جس طرح اس ملک کو چلانے کے لیے آج تک کسی ایک نظام کا معلوم نہیں ہوسکا، اسی طرح قومی مفاد کا بھی پتہ نہیں چل سکا۔ قائد اعظم کا سیکولر ایجنڈا، لیاقت علی خان کے قرارداد مقاصد سے بدل جاتا ہے، 1940کی قرارداد کے وفاقی نظام کا نتیجہ ون یونٹ اور ایوب خان کے مارشل لاء کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
بڑی مشکلوں سے بنایا گیا، 1973کا متفقہ آئین الماریوں کی زینت بن جاتا ہے اور اس کا پارلیمانی نظام، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لائی نظام میں تبدیل ہوجاتا ہے اور آج کل تو ملک میں ہائی برڈ جمہوریت کا نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
یہی حال قومی مفاد کابھی ہے، آج ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرنی، وہاں ہمارا کوئی بھی پسندیدہ نہیں ہے لیکن ماضی میں قومی مفاد یہ تھا کہ ہماری تزویراتی گہرائی یا Strategic Depthافغانستان سے وابستہ ہے، اس لیے ہمارا مفاد یہ ہے کہ یہاں پر مجاہدین یا طالبان کی حکومت ہو کیونکہ وہ پاکستان کے حامی ہیں اور ہماری پالیسیوں پر چلیں گے۔
آج کا قومی مفاد یہ ہے کہ ہندوستان سے تعلقات میں بہتری ہمارے فائدے کی بات ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہندوستان کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کردے، حالانکہ سابقہ حیثیت میں بھی کشمیر ہندوستان کے زیر قبضہ تھا، کشمیر کے لوگوں کو حکمرانوں نے مختلف خواب دکھائے، کبھی انھیں تسلی دی گئی کہ اب سفارت کاری کے ذریعے ہم آپ کو کشمیر دلوا دیں گے، کبھی انھیں بتایا گیا کہ اب کشمیریوں کی جہادی تنظیمیں چند سال میں کشمیر کو آزاد کرا دیں گی۔
اب انھیں بتایا جا رہا ہے کہ دراندازی کرنے والا کشمیر اور پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوگا۔ وزیر اعظم نے الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کشمیر میں رائے شماری کے بعد جب کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا تو پھر ہم ایک اور ریفرنڈم کرائیں گے، جس میں کشمیریوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
کیا وزیر اعظم کو معلوم نہیں کہ آج بھی محاذ رائے شماری اور کشمیر لبریشن فرنٹ جیسی خودمختار کشمیر کی حامی پارٹیوں کونہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی انتخابات لڑنے کی آزادی نہیں، پہلے ان کو الیکشن لڑنے کی آزادی دی جائے تو پھر آگے چلیں۔ حالانکہ مجوزہ دوسرا ریفرنڈم اصل میں پہلے والے ریفرنڈم کا رد ہوگا، شاید وزیر اعظم کو معلوم نہیں۔
آج کا مفاد یہ بھی ہے کہ امریکا کے ساتھ غلامی کی نہیں بلکہ برابری کے تعلقات ہونے چاہیے، امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے بارے میں صرف فیض کے بقول کہ
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
سالہا سال تک امریکا کی محبت میں سامراجی کیمپ کی خدمت اور بے شمار دشمنیوں کے بعد اب برابری کے تعلقات یاد آئے، حالانکہ سامراجی کیمپ میں رہنے کی وجہ سے ملک کوبہت نقصان اٹھانے پڑے۔ حال ہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ملکی اور علاقائی صورت حال پر قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے عسکری قیادت نے اراکین پارلیمنٹ کو جو بریفنگ دی، اسے ہر طرف سے سراہا گیا ہے، اس بریفنگ کا مطلب یہ ہے کہ تمام حقائق عوامی نمایندوں کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں، اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ ان حقائق کی روشنی میں پالیسی گائیڈ لائنز مرتب کرے، تاکہ ملک کو درپیش چیلنجز سے موثر طور پر نمٹا جا سکے۔
مجھے لگتاہے کہ اس خطے اور خصوصاً افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ضروری اصلاح کا عمل شروع کیا گیا ہے، حالیہ بریفنگ اس عمل کی ابتداء ہے۔ پالیسی سازی ایک پیچیدہ، کثیر جہتی، ہمہ گیر اور طویل المیعاد تناظر میں مقاصد کے حصول کے لیے لائحہ عمل کی تشکیل کا نام ہے، پارلیمنٹ کو ہمیشہ پالیسی سازی سے باہر رکھا گیا ہے، دیر آید درست آید اب پارلیمنٹ سے رجوع کیا گیا ہے، اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کیا کرتی ہے۔
