19اپریل 2010کو پارلیمنٹ نے آئین میں 18ویں ترمیم منظور کی، جس کے مطابق پاکستان میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، 1 8ویں ترمیم کے بعد بھی یہ بحث جاری ہے کہ کیا صوبوں کو اپنے حقوق پورے مل گئے ہیں؟ اس کے بارے میں دورائے پائی جاتی ہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صوبوں کو مکمل خود مختاری مل گئی ہے، لیکن بعض قوم پرست یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں، ان کے خیال میں یہ ترمیم ایک نامکمل دستاویز ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ باچا خان کا ارمان پورا ہو گیا، آج بھی اس ترمیم کا سارا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے بارے میں بعد میں تفصیل سے بات کریں گے۔ آج اس مسئلے کا ا یک تا ر یخی جائزہ لینا دلچسپی کا باعث ہوگا، پا کستان کے قیا م کے وقت مسلما ن ا کثر یتی صو بو ں پنجاب، سند ھ، مشر قی بنگا ل، ریاست قلا ت کے مجا لس قا نو ن سا ز نے پاکستان میں شمو لیت کی منظوری دی تھی، صوبہ سر حد میں چونکہ کا نگر س اور خد ا ئی خد مت گار تحر یک کی حکو مت تھی ا س لیے یہاں پر ریفرنڈم کا فیصلہ کیا گیا، عو ام کے سا منے دو سو ال ر کھے گئے کہ " وہ ہند و ستان میں شا مل ہو نا چا ہتے ہیں یا پا کستان میں "؟ خد ا ئی خد مت گا رو ں نے ر یفر نڈ م کا بائیکا ٹ کیا، بہر حال اس ریفرنڈم میں بقول حکومت اکثر یت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ د یا۔
پا کستان کا وفاق صوبوں کی منظوری سے بنا تھا اس لیے صوبوں کے اختیارات کے مسئلے کی اہمیت بہت زیادہ تھی، اس سلسلے میں کا فی بحث مبا حثے کے بعد چند مسا ئل ا بھر کر سامنے آئے تھے، جس کا حل بہت ضروری تھا۔ پہلا مسئلہ یہ کہ صو بو ں کو کتنی خو د مختیا ر ی دی جا ئے تاکہ وفاق کو بھی نقصا ن نہ پہنچے اور صو بے بھی مطمئن ہوجائیں، دوسر ا مسئلہ یہ تھا کہ جب تک صو بو ں کو مالیاتی خودمختیاری نہیں ملتی صر ف انتظامی خو د مختیا ر ی تو بے کا رہو گی، تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ا بھی تک مختلف پارٹیوں اور صو بو ں میں یہ فیصلہ نہیں ہوسکا تھا کہ 1973 کے آ ئین میں دی گئی، صو با ئی خو د مختیا ری کا فی تھی یا اس میں تر میم کی ضر ور ت تھی؟
تا ر یخ کے طا لب علم کے لیے یہ با ت د لچسپی کا باعث ہو گی کہ صو با ئی خو د مختیا ری کا مسئلہ با چا خان، جی ا یم سید، غوث بخش بزنجو، عبد ا لصمد خان اچکز ئی اور شیخ مجیب جیسے چند "غداران پا کستان" کا پید ا کر دہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ بنیا دی طور پر بانی پاکستان قا ئد ا عظم اور مسلم لیگ نے اٹھایا تھا، متحد ہ ہند وستان میں یہ مسئلہ ا تنا ا ہم تھا کہ اس کی و جہ سے مسلم لیگ اور کا نگریس کے درمیا ن سمجھوتوں میں رکا و ٹ پڑ تی ر ہی بلکہ بہت سے تجز یہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا، جب یہ دو نو ں پا ر ٹیاں صو با ئی خودمختاری کے مسئلے پر متفق نہ ہو سکیں۔
پا کستان کی پہلی آ ئین سا ز ا سمبلی میں صو با ئی حقوق کے متعلق تفصیل سے بحث مبا حثہ ہو تا ر ہا، مختلف سیا سی ر ہنما ؤں نے اس خطرے کا اظہا ر کیا کہ مرکز ی حکو مت کے طرز عمل سے و فا ق پر مغربی پاکستان کی بالاد ستی قا ئم ہو نے کا خد شہ ہے، مشر قی پا کستان کے رہنما ؤں کو خا ص کر اس خطر ے کا احساس تھا، کسی صاحب نے لکھا تھا کہ " چو ہدری ر حمت علی کے مجوزہ نام ’پاکستان، میں بنگال کے لیے پہلے سے ہی کوئی حرف موجود نہیں تھا"۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صو بو ں کو ز یا دہ خو د مختا ری دے کر خارجہ امو ر، د فا ع، کر نسی اور مو ا صلا ت کے علا وہ د یگر تما م محکمے صو بو ں کی تحو یل میں د یے جائیں۔
