آج کے کالم میں ایٹمی ہتھیاروں کی افادیت کا ایک مختصر جائزہ لوں گا۔ دنیا میں اسلحے کے سوداگروں نے ایک لفظ ایجاد کیا ہے "ایٹمی ڈیٹرنٹ "۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ملک کے پاس ایٹم بم ہو، تو دوسری ایٹمی طاقت اس پر حملے کی جرات اس لیے نہیں کرے گی کیونکہ حملہ آور کو جوابی حملے کا خوف ہوگ۔
Deterrentکے معنی ہیں "کسی کو کوئی کام کرنے سے روکنا"یا"کسی کو خوفزدہ کرکے کسی ایکشن سے روکنا"۔ Nuclear deterrentکا مطلب ہے وہ ایٹمی ہتھیار جس کی خوف سے د شمن ملک حملہ کرنے سے باز رہے کیونکہ اس پربھی جوابی حملہ ہو سکتا ہے، اس لیے بعض جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ ایٹمی ہتھیار اس لیے کسی ملک کے پاس ہونا ضروری ہیں تاکہ وہ Deterrentکا کام دے، یعنی دشمن کو حملہ کرنے سے باز رکھے۔
کیا یہ نظریہ صحیح ہے؟ کیا واقعی ایٹمی ہتھیار جنگیں روک سکتے ہیں؟ کیا جب سے ایٹم بم ایجاد ہوا ہے، دنیا میں امن ہی امن ہے، کوئی جنگ نہیں ہوئی؟ کیا دنیا اس لیے محفوظ ہے کہ مختلف ممالک نے ہزاروں ایٹم بموں کا ذخیرہ کر رکھا ہے؟ سوویت یونین (سوشلسٹ کیمپ)اور امریکا (سامراجی کیمپ) کے درمیان سرد جنگ اگر گرم جنگ میں تبدیل نہیں ہوئی، تو اس کا سارا کریڈٹ ڈیٹرنس کے نظریے کو دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی ہتھیاروں نے تیسری جنگ عظیم روکنے میں مدد دی۔ ہندوستانی دانشور اورناول نگار ارون دتی رائے نے اس کے بارے میں بہت اچھاتبصرہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ " کسی تیسری جنگ عظیم کا کوئی شیڈول نہیں دیا گیا تھا، جو ڈیٹرنس کی وجہ سے رک گئی ہو، تیسری جنگ عظیم جب بھی ہوگی یہ یقیناً دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی ہوگی، سرد جنگ کی وجہ سے گرم جنگ رکی نہیں تھی بلکہ دنیا اس دوران ایک پرخطر دور سے گزرتی رہی، اس دوران دنیا کبھی پرامن اور محفوظ جگہ نہیں بنی، اس سرد جنگ کی وجہ سے دنیا میں ہتھیاروں کی ایسی خطرناک دوڑ شروع ہوئی کہ دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
عام روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ امریکا اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے بھی ڈھیر لگا دیے، دونوں ممالک کی فوجی تیاریوں کی وجہ سے دنیا مستقل جنگ کے خطرے سے دو چار رہی، اس ساری صورت حال کو کسی طرح بھی دنیا میں امن اور سلامتی کاکوئی امتیازی دور، نہیں کہا جا سکتا، اس کے برعکس ان ہتھیاروں کی وجہ سے یہ ممالک ہر وقت کسی انجانے خطرے سے خوفزدہ رہتیں۔
یہ سیکیورٹی اسٹیٹس (Security states) اپنی قومی آمدنی کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرنے لگیں، ان غیر ترقیاتی اخراجات نے ان ملکوں کی اقتصادیات کو تباہ کردیا، سوویت یونین کے خاتمے کی بنیادی وجہ اسلحے پر ان کے بے تحاشا اخراجات تھے، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ بحر اسود کے بحری بیڑے میں شامل 50 ایٹمی آبدوزوں کے ایٹمی ری ایکٹروں کو ٹھنڈا رکھنے اور بقایا 250بحری جہازوں کی دیکھ بھال کے لیے حکومت کے پاس رقم نہیں تھی، یاد رہے کہ سوویت یونین کی نیوی میں 7بحری بیڑے شامل تھے۔
ہر بیڑے میں جہازوں اور آبدوزوں کی تعداد 300 تک ہوتی تھی، طیارہ بردار جہازوں پر موجود ہوائی جہازوں کی تعداد ان کے علاوہ تھی، اسی طرح امریکا اور ناٹو کے دیگر ممالک بھی شدید مالی دباؤ کا شکار رہے، چونکہ یہ ممالک سامراجی نظام کی وجہ سے دوسرے ممالک سے لوٹ مار کے ذریعے اپنے اقتصادی صورت حال کو سہارا دیتے رہے اور سوشلسٹ معیشت میں دوسرے ممالک کے استحصال اور لوٹ مار کا کوئی تصور مو جود نہیں اس لیے سوویت یونین زیادہ تباہی سے دو چار ہوا۔
