!
عوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے والی تھیں ‘ شہروں میں جشن اور دیہات میںمیلے کا سماں تھا ‘تاجر ہیپی اور کسان خوش‘ مفلسی کی جگہ خوشحالی کی دھمالیں شروع ہونے والی تھیں اورمہنگائی ‘ بے روزگاری ختم ہونے کے قریب تھی ‘ یہ جو 6 کروڑ بھکے ننگوں کا غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنا‘ چھپڑوں سے جانوروں کے ساتھ انسانوں کا پانی پینا‘غربت سے تنگ ماؤں کا بچوں کے سا تھ دریاؤں میں چھلانگیں مارنا‘ فاقوں سے عاجز باپوں کااپنے ہاتھوں سے بیو ی بچوں کو مار کر خودکشیاں کرنا‘ رکشوں میں بچے جننااور سرکاری اسپتالوں میں ایک ہی بیڈ پر مُردوں کے ساتھ زندوں کا لیٹے ملنا‘ یہ سب توجھو ٹی کہانیاں ‘ گندم کا دانہ حکمرانوں کی جلد سے موٹا ہونے والا تھا‘ یعنی کھاتے جاؤ‘ختم نہ ہو‘ نمکین روسٹ ‘موسمی سبزیاں اور میٹھے پھل بلا امتیاز وتفریق امیر وغریب کے دسترخوان کا حصہ بننے والے تھے اور ست رنگی قوسِ قزح سے ڈھکے آسمان تلے پرندوں کی چہکار میں پوری قوم حکمرانوں کی مادھوری سروں والی بانسری پر جھومنے والی تھی ( میں یہاں روم کے نیرووالی بانسری کا ہرگز ذکر نہیں کر رہا )۔
!
جاگیرداری اور وڈیرہ ازم سے تقریباً جان چھوٹ چکی تھی ‘ مساوات ایسی کہ حکمران عوام کے ساتھ سرکاری اسپتالوں میں علاج کروا رہے تھے ‘ بڑوں کے بچے عام بچوں کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں پڑھ رہے تھے اورغریب کو انصاف تو دہلیز پرمل ہی رہا تھا ‘مگر مل اتنا سستا رہا تھا کہ اکثر کنفیوژ ن ہوجاتی کہ دال اور ٹماٹر خریدیں یا۔ ۔ ۔ اقر با پروری تو ختم ہو چکی تھی یہ وفاق اور پنجاب میں میاں برادران کے رشتہ داروں اور بلوچستان میں اچکزئی فیملی کے افراد کا حکومتی عہدوں پر براجمان ہونا تو بس افواہ بازی ہی ‘ کرپشن کا تو خاتمہ ہو ہی چکا تھا جبکہ رشوت کے حالات یہ کہ اگر مجبوری میں کسی کو رشوت دینی یا لینی پڑ جاتی تو پہلے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رویا جاتا اور پھر رشوت دی اور لی جاتی ‘ سرکاری دفاتر دن رات عوامی خدما ت میں لگے ہوئے تھے ‘ تھانے کچہریاں قوم کیلئے ریلیف سینٹرز بن چکی تھیں ‘ملک کا ہر بچہ میٹرو بس میں اسکول جارہا تھا (یہ غربت کی وجہ سے ڈھائی کروڑ بچوں کے اسکول نہ جانے کی در فطنی دراصل عمران خان کی اڑائی ہوئی ہے‘ لہٰذا اس پر کان نہ دھریں ) اورپھرکراچی سمیت پورے ملک کی سڑکیں ‘گلیاں اور چوک یوں چمک رہے تھے کہ دھول مٹی کی تلاش میں ناکامی پر بڑے بڑے محققین بے بس ملے۔
!نجانے کب تک عوامی امنگوں پر مبنی فلم ’’جیسا کروگے ویسا بھرو گے ‘‘ ڈبوں میں ہی بند پڑی رہتی اور ہو سکتا ہے ہے قوم ’’ات خدا دا ویر ‘‘ بھی نہ دیکھ پاتی ‘وہ تو فیصلہ آگیا ورنہ افتخار قیصر جیسا فنکار سارا دن اسپتال کے باہر نہ پڑا رہتا ‘ 40 کے قریب فنکار عیدپر بھی وظیفے کی راہ نہ تکتے رہتے ‘ کتاب سستی اورموبائل مہنگا نہ ہوتا‘ لائبریریاں اجڑی اجڑی اور رائے ونڈ کی سڑکیں لش لش نہ کرتیں ‘فلمی اسٹوڈیوز دکانوں اور گوداموں میں نہ بدلتے اور سینما گھروں کی جگہ شادی ہال نہ بنتے۔
!
