انور سے نجیب نے پوچھا کہ تمہیں ناہید کیسے لگتی ہے؟ اس نے جواب دیا بہت خوبصورت، اور یاسمین کیسی ہے؟ وہ بھی بہت پیاری ہے اور نرگس؟ وہ بھی اچھی لگتی ہے۔ یار تمہیں سب لڑکیاں اچھی لگتی ہیں؟ نجیب نے کہا۔ انور نے جواب دیا "یار یہ تو خدا سے پوچھو، جس نے اتنی ساری خوبصورت لڑکیاں ایک ساتھ پیدا کی ہیں۔ یہ حال ہمارے محترم وزیر اعظم کا ہے۔
ان کو اپنے ملک کا نظام پسند نہیں، جس نظام کے تحت حکومت کر رہے ہیں وہ تو بالکل پسند نہیں لیکن جس دوسرے ملک کو دیکھتے ہیں اس کے نظام پر فدا ہوجاتے ہیں سوائے پاکستان کے۔ ان کا اپنا نظریہ کیا ہے، کم از کم مجھے تو معلوم نہیں ہوسکا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب ریاست مدینہ، چینی ماڈل پر استوار کرنا چاہتے ہیں یا چینی ماڈل اور ریاست مدینہ کے تصور کو ایک شے سمجھتے ہیں، پھر اس میں ان کا پسندیدہ "قائد اعظم اور علامہ اقبال "کا خواب کہاں ایڈجسٹ ہوتا ہے اور اسی ماڈل میں اسکینڈے نیویا کی فلاحی ریاست کا ماڈل کیسے فٹ ہوگا۔ خان صاحب کا مخمصہ صرف طرز حکومت نہیں ہے بلکہ سیاحت بھی ہے۔
کاغان کے دورے کے وقت وزیر اعظم نے کہا کہ "آسٹریلیا میں کوئی وادی کاغان نہیں ہے، پاکستان کی خوبصورتی بے مثال ہے اگر سیاحت یہاں فروغ پائے تو ہماری معاشی دشواریاں دور ہو سکتی ہیں " اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آسٹریلیا میں وادی کاغان نہیں ہے، جرمنی اور ترکی میں مری، گلیات اور کالام کی خوبصورت وادیاں نہیں ہیں، فلپائن اور تھائی لینڈ میں کشمیر اور وادی کمراٹ نہیں ہے، تو پھر سیاح یہاں آنے کے بجائے وہاں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ اور کیوں لاکھوں ڈالر وہاں خرچ کرنے آتے ہیں، آخر دبئی، اسکندریہ، قاہرہ، بنکاک اور منیلا میں کون سا قدرتی حسن ہے کہ سارا سال سیاحوں کا رش کم نہیں ہوتا۔ میرا ایک دوست کینیڈا میں رہتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ ہم لاکھ کینیڈین سیاحوں کے سامنے پاکستان کی خوبصورتی کی تعریف کرتے رہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی عناصر غیر ملکیوں کو قتل کرتے ہیں اور یہ طالبان کا علاقہ ہے یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں، اس لیے وہ پاکستان آنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ سیاحت چند دن سکون میں گزارنے کے لیے کرتے ہیں، قتل یا اغوا ہونے کے لیے نہیں۔ اگر ان سے کہاجائے کہ پاکستان میں امن ہے تو پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان میں کیسینوز ہیں؟ کیا وہاں ڈسکوز اور بارز ہیں؟ کیا وہاں ڈانس کلب ہیں؟ اگر جواب نفی میں دیا جائے تو ایک صاحب نے مجھے پوچھا کہ دبئی اور ترکی کون سے مذہب کے ملک ہیں۔ میں نے جواب دیا، وہ اسلامی ملک ہیں۔ اس پر ان صاحب نے کہا کہ میں پچھلے سال ان دونوں ملکوں میں گیا تھا وہاں تو سب کچھ آزاد ہے کیا ان کا اسلام پاکستان کے اسلام سے جدا ہے؟
مجھے یاد ہے کہ جب میں تہران گیا تو وہاں پر سیاحوں کا اتنا رش تھا کہ مقامی لوگ اس میں نظر نہیں آرہے تھے، شہنشاہ ایران کا زمانہ تھا، ہر طرف کلب اور شراب خانوں کی بھرمار اور ہر جگہ سیاحوں سے بھرپور، ایک دفعہ میں 21مارچ کی شام کو تہران ایئر پورٹ پر اترا، میرا قیام رائل ایوین ہوٹل میں تھا جو شہنشاہ کے داماد ارد شیر زاہدی کی ملکیت تھی، آدھے حصے میں امریکن فوجی تھے اور باقی میں سویلین۔ رات کو دونوں حصوں میں ڈانس پارٹیاں اور بار کھلے تھے، تمام مسافر وہاں رات تک لطف اندوز ہوتے رہے، رات تقریباً بارہ بجے میں اپنے کمرے میں آگیا، صبح اٹھا اور سوچاکہ ناشتے کے بعد تہران شہر میں دوستوں سے ملوں گا، جب نیا سوٹ نکالا تو پینٹ ڈھیلی تھی سامان میں دیکھا تو بیلٹ لانا بھول گیا تھا، ناچار ناڑہ باندھ کر اوپر سویٹر پہنا اور شہر پہنچ گیا، پورا شہر بند تھا صرف ہوٹل اور دوائی کی دکانیں کھلی تھی۔
