حسب روایت حکومت کے نئے وزیر خزانہ نے 2021/2022کے بجٹ کے نام پر اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے روایتی شور و غل میں پیش کردیا، جس کے مطابق اس کا حجم 8487ارب روپے ہے۔ جس میں مجموعی خسارہ 3990ارب روپے ہے۔ اس خسارے کی رقم کی ادائیگی کے لیے عوام اور عالمی سامراجی ادارے برائے قرض موجود ہیں۔
باقی وہی روایتی غیر ترقیاتی اخراجات وغیرہ۔ جس کا سامنا ہر سال عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں تین سال بعد 10فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ دفاعی اخراجات میں 44ارب روپے کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔
باقی پیسے بیرونی قرضوں اور غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوں گے، کہا جا سکتا ہے کہ یہ عام روایتی سر مایہ دارانہ نظام کا بجٹ ہے۔ صبح صبح ہی ایک دوست کا فون آیا کہ آپ ہر مسئلے پر لکھتے ہیں لیکن بجٹ پر کبھی نہیں لکھتے، حالانکہ اسی بجٹ کی وجہ سے عوام کی جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے، عوام مہنگائی اور دوسرے مسائل سے دوچارہیں، ان کا اصرار تھا کہ بجٹ پر لکھو بھی اور ہمیں سمجھاؤ بھی، اب میں پریشان ہوں کہ بجٹ پر کیا لکھوں؟ کیونکہ یہ وہ سالانہ بجٹ نہیں جو عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا تھا، یہ بجٹ تو میری سمجھ میں بھی نہیں آتا۔
بجٹ (budget)فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، اس لفظ کا ماخذفرانسیسی زبان کا لفظ (bougette) ہے، جوبٹوے یا پرس کو کہتے تھے، یہ اصل میں اخراجات اور آمدنی کا تخمینہ ہوتا ہے، اگر خرچہ زیادہ اور آمدن کم ہو تو یہ خسارے کا بجٹ کہلائے گا اور زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی سے قرض لینا پڑے گا یا آمدنی کا نیا ذریعہ مثلاً ٹیکس وغیرہ ڈھونڈنا پڑے گا، حکومتیں بجٹ سالانہ بنیادوں پر بناتی ہیں، آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور اخراجات اور آمدن کا گوشوارہ یا بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کیا جاتا ہے، پاکستان کا مالی سال یکم جولائی سے 30جون تک ہوتا ہے۔
اس مالی سال کے اندر جتنی متوقع آمدنی یا خرچ ہو وہ سب بجٹ میں آجاتی ہے، چند سال قبل اچھے وقتوں میں لوگ سارا سال جون کا انتظار کرتے تھے کیونکہ بجٹ اسی مہینے پاس ہوکر یکم جولائی سے نافذ ہوجاتا، بھلے دنوں میں ریلوے کا الگ بجٹ ہوتا تھا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں کے غیر پیداواری اخراجات جن میں بیرونی قرضوں پر سود وغیرہ شامل ہیں روز بروز بڑھ رہے ہیں اس لیے ہمیشہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہوتی ہے، بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی چونکہ مشکل ہے، اس لیے ہمیشہ زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت غیر ممالک سے قرضے لیتی ہے یا غریبوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ٹیکس لگا دیتی ہے، اس لیے عوام کی فلاح و بہبود اور سوشل سیکٹر مثلاً تعلیم، علاج اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے لیے بہت کم رقم بچ جاتی ہے۔
انگریزی رسالے ٹائمز (TIMES)نے ایک بار لکھا تھا کہ "پاکستان کا بجٹ مینڈک کے سائز کا ہے اور دفاعی اخراجات کی مثال بڑے ٹرک کی ہے، معیشت کا یہ چھوٹا مینڈک، اخراجات کے اس بڑے ٹرک کے نیچے زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے"بہرحال یہ تو بجٹ کی عمومی صورت حال ہے، حکومت کو مال چاہیے جس کے لیے ٹیکس لگائے جاتے ہیں، چونکہ یہ ملک سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے افسروں کا ہے اور یہ طبقات تو ٹیکس نہیں دیتے، اسی لیے ٹیکس بھی صرف رعایا یا غریبوں پر لگایا جا سکتا ہے اور وہ لگتا بھی ہے۔
بے چارے غریب جو بھی چیز خریدتے ہیں اس پر ٹیکس لگایا جاتا ہے غریب ملازمین چونکہ تنخواہ چھپا نہیں سکتے اس لیے ان پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور اعلیٰ افسرشاہی بہرحال ٹیکس دینے سے انکاری ہیں، اس ملک کی پوری اکانومی غریب محنت کشوں اور نچلے درجے کے ملازمین اور چھوٹے تاجروں کی آمدنی کے بل بوتے پر چلتی ہے، بڑے لوگ کھاتے ہیں اور چھوٹے لوگ کماتے ہیں۔