پاکستان کا ازلی دشمن مودی تو یوں لرزہ بر اندام کہ رائے ونڈ محل میں ’’ہیپی برتھ ڈے ‘‘ کا کیک کاٹتے اور پگ پہناتے ہوئے بھی اسکی یہ ہمت نہ ہوئی کہ نظر اُٹھا کر دیکھے اور تو اور جس طرح جھکی جھکی نظروں ‘لرزتے جسم اور کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنے میزبان کے منہ میں کیک کا ٹکڑا ڈالا ‘ اسلام کی وہ طاقت اورکفر کی یہ کمزوری دیکھ کرفرطِ جذبات میں بے اختیار منہ سے نعرہ تکبیر ہی نکلا‘ باقی یہ پٹھانکوٹ کے واقعہ کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کروانا ‘ یہ اڑی کے معاملے پر اڑی اڑی ہوائیاں اور یہ کلبھوشن کے معاملے پر’’کبھی ہاں اور کبھی ناں ‘‘یہ سب داستانیں تو جمہوریت دشمنوں کی پھیلائی ہوئیں ‘ یہی نہیں بلکہ اصل حقیقت تو یہ کہ پی پی کے زوال سے ن لیگ کے احتساب تک سب کیا دھرا انہی جمہوری دشمنوں کا۔
!
آج دھمکیاں دیتا ٹرمپ تو ہم سے ایسا خوفزدہ تھا کہ ریاض کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم کے قریب بھی نہ پھٹکا‘بزدل کہیں کا‘ پورے یورپ پر ہمارا ایسا رعب تھا کہ اِدھر انکی نظر’’سر سبز پاسپورٹ ‘‘پر پڑتی اور اُدھر وہ ٹھک سے سیلوٹ مار کر مہر لگا دیتے ‘ اکثر تو یوں بھی ہوتا کہ احترام بھرے خوف میں کبھی وہ مہر لگانا بھول جاتے تو کبھی سیلوٹ مارنا ‘یہی نہیں عرب ممالک میں ہماری ٹوہر کا یہ عالم تھا کہ عربی حکمران پاکستان کو اپنی ’’شکار گاہ ‘‘ نہیں ایک خود مختار ملک سمجھنے لگ پڑے تھے اور افغان صدر اشرف غنی تو آئے روز پاکستانی جھنڈے کے ساتھ سیلفیاں بنا کر بھیج رہا تھا اور مسلسل یہ ترلے منتیںکررہا تھا کہ پانچواں صوبہ نہیں تو نہ سہی ‘کم ازکم افغانستان کو آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کا سٹیٹس ہی دے دو ‘ یہ سب چھوڑیں ‘ مجھے یہ کہنے دیں کہ فیصلہ آنے سے پہلے عالمی دنیا میںکوئی کام ہماری مشاورت کے بنا اور کوئی فیصلہ ہمیں پوچھے بنا نہیں ہور ہا تھا۔
!
