Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Together We Prevail

Together We Prevail

ریاض کانفرنس کا حال سننے سے پہلے یہ سن لیں کہ میں تو ابھی تک ان سوچوں میں گم کہ اگر ہماری جدہ سے اسلام آباد کی فلائیٹ Miss نہ ہوتی توپھر نہ ہم روضہ رسول ؐ پر سلام کر پاتے، نہ اللہ کے گھر حاضری ہو پاتی اورنہ مسجدِ قبا کے سامنے صحابیِ رسول ؐ کلثوم بن ہدمؓ کے اُس گھر کی زیارت ہوتی کہ چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی جسکی دیواریں سلامت اور جس میں اب سعودی عرب میں پلے بڑھے مہمان نواز سندھی دوست علی سیال اور ان کا خاندان رہائش پذیر، اگر فلائیٹ Miss نہ ہوتی تو ہم کلثوم بن ہدمؓ کے گھر میں اُس کنوئیں کا پانی بھی پی نہ سکتے کہ جسے میٹھا بنانے کیلئے حضور ؐ نے اپنالعا بِ دہن ملایا، اُس باغ کی کھجوریں بھی کھا نہ سکتے کہ جس کی کھجوریں آپ ؐ بھی کھا چکے اور اسی گھر میں موجود اس مسجد میں نفل بھی پڑھ نہ پاتے کہ جہاں مسجدِ قبا کی تعمیر کے دوران نبی ؐ نے نمازیں پڑھیں، آرام فرمایا اور جہاں بیٹھ کر خلفیہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے صلاح مشورے کیئے اور اگر فلائیٹ Miss نہ ہوتی تو ہم عمرے پر آئے ہوئے پاکستانی پولیس افسر نصراللہ چوہدری کے کمرے میں بیٹھ کر مندی (عربی ڈش) کھا تے ہوئے کھڑکی سے مسلسل مسجد نبوی ؐ کا دیدار نہ کر پاتے، اور ذہنی طور پر مسلم لیگ ن سے دور مگر دلی طور پر حسین نواز کے قریب عبدالجبار آغا کے گھر دیسی آٹے کی روٹیوں کے ساتھ مکھن میں پکا ساگ بھی کھا نہ سکتے، یہاں یہ بتانا بڑا ضروری کہ ریاض کانفرنس کے تینوں دن میں اپنے ہم سفر اور بہت ہی پیارے سلیم صافی سے جب بھی کہتا کہ ’’ واپسی پر عمرہ نہ کرتے چلیں ‘‘تو ہر بار ایک ہی جواب ملتا ’’ ہم عمرے کی نیت سے نہیں آئے اور عمرہ تو اپنے پیسوں سے ہوتا ہے ‘‘لہذا جب ریاض سے جدہ پہنچ کر امیگریشن ہونے اور بورڈنگ کارڈ لینے کے بعد بھی ہماری فلائیٹ Miss ہوگئی اور جب جدہ سے اسلام آباد جانے والی اگلی فلائیٹ کی ٹکٹیں بھی ہمیں خود خریدنا پڑیں تو پھر جدہ ائیر پورٹ کے باہر کھڑے سلیم صافی سے میں نے پوچھ ہی لیا ’’ قبلہ خرچہ بھی اپنا اور ایک اضافی دن بھی مل گیا، اب تو عمرہ بنتا ہے نا ‘‘ تو ایک بے بس مسکراہٹ پھینک کر بولا ’’ ہاں اب تو عمرہ ہی بنتا ہے ‘‘ پھر یوں اللہ نے نہ صرف عمرہ کروادیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب کہ جو کچھ سوچا اور مانگا اس سے کہیں زیادہ عنائیت کر دیا۔

