کہنا یہ، ٹائمنگ دیکھئے، وزیراعظم کا دورۂ چین، کراچی میں آئیڈیاز نمائش، ٹرمپ ٹویٹس اور دہشت گردی کی نئی لہر، کہنا یہ، 70 ہزار شہادتیں، 150 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان، قوم نفسیاتی مریض ہوئی، لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی، دہشت گردی کیخلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ، ٹرمپ کہے تم دھوکے باز، اسے صرف اپنے 20 یا 32 ارب ڈالر یاد، دنیا ہمیں ہی دہشت گردوں کی مددگار سمجھے، تمام تر مددوں، جتنوں کے باوجود کل ہم سے کرزئی خوش نہ آج اشرف غنی، ہمارا سچ کیوں ہار اور دشمن کا جھوٹ جیت رہا، کہنا یہ، ٹرمپ ٹویٹس پر وزیراعظم، آرمی چیف کا ردِعمل بروقت، دونوں نے جرأت مندی سے کہا "مسٹر ٹرمپ! ریکارڈ درست کریں، زخموں پر نمک نہ چھڑکیں، اب وہی کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہو گا" مگر یوٹرنوں کے بادشاہ، جھوٹے، ڈیل گیموں کے شوقین ٹرمپ کو نظر انداز کرنا ہی بہتر، 2 سالوں میں دو وزراء خارجہ، 2 وزیر دفاع، 2 قومی سلامتی کے مشیر، 2 اٹارنی جنرل، سی آئی اے، ایف بی آئی کے سربراہ اور وائٹ ہاؤس کے 2ترجمان تبدیل کر چکے ٹرمپ سے اپنی ری پبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنما ناراض حتیٰ کہ تارکین وطن پالیسی پر اپنی بیگم نالاں، جب سی پیک سے شکیل آفریدی تک کئی ڈھکی چھپی خواہشیں پوری نہ ہو رہی ہوں، جب چین سے افغانستان تک کئی مطالبات منوانے ہوں، تب ٹرمپ کا غصہ سمجھ آئے، لیکن امریکہ سپر پاور، جوش نہیں ہوش۔ کہنا یہ، ٹرمپ نے دو ٹویٹس کیا کر دیئے، ہمارا دفتر خارجہ تو ملکۂ جذبات بن گیا، لاجواب یوٹرن کھڑکا دیا، کل تک کہا گیا ہمیں پتا ہی نہیں کہ اسامہ ایبٹ آباد میں تھا، امریکی آپریشن کا بھی علم نہ ہوا، سب کچھ امریکہ نے کیا، ہم نے کوئی مدد نہیں کی، آج دفتر خارجہ فرما رہا "اسامہ کے حوالے سے ہم نے امریکہ کی مدد کی" ویسے تو آج بھی دنیا بھر میں اسامہ پر ہر ملک، ہر ادارے، ہر شخص کی اپنی کہانی، لیکن تب کے سی آئی اے چیف لیون پینٹا کی کتاب Worthy Fights، وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی Hard Choices اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی کتاب Duty پڑھیں تو جو کہانی بنے پہلے اس کا خلاصہ پڑھیں، باقی باتیں بعد میں، اوباما نے صدر بنتے ہی پہلی ڈیوٹی لگائی کہ اسامہ کو ڈھونڈو، کام شروع ہوا، امریکہ نے ایران میں "ہاؤس اریسٹ، اسامہ کے بیٹے کو بھی اس نیت سے رہا کروایا کہ وہ رہائی کے بعد اپنے باپ کو تلاش کرے، ملے گا اور ہمیں پتا چل جائے گا مگر اسامہ کا بیٹا رہا ہونے کے بعد رستے میں ہی مارا گیا، پھر امریکہ کو ابراہیم ابو احمد الکویتی سے لیڈ ملی (یہ ابیٹ آباد میں اسامہ ہاؤس میں رہ رہا، یہ باہر کی دنیا سے اسامہ کا واحد رابطہ نکلا، اس پر شک اس لئے کیا گیا کہ امریکیوں کے علم میں تھا کہ یہ پہلے بھی اسامہ کے ساتھ رہ چکا) اس کا پیچھا شروع ہوا، ایک دن الکویتی نے پشاور میں جب فون پر کسی سے کہا کہ "میں وہاں ہی، جہاں پہلے تھا" تو امریکیوں کا شک یقین میں بدلا، اونچی اونچی دیواروں والے گھر کی نگرانی سخت ہوئی، کوششیں تیز ہوئیں، شکیل آفریدی کی انٹری ہوئی، پولیو قطروں کے بہانے اسامہ ہاؤس کے بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے مواد لے لیا گیا، ڈی این اے ٹیسٹ اسامہ سے Match کر گیا، امریکہ کو یقین ہوا کہ جس کی تلاش، وہ مل گیا، ایک شام لیون پینٹا نے رابرٹ گیٹس کو بتایا ہم پہنچ چکے۔ آپریشن کیسے ہو، صدر اوباما کی صدارت میں سب سر جوڑ کر بیٹھے، ایک تجویز ڈرون حملہ، ایک رائے طیارے کے ذریعے اسامہ ہاؤس پر بم گرایا جائے، ایک خیال پاکستان اتحادی، اوپن اٹیک کریں نہ اکیلے آپریشن، پاکستان سے شیئر کیا جائے، مل کر آپریشن ہو، ڈرون اٹیک اس لئے رد ہوا کہ اسامہ کے بچنے کا چانس موجود اور امریکی اسامہ کو زندہ یا مردہ لے جانے کے خواہشمند، جہاز سے بم گرانے کا آئیڈیا اس لئے ڈراپ ہوا کہ اس سے آبادی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ، پاکستان کو آپریشن میں شامل کرنے کی تجویز اس لئےرد ہوئی کہ پاکستان دو، چار بار انٹیلی جنس شیئرنگ کے بعد cheating کر چکا، لہٰذا سب "ریڈ، پر متفق ہوئے۔