آج حالات جنرل ضیاء کے 1980اور جنرل مشرف کے 9/11سے بالکل مختلف ہیں۔ اس وقت پاکستان امریکا کو آنکھیں بھی دکھا کر فائدہ حاصل کر سکتا تھا، افغان "مجاہدین" بھی ان کے رحم و کرم پر تھے، پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کا خوب فائدہ اٹھایا، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ افغان، چیچن، وسط ایشائی اور عرب مجاہدین لڑ رہے تھے، ہتھیار امریکا اور پیسہ عرب ملکوں کا استعمال ہو رہا تھا، یہی حال 9/11 کے بعد بھی تھا، آج پاکستان کی وہ پوزیشن نہیں ہے بلکہ ایک نئی صورت حال درپیش ہے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی سامراج دوست پالیسیوں کا نتیجہ پاکستان کے پرامن اور سادہ لوح عوام انتہا پسندی کی شکل میں آج تک بھگت رہے ہیں جب کہ افغانستان کی جنگ کے بینفیشری اپنی آل اولاد کو ترقی یافتہ اور پرامن ملکوں کی شہریت دلوانے میں کامیاب رہے جب کہ پاکستان میں بھی یہ مراعات یافتہ طبقہ بڑے بڑے کاروباری اور چیریٹی اداروں کے بل بوتے پر ملکی سیاست اور اقتدار پر قابض چلا آرہا ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اعلان کیا کہ بھارت کی کوششوں سے پاکستان FATFکے گرے لسٹ پر برقرار ہے، اس اعلان پر پاکستان کے وزراء اور حکومت خوشیاں منا رہے ہیں کہ ہم پہلے کہہ رہے تھے کہ یہ بھارت کی سازش ہے، ہماری بات سچ نکلی، بھارت ہمارا دشمن ہے اور وہ ضرور ہمیں نیچا دکھائے گا، مسئلہ یہ ہے جب وہ سازش کر رہا تھا تو ہم کیا کر رہے تھے؟ ، جب ہمیں مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے تو اس وقت ہمارا وزیر خارجہ بیان دینے کے علاوہ اور کیا کر رہا ہوتا ہے؟ بھارت کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ ہے۔
اس کا پاکستان کے پاس کیا جواب تھا اور ہے؟ ہمارا تو وزیراعظم مسلسل اقرار کررہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے جو اب بھی ہورہی ہے۔ اقوام عالم میں آپ کو اپنی بات اپنی متحرک سفارتی پالیسی، ٹھوس داخلی پالیسی اور دلیل سے منوانی پڑتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دوست ہوں کیونکہ آپ کی بات صرف دوست سنتے ہیں، اگر ہماری بات میں وزن ہے اور دنیا نہیں مانتی تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہمارے دوست کم ہیں، یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے کہ دنیا میں ہمارے دوستوں میں کمی ہو رہی ہے، جن ممالک کو ہم دوست سمجھتے ہیں وہ بھی عالمی فورم پر ہماری حمایت نہیں کر رہے۔ FATFمیں بھی مسلم ممالک ہماری حمایت نہیں کر رہے، ہمارا سارا انحصار صر ف چین پر ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر حکومت OICکا اجلاس بلانے میں ناکام رہی، اس کا مطلب ہے کہ ہماری سفارت کاری اتنی کمزور ہے کہ ہم مسلم ممالک کے محاذ پر بھی ہندوستان سے ہار گئے۔ ہائے رے مسلم امہ؟ کیا عربوں کو ناراض کرکے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ جانا مناسب فیصلہ تھا، بدنامی لینے کے بعد جب عرب ملکوں کا دباؤ آیا تو ہم ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ بھی نہیں گئے، یعنی دونوں کو ناراض کردیا۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہ تقریباً ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اس کے باوجود طالبان کی کامیابی کی صورت میں پاکستان ایک اور مذہبی انتہا پسندی کی لہر کی زد میں آنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ امریکا کا خاص ہدف چین کی ترقی کو روکنے کے ساتھ ساتھ صدر ژی جن پنگ کا روڈ اینڈ بیلٹ کا عظیم منصوبہ ہے جس میں CPEC بھی شامل ہے۔ پاکستان کو کس کا ساتھ دینا ہے اس کا انحصار آنے والے دنوں میں پاکستان کے پالیسی سازوں پر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی مفاد کا فیصلہ کون کرے گا، اب تک تو سارے فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں، بہتر تو یہ ہوتا کہ پارلیمنٹ کا ایک طویل خصوصی اجلاس پاکستان کو نئی راہ سمجھانے میں کردار ادا کرے اور پاکستان کو نئی غلطیوں سے بچانے کے لیے اہم اور فوری فیصلے کرے، بدقسمتی سے موجودہ پارلیمنٹ گالی گلوچ کے علاوہ کسی اور کام کی نہیں لگتی۔ یہی دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