(warwick school of law)کے پروفیسر اوپندرا بخشی Upendra Buxi) (نے اپنی کتاب "انسانی حقوق کا مستقبل " میں لکھا ہے کہ ابتدا سے ہی جوہری تجربات کے متعلق صنعت نے اپنے سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بارے میں تجربات خفیہ رکھنے شروع کیے، خفیہ رکھنے کا مقصد سائنس کی ان معلومات پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا تھا، سائنسی معلومات کو چند ہاتھوں تک محدود رکھنا حقوق انسانی کی خلاف ورزی تھی، اس کے علاوہ انسانوں کو جسمانی طور پر ایٹمی تابکاری کے سامنے سے ا س لیے گزارا جاتا تاکہ انسانی جسموں پر اس تابکاری کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
ان خطرناک ہتھیاروں اور تجربات کی جمہوری روایات کے مطابق مخالفت پر بھی سختی سے پابندی عائد تھی۔ سیکیورٹی کے نام پر مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، انسان عملاً ان خطرناک ہتھیاروں اور جنونی حکمرانوں کی دنیا پر بالا دستی قائم کرنے کی خواہشات کے اسیر ہو گئے، ایٹمی اسلحے کی اس دوڑ کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں ایٹمی فضلہ تیار ہونا شروع ہوا، جس کو غریب ممالک کی زمینوں میں دفن یا سمندروں میں غرق کر دیا جاتا۔ ایٹمی اسلحے کے ان تجربات کی وجہ سے زمین پر اور سمندروں میں قدرتی ماحول تباہ ہو کر رہ گیا، ان تمام انسان دشمن اقدامات کی بنیاد صرف یہ نظریہ تھا کہ " چونکہ بہت ہی خطرناک اور لاکھوں انسانوں کو تباہ کرنے والے ہتھیار ہمارے پاس ہیں اس لیے ہم محفوظ ہیں، کوئی مائی کا لال جرات نہیں کر سکتا کہ ہمارے اوپر حملہ کرے"۔
بڑی طاقتوں کے ان مجنونانہ اقدامات کا مقصد اپنی سر زمین کو دشمن کے حملوں سے بچانا تھا یا انسانیت کو؟ ، اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ضروری اس لیے ہے کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا واقعی ایٹمی ڈیٹرنٹ) (Nuclear deterrentامن کی ضمانت ہے؟ اگر جنگ عظیم دوم کے بعد کے زمانے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس دوران انسانوں کا انسانوں کے ہاتھوں جتنا خون بہا، وہ جنگ عظیم میں نہیں بہا تھا، کوریا کی جنگ، کمبوڈیا کی جنگ، ویت نام کی جنگ، بے آف پگز(Bay of pigs) کا حملہ، کیوبا کے خلاف حملے، ایران عراق جنگ، افریقہ اور لاطینی امریکا میں لاتعداد جنگیں، عراق اور شام کے خلاف حملے اور افغانستان کی جنگ، یہ سب جنگیں پراکسی جنگیں (proxy wars) تھیں۔
ان جنگوں کے پیچھے سامراجی اور سوشلسٹ کیمپ موجود تھے، یہ اصل میں ان کی جنگیں تھیں لیکن اپنے ممالک سے باہر لڑائی کا میدان بنایا گیا تھا۔ اس فضول قسم کے نظریے کی بنیاد پر ان طاقتوں نے خطرناک اسلحے اور خاص کر ایٹمی اسلحے کے انبار لگا دیے، سامراجی کمپنیوں نے غریب ملکوں کو اتنا مہنگا اسلحہ فروخت کیا کہ ان ممالک کے پاس اپنے عوام کو دینے کے لیے کچھ نہ رہا۔
دشمن کو خوفزدہ کرنے کے چکر میں روزانہ ایک نیا ہتھیار بنانا پڑتا ہے، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم"نیوٹرون بم بنا نے کے بعد اس کو لیجانے کے لیے ہوائی جہاز وں کا مقابلہ شروع ہوا، اس کے بعد بحری جہاز اور آبدوزیں خطر ناک سے خوفناک بنتی گئیں، اس کے بعدمیزائیلوں کا دور آیا، مقابلہ شروع، بیلسٹک میزائیل، انٹر کانٹی ننٹل میزائیل اور پھرا سٹا وار پروگرام جو خلاء سے میزائلوں اور زمینی اہداف کو نشانہ بنائے گا، خدا کی پناہ سامراجی پروپیگنڈے اور سازشوں کے تحت ہر غریب ملک اسلحہ لینے کے چکر میں ہے۔
اس تجارت سے سامراجی ممالک کی تجوریاں دھڑا دھڑ بھر رہی ہیں، اس لیے اب اس غلط نظریے کو چھوڑ کر ان ممالک کو اپنے وسائل اسلحے کے بجائے عوام کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے، یہ نام نہاد نظریہ کہ اگر آپ کے پاس ایٹم بم ہو تو جنگ نہیں ہوگی غلط ثابت ہو چکا ہے، دنیا میں ایٹمی اسلحہ کے انبار وں کے باوجود ہر جگہ جنگ ہو رہی ہے اور ایٹمی ہتھیار کچھ نہیں کرسکتے۔ کسی سیانے کا یہ تجزیہ صحیح ہے کہ، ا یٹمی اسلحہ استعمال کرنے کے لیے نہیں بلکہ شو کیس میں سجانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