ہاں تو میں بات کرنے لگا تھا ریاض کانفرنس کی، 19 مئی کو سعودی حکومت کی دعوت پر ہم گئے توا یک کانفرنس کیلئے، مگر کے جھنڈے تلے ہمیں ایک کی بجائے 3 کانفرنسیں بھگتنا پڑیں، پہلی سعودی امریکن سی ای اوبزنس کانفرنس، جس میں دونوں ممالک کی صفِ اول 90 کمپنیوں کے سربراہ شریک ہوئے، دوسری خلیجی ممالک کی کانفرنس جس میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار عرب ممالک کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھے جبکہ تیسری عرب اسلامک امریکن سربراہی کانفرنس، جس میں 50 سے زیادہ اسلامی ممالک کے سربراہ اور وفود شریک ہوئے، ان 3 دنوں میں جہاں سعودی عرب اورامریکہ کے درمیان بیسوؤں معاہدے ہوئے، جہاں ایک عرصے کے بعد مسلم لیڈر شپ ایک چھت تلے جمع ہوئی، جہاں ریاض میں انسدادِ انتہا پسندی کے مرکز کا افتتاح ہوا، جہاں ا سٹر ٹیجک وژن ڈیکلریشن پر دستخط ہوئے، جہاں مشترکہ ورکنگ کروپ کی تشکیل ہوئی اور جہاں 37 ارب ڈالر کی تجارت والے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان 350 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاہدے ہوئے، وہاں نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب One Page پر آئے، نہ صرف امریکہ مسلم دنیا کے ساتھ بیٹھا بلکہ مغرب اور مشرق نے پہلی دفعہ اکٹھے ہو کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف منصوبہ بندی کی، ریاض کانفرنس اس لیئے بھی اہم رہی کہ امریکی صدر اس وقت مسلم برادری کے ساتھ بیٹھے کہ جب کھنڈر بن چکے شام میں امن وقت کی اہم ضرورت، جب دنیا سے سو سال پیچھے جا چکے عراق کی تعمیروترقی بہت ضروری، جب یمن سے دہشت گردوں کا صفایا ایک چیلنج اور جب امن واستحکام کی کوششوں میں لگے لیبیا، مصر اور تیونس کی مدد کرنا وقت کا اہم تقاضا اور پھر امریکہ اور مسلم ممالک اس وقت اکٹھے ہوئے جب نہ صرف 95 فیصد عالمِ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار اور نہ صرف شدت پسندی سعودی دروازہ کھٹکھٹا چکی بلکہ دہشت گردوں کی وجہ سے پوری دنیا کا امن خطرے میں۔

لیکن دوستو! ایک طرف تو یہ سب ہور ہا تھا جبکہ دوسری طرف اپنے ہاں صورتحال یہ تھی کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولی اور سازشی تھیوریاں گھڑی جارہی تھیں اور اپنے سب افلاطون، سارے بقراط اور تمام ارسطو باتیں بنانے اور کیڑے نکالنے میں لگے رہے، کوئی ڈونلڈ ٹرمپ کے استقبال پر معتر ض تھا تو کوئی شاہ سلمان اور ٹرمپ کے رقص پر برہم، کوئی میاں نواز شریف کے نظر انداز کیئے جانے کے دُکھ میں مبتلا تھا تو کسی کو امریکی صدر کا زیادہ پروٹوکول چبھ رہا تھا، کسی نے ریاض کانفرنس ایران کیخلاف اتحاد کا نام دے کر مسترد کردی تو کسی نے حزب اللہ اور حماس کو القاعدہ اور داعش کی کیٹگری میں لانے پر کانفرنس کو رد کردیا اور کچھ خیرا ندیش ریاض کانفرنس کے ہدف اور لائحہ عمل پر تنقید کرتے پائے گئے تو کئی دوراندیش کانفرنس کو اسرائیل کی مضبوطی سے تعبیر کرتے ملے۔

بلاشبہ رائے دینے کا ہر کسی کو حق اور ہر کوئی تنقید کرنے کا مجاز، لیکن پہلی بات یہ کہ جب یمن میں ایک دہشت گرد گروہ بندوق کے زور پر حکومت چھین کر اپنی دہشت گردی کا سلسلہ مدینہ منورہ تک لے آئے تو پھر کیا سعودی حکومت کو ہم یہ حق بھی نہیں دیں گے کہ وہ اپنی بقاء کیلئے کوئی لائحہ عمل بنائے، (ویسے تو یہاں سوا ل یہ بھی کہ ہم کون ہوتے ہیں سعودی حکومت کو مشورے دینے اور انکے فیصلے کرنے والے)، دوسری بات یہ کہ آج کون ہے جو امریکہ سے دوستی نہیں کرنا چاہتا، آج دنیا کے کس ملک کے امریکہ سے مفادات وابستہ نہیں، باقیوں کو چھوڑیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ اوبامہ دور میں ایران نے امریکہ کی ہر بات مانی اور کیا یہ سچ نہیں کہ مغربی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کے نعرے پر ہی ایرانی قوم نے روحانی کو دوسری مرتبہ صدر بنا دیا اور پھر ایران اور سعودی عرب کو ایک ہی نظر سے دیکھنے والے غالباً یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک طرف وہ سعودی عرب جس نے بنگلہ دیش کو تب تک تسلیم نہ کیا، جب تک ہم نے نہ کیا، جس نے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمیں مفت تیل اور ہر قسم کی مدد فراہم کی، جو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، جو ہرآزمائش پر پورا اترا، جہاں اس وقت بھی 20 لاکھ وہ پاکستانی جو سالا نہ 6 ارب ڈالر زرِمبادلہ بھجوا رہے ( غیر قانونی مقیم ایک ملین پاکستانی اسکے علاوہ ) اور جو ہمارا قدرتی حلیف جبکہ دوسری طرف وہ ایران جس سے شاہِ ایران کے بعد کبھی ہمارے تعلقات خوشگوار نہ رہے، جس نے دن دیہاڑے پاکستان کے وجود کے دشمن بھارت سے دفاعی معاہد ہ کر لیا، جو بھارت کی 33 فیصد ایکسپورٹ کی کھپت والا ملک، جو گوادر کے مقابلے میں اپنی بندرگاہ چاہ بہار بھارت کے حوالے کر چکا، جس کا آرمی چیف پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دے چکا اور بلوچستان سے پکڑے جانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا نہ صرف کاروبار ایران میں بلکہ اس کا پاسپورٹ بھی ایرانی، پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ دنیا تو ایسے بدل چکی کہ آج چین ہمارا سب سے بڑا اتحادی مگروہ مسلمان ملک نہیں، جبکہ ایران اور افغانستان مسلمان ملک ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھی اور ہمارا سب سے بڑا خیر خواہ ترکی مگر وہ ہمارے دشمن اسرائیل کو تسلیم کر چکا، اور پھر ریاض کانفرنس پر تنقید کرنے والوں نے یہ بھی یادنہ رکھا کہ پر اکسی وار چاہے کوئی دوست ہی کیوں نہ کروا رہا ہواور دہشت گردی اور انتہا پسندی چاہے سگا بھائی ہی کیوں نہ کر رہا ہو، یہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ گھر کو آگ لگی ہو اور مکین یہ سوچ کر آگ نہ بجھا ئے کہ آگ ہمارے دوست نے لگائی یا یہ سوچ کر نظرانداز کر دے کہ آگ لگانے والا ہمارا کلمہ گو بھائی، لیکن سب سے زیادہ افسوناک بات جو ہوئی وہ یہ کہ ہم نے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ضد میں ریاض کانفرنس کا سب سے اہم یہ پیغام بھی نظر انداز کردیا کہ ، بلاشبہ آج ٹو گیدر وی پریویل عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی اور بے شک ٹوگیدر وی پریویل بیرونی محاذ پر بھی اور اندرونی محاذ پر بھی، یقین جانیئے جتنی مسلم امہ کو اتحاد اور اتفاق کی آج ضرورت، اتنی کل نہ تھی، لہذا ابھی بھی وقت کہ باتیں بنانے، کیڑے نکالنے اور سازشی تھیوریوں پر وقت اور طاقت ضائع کرنے کی بجائے سب مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کوجڑ سے اکھاڑپھینکیں، مگر یاد رہے کہ مل کر اور یکجا ہو کر کیونکہ ۔