پوچھا یہ کیوں تو دوست نے جواب دیا کہ آج نوروز ہے اور ایران کے لوگ سارے کام بند کرکے پرفضا مقامات پر چلے جاتے ہیں اور دس دن تک خوب انجوائے کرتے ہیں، ہم نے بھی پروگرام بنایا اور کیسپیئن کے ساحل پر چلے گئے، وہاں بھی کلب، ڈانس اور بار موجود تھے، بازاروں میں آب جو کی دکانیں ہر جگہ موجود تھیں، میں بیروت گیا وہاں کاحال تو اور بھی رنگین تھا، کابل میں ہر جگہ سیاح بھرے ہوئے ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی تھی، سینماؤں میں ہر وقت فلم چلتی۔ ہر شام ہوٹلوں میں کنسرٹ ہوتے تھے اور خوبصورت سنگر موسیقی پیش کرتے، بار اور کلب بھی بعض جگہ ملتے، جناب یہ تھے ہماے خطے میں سیاحت کے مراکز، کراچی اور لاہور کے کلب اور دیگر سامان بھی خوب تھے۔ آج بھی ترکی میں سیاحت کے لیے سب کچھ آزاد ہے اور اربوں ڈالر سیاحت کی آمدنی ہے۔
آج جب عمران خان پاکستان میں سیاحت کی آمدنی کے خوش کن امیدیں دلاتے ہیں، تو مجھے ان کی سابقہ خوشنما وعدوں اور نعروں کی یاد آجاتی ہے بلکہ دو سو ارب ڈالر لاکر آئی ایم ایف اور عوام کے منہ پر مارنے کی مراد سعید کی دھمکی بھی یاد آجاتی ہے۔ جناب وزیراعظم کو پاکستان کے خوبصورت مقامات نظر آتے ہیں لیکن آس پاس کے ماحول سے بے خبر ہیں، جناب عالی!سیاحت صرف سادہ شوق نہیں بلکہ ڈھیر ساری آرزوؤں کا مرکب ہوتا ہے، دنیا کی سیر کوجو لوگ نکلتے ہیں، وہ دنیا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اپنے ماحول کو چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں جاکرڈپریشن سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور موج میلہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کیاجناب عمران خان کو پتہ نہیں کہ اس ملک میں انٹرٹینمنٹ کے دروازے ہم نے بند کردیے ہیں، ایسے میں کون بیوقوف ہوگا جو باقی دنیا کی آسائشیں چھوڑ کر یہاں نصیحتیں سننے آئے گا۔
غیرملکی سیاح یہاں آکر کرے گاکیا؟ ہم تو نصیحتوں اور تبلیغ کے عادی ہو چکے ہیں، کھیلوں، میلوں اور تماشوں کے وہ مخالف ہیں اور ان کے سامنے پورا معاشرہ اور حکومت ڈھیر ہو گئی ہے، ہمارے راستے تو متعین ہیں، شام کو مسجد جائیں یا گھر میں بیٹھ کر پی ٹی وی کے فضول ڈرامے دیکھیں، بازار میں جائیں تو کسی ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھائیں۔
قومی تہواروں خاص کر عید کے دنوں میں مردوں اور عورتوں کے الگ میلے دیہات میں بھی ہوتے تھے لیکن اب یہ سب غیر شرعی قرار دے کر بند کردیے گئے ہیں لیکن روس، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہمیں رہنے والوں کا شام گزارنے کا وہ طریقہ نہیں ہوگا جو ہمارا ہے بلکہ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بڑے کوشش کریں گے کہ باہر کے سیاح بھی ہماری تقلید کریں، پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ کالج کے لڑکے دیر میں کمراٹ کی سیر کو گئے تھے، رات کو انھوں نے کچھ موسیقی اورناچ گانا کیا ہوگا، لیکن ان کے خلاف فحاشی کا پرچہ کردیاگیا۔ ایسے میں کون احمق ساری دنیا چھوڑ کر یہاں آئے گا؟ سیاح وہاں جاتے ہیں جہاں ان کی دلچسپی کے سامان ہوں، مذہبی سیاح مذہبی مقامات پر جائیں گے اور عام سیاح کلب وغیرہ میں جائیں گے۔
جنرل ضیاء کے بعد اتنی تبدیلی آئی کہ گاؤں میں کبڈی کا میچ ہو رہا تھا، ایک صاحب آئے اور گراؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا کہ یہ کھیل تماشے غیر شرعی ہیں ان کوبند کرو، یہ حال ہر جگہ ہے۔ اگر ہمیں ڈالروں اور سیاحت کی آمدنی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر موجودہ صورت حال جائز ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں پاکستان سیاحت کا مرکز بن جائے، کیونکہ سیاحت کی آمدنی ہماری معیشت کے لیے اہم ہے تو پھر ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