Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Trump Raaj

Trump Raaj

کبھی کسی نے سوچا تھا کہ جسکی حرکتوں سے تنگ والد جسے گھر سے اُٹھا کر ملٹری اکیڈمی پھینکوا دے، جو اکیڈمی، کالج اور یونیورسٹی میں ہر وقت ہر کسی سے لڑتا جھگڑتا ہی ملے اور جو شہرت کا ایسا بھوکا کہ ٹی وی پر نظر آنے کیلئے کبھی ریسلر بن جائے تو کبھی نیم برہنہ لڑکیوں کے ساتھ ناچنے لگ پڑے اور کبھی پیسے دے کر پلے بوائے میگزین میں تصویریں چھپوائے تو کبھی سفارش لڑوا کر مقابلہ حسن کا جج ہو جائے، کبھی کسی نے سوچا تھا کہ وہ اداکار جس نے ایسے کردار کیئے کہ جنہیں دیکھتے ہوئے بھی شرم آئے، جو بزنس مین ایسا کہ 45 سالہ کاروبار میں 35 سو مقدمے اور جو خاوند ایسا کہ پہلی ماڈل بیوی ایوانازیلنیکووانے کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پکڑ کر طلاق لے لی، دوسری بیوی اداکارہ مارلا میپلز اسکے معاشقوں سے تنگ آکر چھوڑ گئی جبکہ اپنے بڑے بیٹے سے 7 سال بڑی عریاں تصویریں کھنچوا کر مشہور ہو نے والی میلانیا سے تیسری شادی دو مرتبہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچی، کبھی کسی نے سوچا تھا کہ جو مخالفین کی سرِعام بے عزیتاں کرے، جو اقلیتوں کو ہر محفل میں بُرا بھلا کہے، جو ہر مذہب کا مذاق اڑائے اور جس کی زبان درازی سے پوپ بھی نہ بچ پائے اور کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پیسے بچانے کی خاطر جو غیر قانونی طور پر امریکہ آئے لوگوں کو ملازمتیں دے، پیسے کمانے کی خاطر جو جعلی یونیورسٹی بنائے اور جو عام لوگوں سے اس لیئے ہاتھ نہ ملائے کہیں کسی کے جراثیم سے میں بیمار نہ ہو جاؤں اور کبھی کسی نے سوچا تھا کہ مانا ہوا شیخی خور، پرلے درجے کا منہ پھٹ اور انتہائی متعصب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن جائے گا، اس امریکہ کا صدر کہ جو آج مشرق ومغرب کو Lead کر رہا، یعنی اب مشرق ومغرب کو Lead کرے گا ڈونلڈ ٹرمپ۔

گو کہ خطرے کی بات یہ بھی کہ اگلے سال 20 جنوری کو ٹرمپ راج شروع ہونے والا مگر خطرناک ترین بات یہ کہ جرمن نسل باپ اور اسکاٹش ماں کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ کا ریمورٹ کنڑول ان کے ہاتھوں میں ہوگا کہ جن کی سوچ یہ کہ لیڈر کیلئے اچھائی اور برائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور لیڈر کیلئے مقصد کا حصول انسانوں سے زیادہ اہم، اس لیئے ٹرمپ کیمپ ماوزئے تنگ، سٹالن، ہٹلر، نپولین اور سکندر اعظم کو اپنے آئیڈیلز مانے کیونکہ ان سب رہنماؤں نے اپنے مقصد کیلئے گردنیں اڑاتے وقت اپنے، پرائے کی تمیز نہیں کی، گو کہ ٹرمپ کے روحانی استادوں کی یہ منطق بھی کہ ’’ لیڈر جو ’دونمبری‘ بھی کرے، اس یقین اوراعتماد سے کرے کہ اسکی ’دونمبری‘ بھی سب کو ’ایک نمبری‘ ہی لگے‘‘، اسکی مثال وہ یہ دیں کہ ابراہام لنکن نے سیاہ فاموں کو کنڈریسی کے علاقوں میں تو آزاد کروایا، لیکن ملکی استحکام کیلئے اس نے سرحدی علاقوں میں غلاموں کو آزادی نہیں دلوائی اور پور ی دنیا ابراہام لنکن کو مثالیت پسند سمجھے، مگر اپنے مقصد کیلئے اس نے قوانین توڑے،آئین کی خلاف ورزیاں کیں، طاقت کا استعمال کیا اور انفرادی آزادیاں تک غصب کر دیں۔