سعودی عرب ‘ یواے ای‘برونائی ‘قطر اوراومان جیسے جمہوریت پسند ملک دن رات ہماری جمہوریت پسندی کی مالا جپ رہے تھے ‘ بلکہ ملکہ برطانیہ تو کئی بار شہزادہ چارلس کو یہ تک کہہ چکی تھی کہ’’ اب تو دل یہی چاہے کہ زندگی کے آخری دن پاکستان میں گزاروں‘ ‘پھر برطانوی ہاؤس آف کامنز اور یورپین پارلیمنٹ میں ہمارے وزیراعظم کی تصویریں لگنے والی تھی ‘ آکسفورڈ اور ہاورڈ یونیورسٹیاں ہمارے نیب کی "Say no to Corruption" اپنے نصاب میں شامل کرنے والی تھیں اور یہ تو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ سوڈان ‘صومالیہ ‘روانڈا اور برونڈی جیسی معاشی طاقتوں کی آج ساری خوشحالی اس لیے کہ انہوں نے اسحاق ڈار صاحب کے معاشی وژن کو عملی جامہ پہنایا۔
دوستو ! فیصلہ آنے کے بعد امتّ ِمسلمہ کیا ‘چین سمیت 50 فرنگی ملکوں میں ہوئے مظاہروں او ر احتجاج نے بھی ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ غلط ‘یقین جانئے جس طرح دن دیہاڑے آنکھوں میں دھول جھونک کر پانامہ لیکس کروانے سے عدالتی فیصلہ لکھوانے تک‘ جس طرح پچھلے 30 سالوں کے ثبوت 60 دنوں میں پیش کرنے سے ٹیلی پیتھی کے ذریعے قائد کے بچوں سے ٹیلی وژن پر انٹ شنٹ بلوانے تک (واضح رہے ہمیں اعتراض ثبوتوں پر نہیں ‘اعتراض اس پر ہے کہ ثبوت اتنی جلدی کیسے اکٹھے کرلئے ) ‘ جس طرح ٹیلی پیتھی کی مدد سے قائد کو اسمبلی اور ٹی وی پر الگ الگ تقریر یں کروانے سے جے آئی ٹی میں پیش ہوئے معصوموں کو جعلی کاغذات اور جھوٹے بیانات دینے تک اور پھر جس طرح راتوں رات خفیہ چھاپہ خانے سے اقامہ بنا نے تک‘ جو کچھ ہواا ور جس نے کیا وہ سب ہمیں پتا‘ لیکن چاہے جتنے رسوا اور ہوجائیں‘ ہم یہ کسی کو بتائیں گے نہیں‘یہ رازقبر میں ساتھ ہی لے جائیں گے ‘دوستو! یہ فیصلہ کیا آیا ہر ملکی ادارے کی ساکھ داؤ پر لگی ‘ 22 کروڑ جمہوری دل ٹوٹے‘ عدالتی انصاف کی قلعی کھلی ‘ اور اس ’’انہونی ‘‘پر غم سے نڈھال ہر جمہوریت پسند ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پرہچکیوں سے رویا ‘ کیا کیا بتاؤں ‘جمہوریت د شمن تو یہ کہہ رہے تھے۔
پاکستان 35 ارب ڈالر کا مقروض ‘ یہ ر یکارڈ ساز سود پر کمرشل قرضے لے رہا ‘ اس کی 5 ارب برآمدات گھٹ گئیں ‘ اس کے 90 فیصد اداروں کا چالیسواں بھی ہو چکا اوریہا ں ٹیکس چوری سے منی لانڈرنگ تک روزانہ ملک وقوم کو اربوں کا ٹیکا لگے۔ ۔ تو بہ توبہ۔ ۔ اتنا جھوٹ اور مبالغہ آرائی ‘حالانکہ صورتحال تو یہ کہ فیصلہ آنے کے بعد ترقی وخوشحالی کا جو سفر بڑی تیزی سے طے ہورہا تھا ‘ وہ سفر رُک گیا اور ترقی کا پہیہ جو بڑی برق رفتاری سے گھوم رہا تھا ‘وہ گھومنا بند ہوگیا‘دوستو ! کیا کیا سناؤں ‘سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے اور میاں نواز شریف کے جانے سے جو نقصان ہوا ‘ وہ اتنا زیادہ کہ یہ سب ایک کالم میں سمانے سے رہا‘ اور پھر چونکہ اس فیصلے نے مجھے اتنا دُکھی کر رکھا کہ ابھی تک سنبھل نہیں پایا‘ لہٰذا ان چند سطروں کو پہلی قسط سمجھ کر صبر کر لیں ‘ہمت پڑی تو اگلی قسط کے ساتھ پھر حاضر ہوں گا‘ورنہ فیصلہ تو آہی چکا۔