کدو خرید کر لائے گئے اور اگلے دن شام کی چائے کے ساتھ انہیں پیٹھے کدو کا حلوہ پیش کیا گیا ، یہ سب گذری باتیں چھوڑیں ، ابھی بھی دیکھ لیں کہ بڑے گھروں میں آئے روز سجتی محفلوں اور مجلسوں کے شاہانہ اندازاور شاہوں کے ہاں ہر دوسرے ماہ ہوتے چراغاں اور کٹتے کیک ، لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ وزیراعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر سمیت کسی بڑے گھر کے کسی مکین نے کبھی بھولے سے بھی جھانک کر کسی شکستہ مکان یا کسی جھونپڑی والے کی کوئی خبر لی ہو اور کیا کبھی کسی بنی گالا،70کلفٹن اور رائے ونڈ والے نے کبھی کسی بھوکے ننگے کو اتنی اہمیت بھی دی ہو کہ جتنی اہمیت یہ اپنے پالتو جانوروں کود یں ، نہیں کبھی نہیں۔۔ نہ ایسے ہوا اور نہ ہی آگے ایسا ہونے کا کوئی امکان ، لیکن پھر بھی دوستو! یہ پڑھ کر آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ،ممکن ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیں کہ یہ معمولی باتیں اور ان سے بھلا کیا فرق پڑنے والا لیکن مجھے یہ یقین ضرور کہ آپ اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قوم کا درد رکھنے والی قیادت کا فقدان ۔