گو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دماغوں کا یہ ماننا بھی کہ ’’بڑا لیڈر وہ جو بڑا لیڈر نہ لگے‘‘ ، اسکی مثال وہ بچپن میں 2 روپے فی دن کے حساب سے سوروں کا ریوڑ چرانے والے، کوئلے کے کانکن، پائپ فٹر ،پلمبر اور 20 سال تک ہر قسم کی تعلیم سے بے بہرہ، چھوٹے قد، موٹے سر اور بندرکی ناک والے بھدے خروشیف کی دیں کہ جسے لوگ سٹالن کے جوتے پالش کرنے کے قابل بھی نہ سمجھتے، جسے سرِعام چھوٹا اور معمولی انسان کہا جاتا مگر نہ صرف وہ 11 سال تک روس کا بلاغیرے شرکت حکمران رہا بلکہ یہی وہ رہنما کہ جو دیوارِ برلن کی تعمیر کی وجہ بنا، جس نے ہنگری میں کمیونزم کے خلاف بغاوت کو بے دردی سے کچلا، جس نے کیوبا میں میزائل نصب کروا کر امریکہ کویونان اور ترکی سے میزائل ہٹانے پر مجبور کر دیا، جس نے افریقہ میں روس کا اثرورسوخ بڑھایا اور جس نے اپنے نیوکلیئر کو مضبوط بنایا، گو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی ساز اس پر بھی متفق کہ بڑے رہنمامیں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کی صلاحیت یا اس میں حسِّ مزاح کا ہونا بھی بہت ضروری، جیسے چرچل جنہیں ایک بار لیڈی ایسٹر (برطانوی پارلیمنٹ کی پہلی خاتون رکن ) نے کہا’’اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو تمہارے کافی کے کپ میں زہر ڈال دیتی‘‘چرچل بولے ’’اگر میں تمہارا شوہر ہوتا تو فوراً کافی پی جاتا‘‘، فرانسیسی مردِ آہن ڈیگال جسے مارنے کی 31 کوششیں کی گئیں، ایک مرتبہ قاتلانہ حملے کے دوران جب گولی اسکے سر سے دو انچ اوپر سے گذر گئی تو وہ دورانِ فائرنگ ہی چلایا ’’ظالمو پہلے اپنا نشانہ ٹھیک کر لو، مجھے بعد میں مار لینا ‘‘،چواین لائی نے ایک بار اپنے ڈرائیور سے کہا’’ میری نظر کمزور ہوگئی ہے یا تم کالے ہو گئے ہو‘‘ اور ٹرمپ کے آئیڈیل امریکی جنرل میک آرتھر کو ایک دفعہ جب ڈاکوؤں نے لوٹنا چاہا تو یہ بولا’’ ویسے تو تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مجھے لوٹ سکے لیکن چونکہ اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں لہذا Welcome‘‘اور گو کہ دوستو! ٹرمپ کا اپنا قول وفعل اور اسکے روحانی استادوں اور پالیسی سازوں کی سوچ ایسی کہ آسانی سے ہضم نہ ہو سکے مگر یہ تصویر کا وہ رُخ جو ہیلری کی غیر متوقع ہار کے غم اور ٹرمپ کیمپ کی انتہا پسندانہ سوچ کے خوف میں مشرق ومغرب میں مسلسل دیکھا اور دکھایا جارہا لیکن اسی تصویر کا دوسرا رُخ بھی جو مسلسل نظر انداز ہو رہا وہ یہ کہ یہ ٹرمپ ہی کہ جسے بیس بال ٹیم کادسواں کھلاڑی بھی نہ رکھنے والوں کواسے 11 ماہ بعد بیس بال ٹیم کا کپتان بنانا پڑا، جو شروع سے ہی مینجمنٹ کا ماہر اور Man of Crisis، جس نے اپنی محنت وقابلیت سے ایلیٹ کلاس میں جگہ بنائی ، جس نے والد سے 7 کروڑ قرضہ لے کر کاروبار شروع کیا اورآج وہ 10 ارب ڈالر کا مالک ، جس کی پہلی کتاب ’’دی آرٹ آف دا ڈیل ‘‘ امریکہ بھر میں 48 ہفتے بیسٹ سیلر اور 13 ہفتے نمبر ون رہی، جوجب اتنا مقروض ہو گیا کہ اس کا اٹلانٹک سٹی کا تاج محل اور ٹرمپ ٹاور دیوالیہ پن کے شکار ہوئے ، ٹرمپ ائیر لائن اور بہت سارے ادارے اونے پونے داموں بک گئے اور جب صورتحال یہ ہوئی کہ بینکوں کو قرضوں کا سود تک ادا نہ کر سکنے والے ٹرمپ نے ایک شام سڑک پر کھڑے ہو کر اپنے دوست کوپاس سے گزرتے ایک عام شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آج میں اس غریب شخص سے بھی 90 کروڑڈالر زیادہ غریب ہوں ‘‘ تب اسی ٹرمپ نے فائٹ بیک کیا، وہ انٹر ٹینمنٹ کی دنیا میں گھسا اور پھر ’’ مس یونیورس‘‘ اور’’ مس امریکہ ‘‘کے مقابلوں اور ’’دی اپرنٹس‘‘ شونے نہ صرف ٹرمپ کی خالی جیبیں بھر دیں بلکہ اسے ہالی ووڈ سے ’’واک آف دا فیم ‘‘ایوارڈ بھی دلوادیا اور اسی دوران ٹرمپ کی مشہور زمانہ دوسری کتاب ’’دی آرٹ آف دا کم بیک ‘‘ نے بھی مارکیٹ میں دھوم مچا دی، لہذا وہ تمام لوگ جو کل تک ڈونلڈ ٹرمپ کو underestimate کر کے ہیلری کو جتوا چکے تھے،آج وہ ایک بار پھر بحیثیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو underestimate کرنے کی غلطی کر رہے، ذرا سوچیئے کہ ا گر ٹرمپ کے چیف پالیسی میکر کو بھی یہ یقین نہ تھا کہ ٹرمپ صدر بنے گا اور ٹرمپ صدر بن گیا تو عین ممکن کہ اب ٹرمپ وہ کچھ بھی کر جائے کہ جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو ،ویسے بھی تاریخ بتائے کہ دنیا میں زیادہ تر بڑے کام ٹرمپ جیسے ابنار مل لوگوں نے ہی کیئے ۔