گو ر نر جنر ل غلا م محمد نے جب 1953 میں وزیر اعظم ناظم الدین کی حکو مت ختم کی تو د یگر وجوہات کے علاو ہ یہ و جہ بھی بیا ن کی گئی کہ وزیر ا عظم صاحب مشر قی پا کستان میں صو با ئی خو د مختا ری کے لیے چلا ئے جا نی و ا لی تحر یک کو کچلنے میں نا کا م رہے تھے۔ 1954میں ا نتخا با ت کے مو قع پر مشرقی پا کستان کی قو م پر ست پا رٹیو ں نے متحد ہ محاذ (جگتو فر نٹ)قا ئم کیا، مغر بی پا کستان کی با لادستی کے خلاف اور خودمختاری کے نعر ے پر انتخابات میں جگتو فر نٹ نے مسلم لیگ کو شکست دی۔
مشرقی پاکستان اور مغر بی پا کستان میں خلیج بڑھتی ر ہی، مشر قی پا کستان کی آ با دی مغر بی پاکستان کے چاروں صو بو ں سے ز یا دہ تھی، وہ مسلسل اسمبلیو ں میں نمائندگی، ملا ز متوں اور وسائل میں ا پنا حق ما نگتا رہا، مشرقی پا کستان کو اس حق سے محر وم کر نے کے لیے ایک عجیب چکر چلا یا گیا، مغر بی پاکستان کے چا روں صو بو ں کو ختم کر کے " ون یونٹ "کے نا م پر "صو بہ مغربی پاکستان" بنا د یا گیا اور اس کا دارا لحکو مت لا ہو ر قر ار پایا، اس طرح مغربی پا کستان اور مشر قی پاکستان دو نو ں صو بو ں میں مسا و ا ت (Parity ) کا ا صو ل لاگوکر د یا گیا، حا لا نکہ مشر قی پا کستان 52%اور مغر بی پاکستان48% کے حقدار تھے۔
1956کے آ ئین کی بنیادا سی "منصفانہ " اصول پر ر کھی گئی، پہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ 52 اور 48 برابر ہوتے ہیں، اس ا قد ام سے و ز یر ا عظم چو ہد ری محمد علی نے ایک طر ف مغر بی پاکستان کے چھو ٹے صوبوں کو ختم کر دیا اور دوسر ی طرف مشر قی پا کستان کو ا پنے جائز حصے سے محر وم کردیا۔ مغر بی پا کستان کے پہلے وزیراعلی باچاخا ن کے بڑے بھا ئی ڈ ا کٹر خا ن صاحب مقر ر کیے گئے جب کہ باچاخا ن اور چھوٹے صو بو ں کے سیاستدانوں نے "انٹی ون یو نٹ فرنٹ "کے نا م سے اتحادبنا کراس کے خلا ف تحریک چلائی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اس ا قد ا م کو بنگا لیو ں نے اپنے حقوق پر ڈاکے سے تعبیر کیا اور ا س طر ح ا یک طرف مشر قی پاکستان اور دو سر ی طر ف مغر بی پا کستان کے چھوٹے صو بو ں میں پنجا ب کے خلا ف ایک نفرت پیداہو گئی۔
جنر ل ا یو ب خان کی( unity of command) و ا لی حکو مت میں صوبائی حقوق کی آ واز یں اور بھی تیز ہوگئیں، 1962 کے آئین میں ر ہی سہی و فا قی صو ر ت حال بھی ختم کر دی گئی، ا یو ب خا ن کے پوری حکو مت میں حز ب اختلا ف پا ر لیما نی نظا م اور صو با ئی خودمختاری کے لیے جد و جہد کر تی رہی اور جب اُ ن خلا ف آ خر ی تحریک چلی تو مشر قی او ر مغربی پا کستان کے عو ام کا مطالبہ یہی تھاکہ پارلیمانی نظام بحا ل کیا جا ئے، ون یونٹ ختم کیا جا ئے، چھوٹے صو بے بحا ل کرکے مکمل صوبا ئی خو د مختا ری دی جا ئے، ایوب خان کی حکومت کے بعدجب جنرل یحیی خان نے حکومت سنبھالی تو عو امی خواہشات کا احترام کر تے ہو ئے ون یو نٹ ختم کر کے بلوچستان کو مکمل صوبائی حیثیت دے دی گئی، ریاستوں کو ختم کرکے ملحقہ صوبوں میں شامل کردیا گیا۔
1970کے ا نتخا با ت کے بعد بننے و ا لی اسمبلی جب مشرقی پا کستان کی علیحد گی کی بعد نیا آئین بنا نے لگی تو سب سے بڑا مسئلہ پھر بھی صوبائی خو د مختا ری کا تھا۔ 1973کے آ ئین میں بعض ایسے ا قد ا مات تجو یز کیے گئے تھے جس سے صوبوں کی کچھ نہ کچھ تسلی ہو گئی۔ NFC۔ CCI اور NECجیسے آ ئینی اداروں کی تشکیل سے صوبائی خو د مختیا ری کا مسئلہ حل ہو نے کی اُمید پید ا ہو گئی تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان اداروں کو کامیابی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