ایک پٹھان نے سرکاری زمین پر غیر قانونی دیوار بنالی تو دوست نے کہا کہ ’’کچھ ایسا کر و کہ سرکاری محکموں کو لگے کہ دیوار بہت پرانی ہے ‘‘ اورپھر پٹھان نے اپنے سب سے عقلمند دوست کے مشورے پر دیوا رپرلکھوا دیا ’’ ہم قائداعظم کوپشاور آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں ‘‘،ایک شخص گدھے پر چوڑیوں کی گٹھڑی رکھے جارہا تھا کہ ایک بے تکلف دوست نے گٹھڑی پر ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا ’’اس میں کیا ہے ‘‘وہ شخص بولا ’’دوست ایک ڈنڈا اور مارا تو اس میں کچھ نہیں ہوگا‘‘، ایک شخص نے اپنے دوست سے پوچھا ’’یار 14 فروری کو کیا ہوتا ہے ‘‘ دوست نے پوچھا’’تیری کوئی گرل فرینڈ ہے ‘‘ اس شخص نے کہا ’’نہیں ‘‘ تو دوست بولا’’ پھر تیرے جیسوں کیلئے 14 فروری کو منگل ہی ہوتا ہے ‘‘، ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا کہ ’’اگر فلمسٹار صائمہ کے خوبصورت بال ،حسین چہرہ اوردلکش خدوخال نکال دیئے جائیں تو باقی کیا بچے گا ‘‘دوسرا دوست بولا ’’تیری بھابھی ‘‘، کسی اکیلے شخص سے اکیلے پن کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولا’’ میں عمر بھر مثالی دوست کی تلا ش میں رہا ‘‘سوال ہوا ’’مثالی دوست مِلا‘‘ جواب آیا ’’ہاں مِلا مگر وہ خود مثالی دوست کی تلاش میں تھا‘‘ ، شیخ سعدی ؒ کا کہنا کہ تمہارے دوست تمہارے عیبوں کے جاسوس، خلیل جبران کہے کہ دشمن سے ایک بار ڈرو اور دوست سے ہزار بار ، جاپانی بابوں کا کہنا کہ ٹیکسی ڈرائیور ،خاوند اور دوست ہر ملک میں ایک جیسے ہی ،عربی دانش کہے کہ دوست کے گھر جانے والی پگڈنڈی پر کبھی گھاس نہ اگنے دو، چینی کہاوت کہ کبھی کسی دوست کے راز تلاش نہ کرنا اور اگر کوئی راز جانتے ہو تو کبھی فاش نہ کرنا جبکہ تر کش دانش کہے کہ بے عیب دوست چاہتے ہو تو خود بے عیب ہو جاؤ۔کہا جائے دنیا کا سب سے مشکل کام دوستوں میں دوست تلاش کرنا ، کہا یہ بھی جائے کہ جو دوستوں کے بنا گذرے وہ عمر اور جو دوستوں کے ساتھ گذرے وہ زندگی اور سچا دوست وہ جو پہلا آنسو نکلنے سے پہلے پہنچ جائے ۔
صاحبو! جیسے سیانے نبض دیکھ کر مرض اور بیو ی دیکھ کر خاوند کی حالت بتا دیں ، جیسے اچھا شوہر بالکل سپلٹ ائیر کنڈیشنر کی طرح یعنی گھر کے باہر گرم اور گھر کے اندر ٹھنڈا،دیوار سے لگا ہوا اور ریموٹ سے چلنے والا، جیسے بے وقوف کا دل اسکے منہ میں ہو اور عقلمند کا منہ اس کے دل میں اور جیسے کنوارہ وہ جسے یہ علم ہو کہ اسکی تنخواہ کہاں خرچ ہور ہی ،ویسے ہی دوست وہ جو بن پوچھے دوست کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے دُکھ ،غصے کے پیچھے پیار اور اسکی چپ کے پیچھے چھپی وجہ جان سکے ، ویسے ہی جس کا کوئی دوست نہیں وہ ’’زندہ ‘‘ کہلانے کے لائق نہیں اور جس کا کوئی دشمن نہیں وہ تو مُردوں جیسا، اور ویسے ہی جنہیں اچھے دوست نہ ملیں وہ سمجھ جائیں کہ وہ خود اچھے دوست نہیں ، صاحبو! ویسے تو دوست طرح طرح کے مگر فی زمانہ دوستوں کی دو قسمیں بہت مشہور ، ایک صدقہ جاریہ اور دوسری صدمۂ جاریہ ،دن بدن نایاب ہوتی صدقہ جاریہ نما دوستوں کی نسل کے حوالے سے تو سب جانیں کہ یہ دوست زندگی کا سکون کہلائیں اور دوستوں کی اسی قسم کے بارے میں امام غزالی ؒ فر ماگئے کہ ’’دنیا میں ایمان کے بعد اگر کوئی چیز نایاب تو ایسے دوست جو دوستوں کیلئے صدقہ جاریہ،ایسے دوست ان درختوں کی مانند جو پھل بھی دیں اور سایہ بھی ‘‘، دوستوں کی زندگیوں میں ان دوستوں کی موجودگی ایسے ہی جیسے آٹے میں نمک ، مطلب انکا ہونا یا نہ ہونا بڑا واضح محسوس ہو اور ایسے دوست ،دوستوں کیلئے وجہ سکون اور آسانیوں کا باعث ، دورِحاضر میں دوستوں کی جو قسم دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی یہ ’’صدمہ جاریہ‘‘ نما دوست ، یہ اچھے وقتوں کے دوست ، یہ مطلب اور مفاد کے دوست اور یہ وہ پرندے جو کسی بھی پریشانی یا مصیبت کے آنے سے پہلے ہی اُڑ جائیں اور انہی دوستوں کے حوالے سے اپنا شیخو کہے کہ جیسے پاکستان کے حالات، امریکی وعدے ،کراچی کی آب وہوااور عورت کے مزاج پر اعتبار کرنا بے وقوفی ویسے ہی صدمہ جاریہ نما دوستوں پر اعتبار کرنا پاگل پن۔
اب سوال یہ کہ ’’صدمہ جاریہ‘‘ نما دوست ہوں کس طرح کے اور انکی پہچان کیا ، تو ہمارے ایک ’’صدمہ جاریہ دوست‘‘ کا حال احوال سن لیں ، صورتحال کافی حدتک واضح ہو جائے گی ، ہمارا یہ دوست جسکے بارے میں یہ پکا پتا تو نہیں وہ کب پیدا ہوا ، البتہ اتنا سب کو معلوم کہ وہ پیدا ہوا ، جس میں اتنی ہی حماقت پائی جائے جتنی ہمارے سیاستدانوں میں دانش ، جو مزاج کا ایسا ٹھنڈا کہ گرمیوں میں بھی اس کے پا س چادر اوڑھ کر بیٹھنا پڑے ، جس نے زندگی بھرجو غلطی ایک بار کی پھر اسے کبھی نہ دہرایا، ہمیشہ نئی غلطی کی ، جسکی طبیعت ایسی کہ دعا بھی یوں مانگے جیسے سود خور پٹھان مقروض سے قرض مانگے ، جو ہر مسئلے پر سب سے پہلے ڈٹ جائے اور اکثر تو مسئلے سے پہلے ہی ڈٹ جائے ، جو اس قدر مذہبی کہ ہم عصر بھی اسے کہے کہ جسکے ساتھ عصر پڑھی ہو ، جو اکثر کہے میں جو سوچتا ہوں ،وہی کرتا ہوں حالانکہ جو کچھ وہ کرے اس سے یہ کبھی نہ لگے کہ وہ سوچتا بھی ہے ، جو کھانے کا اس قدر شوقین کہ ایک بار اسے کھاتا دیکھ کر جب کسی نے کہہ دیا کہ’’ آپ تو یوں کھا رہے کہ جیسے آخری بار کھا رہے ہو ں‘‘ تو یہ تب تک ناراض رہا جب تک اسے یہ نہ کہہ دیا گیا کہ’’ آپ تو یوں کھار ہے تھے کہ جیسے پہلی بار کھار ہے ہوں‘‘ ، جو اس قدر باحیا کہ ساتویں بار بھی فحش سین دیکھتے ہوئے اسکے کان اتنے ہی سرخ ہوں جتنے سرخ پہلی دفعہ سین دیکھتے وقت ہوئے ہوں ،جو مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کو یوں فخریہ بیان کرے کہ لگے یہ اسکی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ، جو اس قدر نرم دل کہ کبھی کسی پر ہاتھ نہ اُٹھایا ،جب بھی اُٹھائی انگلی ہی اُٹھائی ،جو عمر کے اس حصے میں کہ جب بُری بات بُری ہی لگے ،جسے ہمیشہ سیا ہ کار رکھنے کی وجہ سے سب ’’سیاہ کار ‘‘ کہیں ، جسکا یہ تجربہ کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں شریف لڑکی وہ جو روزانہ ایک ہی لڑکے سے چائے سموسہ کھائے اور شریف لڑکا وہ جس سے روزانہ مختلف لڑکیاں برگر کھا جائیں اور ہمارا یہی ’’صدمہ جاریہ ‘‘نما دوست جس نے دولت کے بل پر دوست نہیں دوستوں کے بل پر دولت بنائی سب کو یہ فری مشورہ دے کہ’’ خوشحال لوگوں کو دوست بناؤ ،خوشحال رہو گئے‘‘ ، یہی سب کو بتائے کہ عقلمند وہ جس کے دوست امیر اور بے وقوف وہ جو امیر دوستوں کے ہوتے ہوئے بھی غریب ، اور اسی کا کہناکہ حالات بدلنے کیلئے بیوی اور دوست بدلتے رہو ۔
صاحبو! ’’صدمہ جاریہ ‘‘ دوست وہ ’’کھوچل مخلوق ‘‘ کہ جو ہمیشہ اتنی ہی دشمنی رکھیں کہ پھر بوقتِ ضرورت آسانی سے دوستی ہو سکے اور اتنی ہی دوستی کریں کہ وقت آنے پر نگاہیں پھیر نے میں کوئی مسئلہ نہ ہو ،انکی نیتیں میلی میلی اور باتیں مطلبی مطلبی ، یہ چرب زبان ایسے کہ زبان سے سوچیں اور ان کے منہ دماغوں سے تیز چلیں ،انہیں خوشحال دوستوں کی غلط بات میں بھی حکمتیں دکھائی دیں جبکہ غریب دوستوں کی درست بات بھی درشت لگے ، انہیں اگر مطلب ہو تو خرابیوں بھرے دوستوں میں بھی خوبیاں ہی دکھائی دیں اور اگر غرض نہ ہو تو یہ ہزار خوبیوں والے دوست کو بھی ایک خامی کے بہانے چھوڑ کر چلتے بنیں، ان کا ایک مشن وقفے وقفے سے دوستوں کو دُکھی کرتے رہنا اور ان کے دُکھ بھی ایسے کہ ’’کیا کروں جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں،مجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا اور ستیا ناس ہو اس لوڈ شیڈنگ کا کہ مجھے تو اب خوابوں میں بھی اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘ ۔ قصہ مختصر اور ہزار باتوں کی ایک بات کہ صدمہ جاریہ نما دوست بہا ر،سکھ اور خوشی میں ساتھ ساتھ جبکہ خزاں ،دُکھ اور غم میں غائب اوریہ سوکھے ویلے کے بیلی جبکہ اوکھے ویلوں میں اجنبی ، لہذا صاحبو! اگر آپ کا بھی کوئی صدمہ جاریہ نما دوست ہے تو براہِ مہربانی ایک تو اس سے ہر شے کی توقع رکھیں کیونکہ یہ کبھی بھی کسی بھی وقت کچھ بھی کرجائے گا اور دوسرا اس سے کوئی توقع نہ رکھیں کیونکہ یہ کبھی بھی آپکی کسی توقع پر بھی پورا نہیں اترے گا ۔