ہیلری کلنٹن، رابرٹ گیٹس، لیون پینٹا تینوں کا کہنا، جب آپریشن ہو چکا اور صدر اوباما نے ہمیں کہا کہ پاکستانی حکام کو آگاہ کریں تو ہم تینوں اس تشویش میں مبتلا تھے کہ اتنا بڑا آپریشن پاکستانی حکومت کی مرضی کے بنا کر لیا، نجانے ردِعمل کیا ہو گا، ہیلری نے صدر زرداری کو فون کیا، تفصیلات بتائیں تو زرداری صاحب نے سب سن کر نارمل لہجے میں فلسفیانہ سا لیکچر جھاڑ دیا "میں صدر، میری پارٹی کی حکومت، مجھ پر 20کروڑ کا بوجھ، اب یہ ہو سکتا ہے، وہ ہو جانے کا اندیشہ وغیرہ وغیرہ" ہیلری کلنٹن صدر زرداری کے نارمل برتاؤ پر حیران اور دل ہی دل میں خوش، ایڈمرل مائیک مولن نے آرمی چیف جنرل کیانی کو فون کیا "وی گاٹ اسامہ" جنرل کیانی سمجھے "اسامہ کو گرفتار کر لیا گیا" لیکن جب بتایا گیا کہ "اسامہ ابیٹ آباد میں تھا، آپریشن ہو چکا، اسامہ مارا جا چکا" تو چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جنرل کیانی بولے "اب آپ خود ہی اناؤنس کریں، ہم یہ نہیں کریں گے" امریکی وزیر دفاع نے بھی جنر ل کیانی کے ردِعمل پر اطمینان کی سانس لی، سی آئی اے چیف لیون پینٹا نے اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل پاشا کو فون کیا، بقول لیون پینٹا تب تک جنرل پاشا کو آپریشن ابیٹ آباد کا پتا چل چکا تھا، وہ ذہنی طور پر تیار تھے، بولے "چلو اچھا ہوا، آپ کو اسامہ مل گیا" سی آ ئی اے چیف بھی جنرل پاشا سے بات کر کے پرسکون ہو گئے۔
کہنا یہ، تینوں امریکی اپنی اپنی کتاب میں لکھ چکے کہ پاکستانی حکومت یا کسی عہدیدار کو ہرگز یہ علم نہ تھا کہ اسامہ ابیٹ آباد میں یا امریکی آپریشن کر چکے، لیکن پھر بھی اگر پاکستان نے اس حوالے سے کوئی مدد کی، تو تب کریڈٹ کیوں نہ لیا، صرف القاعدہ، طالبان کے ڈر یا قومی ردِعمل سے خوفزدہ ہو کر پوری دنیا کی شرمندگی کیوں سمیٹی، تب تو امریکی صدر اپنی تقریر میں کہہ رہے تھے کہ "اس کامیابی میں پاکستان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے، تب تو ایڈمرل مولن خود کہہ رہے تھے "کریڈٹ آپ لے لیں" تب سب کے سب کیوں مکر گئے۔ کہنا یہ، امریکی کتابیں لکھ چکے، اب ہمارے بڑے بھی بتا دیں کہ ہم نے کب کیا کیا، اگر ہمیں کچھ پتا ہی نہ چل سکا تو کوئی بات نہیں، جب دنیا کی سب سے بااختیار، ہر قسم کے وسائل سے مالا مال سی آئی اے کو نائن الیون کا پتا نہیں چل پاتا، درجن بھر لوگ ان کی ناک کے نیچے منصوبہ بندی کر لیتے ہیں، ہوائی جہاز ہائی جیک کر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگون پر حملہ آور ہو کر 3 ہزار سے زیادہ لوگ مار دیتے ہیں تو ہم بھی اسامہ کے ابیٹ آباد میں رہنے پر بے خبر رہ سکتے ہیں، غلطی، غفلت کہیں بھی ہو سکتی ہے لیکن امریکہ پہلے دن سے ڈٹا ہوا کہ اسامہ نائن الیون میں ملوث، نائن الیون امریکہ کا ڈرامہ نہیں، حالانکہ نائن الیون سے جڑے بیسیوں سوالات ایسے کہ جن کا امریکہ کے پاس آج بھی جواب نہیں مگر آج بھی امریکی مؤقف وہی جو کل تھا، جبکہ ہمارا دفتر خارجہ 7 سالوں بعد اپنی کہی بات سے مکر گیا، کہنا یہ، دفتر خارجہ صاحب اگر کل سچ بولا تو آج جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اگر کل جھوٹ بول گے، سچ آج بولا جا رہا تو پھر بے چارے شکیل آفریدی کا کیا قصور، اسے نکالیں، ہار پہنائیں اور میڈل دیں، کیونکہ جو کچھ آپ نے کیا، وہی کچھ تو اس نے بھی کیا۔