پہلے عوام بڑی شدت سے بجٹ کا انتظار کرتے تھے، سال میں ایک دفعہ جو کچھ بھی ہونا تھا وہ بجٹ میں ہی ہوجاتا تھا، ہر شخص کو آسانی ہوجاتی کیونکہ اگلے سال کے بجٹ تک پھر کبھی ان پالیسیوں اور ٹیکسوں وغیرہ میں کمی بیشی نہ ہوتی، شدید ضرورت کے تحت اسمبلی میں ضمنی بجٹ یا مطالبات زر، منظوری کے لیے پیش کردیے جاتے۔ اب صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے، نہ بجٹ کا تقدس قائم رہا اور نہ حکومت کے وزیر خزانہ کے الفاظ کا، اب بجٹ کے معنی بھی بدل گئے ہیں۔ اب حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ کب وہ کسی چیز کے نرخ میں اضافہ کرتی ہے یا کمی۔ کمی کا لفظ میں نے ویسے ہی استعمال کردیا ورنہ ہمیشہ قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے، آج کل حکومت نا جانے کن کن اداروں کے ذریعے عوام کو لوٹتی ہے۔
صبح اٹھ کر ٹی وی کھولیں تو خبر فلیش ہوتی ہے بلکہ بریکنگ نیوز آجاتی ہے کہ رات بارہ بجے، اچانک بجلی کے نرخ پانچ فی صد بڑھا دیے، بجلی کے نرخ کیا بڑھتے ہیں کہ کارخانوں میں بنائی گئی مصنوعات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں، عوام کے استعمال کی تقریباً ہر چیز کارخانوں میں بنتی ہے اسی لیے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے، زراعت کا انحصار بھی زیادہ تر ٹیوب ویل اور کھاد وغیرہ پر ہوتا ہے، بجلی کے نرخ بڑھنے سے ان کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ابھی یہ غم تازہ ہوتا ہے کہ 15 دن گزر جاتے ہیں۔
شام کو ہی اعلان ہوجاتا ہے کہ گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اب پھر مصیبت کیونکہ ٹرانسپورٹ اور بجلی گھر سب کے سب تیل کے محتاج ہیں، اسی طرح پھر قیمتیں بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں، مصیبت تو یہ ہے کہ ہر 15دن کے بعد پٹرول پمپوں والے سپلائی روک دیتے ہیں، کسی دل جلے نے کیا خوب کہا ہے کہ "نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز"اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہر روز اور ہر پندرھواڑے نیا بجٹ آتا ہو تو سالانہ بجٹ کی افادیت اور ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟
حکمران اور سیاسی رہنماء ہر وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے، اس بالادست پارلیمنٹ سے آج تک کبھی بھی بجلی اور تیل جیسی چیزوں کو مہنگا کرنے یا اشیاء پر ٹیکس لگانے کے بارے میں منظوری نہیں لی گئی، عوام کے نمایندوں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ عوام کا بھرکس نکالنے والے ان اقدامات کے متعلق حکومت سے سوال کریں۔ اگر کل ہمارے وزیرخزانہ صاحب نے بجٹ پیش کیا اور آج حزب اختلاف والے اس کو عوام دشمن کہہ رہے ہیں، تو دونوں قوم کے ساتھ ڈراما کر رہے ہیں "ڈراما باز کہیں کے، اگر مرکز نے تنخواہوں اور پنشن میں 10فی صد اضافہ کیا ہے تو سندھ اور پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو بیس فی صد اضافے سے کس نے روکا ہے؟ اسی نظام زر کو سہارا دینا ہی موجودہ سیاست دانوں کا فریضہ ہے۔
سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی کے مفادات کا تحفظ کرنا ان کااولین فریضہ ہے۔ آپ بجٹ پر نظر ڈالیں تو غیر پیداواری اخراجات، بیرونی قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور دوسرے ان اخراجات کے بعد جو مکمل طور پر حکمران طبقوں کے مفاد میں ہوں کوئی ایسی مد آپ کو نظر نہیں آئے گی، جس میں غریب طبقوں کے لیے بھی کچھ ریلیف دیا گیا ہو، اسی لیے میں نے بجٹ پر لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ حکمران طبقے جان چکے ہیں کہ عوام کو جتنا نچوڑو، کچھ نہ کچھ تیل نکل آتا ہے۔ جب تک پاکستان کو سیکیورٹی ریاست کے بجائے فلاحی ریاست نہیں بنایا جائے گا، عوام کے لیے کچھ نہیں ہوگا، پاکستان کے عوام دنیا کی پہلی مخلوق ہے جو ہرقسم کا ظلم برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بقول قتیل شفائی۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا