جبرالٹر براعظم افریقہ اور براعظم یورپ کے عین درمیان واقع ہے، مراکش افریقہ کا ملک ہے اور جبرالٹر یورپ کا پہلا ملک ہے، مراکش کا شہر طنجہ جبرالٹر سے صرف 14 کلو میٹر دور ہے، یہ سفر فیری پر آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے، جبرالٹر کے پہاڑ سے طنجہ کی روشنیاں نظر آتی ہیں، دنیا کے ستر فیصد بحری جہاز بحیرہ اوقیانوس سے آتے ہیں اور آبنائے جبرالٹر سے گزرکر بحیرہ روم جاتے ہیں اور وہاں سے اسی راستے واپس آتے ہیں، یہ تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔
شہر کے دو حصے ہیں، پہاڑ اور زمین۔ پہاڑبھی دو ہیں، ایک زیادہ بلند ہے اور دوسرا نسبتاً کم بلند، دونوں پہاڑوں کے درمیان اونچے درخت اور جھاڑیاں ہیں، یہ جھاڑیاں اور درخت پہاڑوں کو آپس میں ملاتی ہیں، آپ اگر دور سے جبرالٹر کے پہاڑ دیکھیں تو یہ آپ کو بحری جہاز محسوس ہوں گے، زمینی علاقے گرم ساحلوں پر مشتمل ہیں، زمین کا نصف سے زائد حصہ سمندر میں مٹی او رپتھر ڈال کر مصنوعی طور پر بنایا گیا ہے، شہر کی زیادہ تر رہائشی عمارات، دفاتر اور شاپنگ سینٹر اسی مصنوعی زمین پر قائم ہیں، شہر یا ملک کا کل رقبہ چھ کلو میٹر ہے، آپ 45 منٹ میں پورا ملک پیدل گھوم سکتے ہیں۔
ملک پر برطانیہ کا قبضہ ہے، زبان انگریزی اور کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ ہے، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر یونین جیک لہراتا ہے، جبرالٹر میں داخلے کے لیے برطانیہ کا ویزہ ضروری ہے تاہم آپ اگر یورپی شہریت رکھتے ہیں یا آپ کے پاس اسپین سمیت یورپ کے کسی ملک کا پاسپورٹ موجود ہے تو آپ کو بارڈر پر"انٹری" مل سکتی ہے، اسپین کے آخری شہر لالینا میں جبرالٹر میں داخلے کے لیے قطار لگ جاتی ہے، آپ اپنی گاڑی پر بھی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اورگاڑی اسپین میں کھڑی کر کے پیدل بھی اندر جا سکتے ہیں، کل آبادی صرف 32 ہزار ہے جب کہ روزانہ 18 ہزار سیاح ملک میں آتے ہیں، مسلمان سات فیصد اور یہودی تین فیصد ہیں، جبرالٹر میں چار پانچ پاکستانی ڈاکٹر بھی رہتے ہیں۔
مجھے وہاں ڈاکٹر پرویز ملے، یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے ہیں، یہ 13 سال سے جبرالٹر میں رہائش پذیر ہیں، ملک کے مشہور ڈاکٹر ہیں، پورا شہر انھیں جانتا ہے، یہ جہاں جاتے ہیں لوگ انھیں جھک کر ملتے ہیں، جبرالٹر میں چھ سو ہندو بھی آباد ہیں، یہ لوگ سندھ سے تعلق رکھتے تھے، یہ لوگ ڈیڑھ سو سال پہلے نواب شاہ، لاڑکانہ اور کراچی سے ممبئی شفٹ ہوئے، ممبئی میں سو سال قبل تین تجارتی کمپنیاں بنیں، یہ کمپنیاں برطانوی راج کے مختلف ملکوں میں کام کرتی تھیں، یہ سندھی ہندو ان کمپنیوں کے ذریعے جبرالٹر پہنچے، کمپنیاں ختم ہو گئیں لیکن یہ اس جادونگری میں بس گئے، یہ تمام لوگ تجارت پیشہ ہیں۔
ملک کی زیادہ تر دکانیں ان کے پاس ہیں، مجھے شہر میں چندو نام کا ایک سندھی ہندو ملا، اس کے بزرگ 1852ء میں جبرالٹر آئے تھے، یہ آج بھی سندھی، ہندی اور اردو بولتا ہے، اس کی ماں کی عمر 82 سال ہے، یہ نواب شاہ سے تعلق رکھتی ہیں، یہ زندگی میں ایک بار نواب شاہ دیکھنا چاہتی ہیں، چندو کو جب پتہ چلا، میں پاکستانی ہوں تو اس نے منت کے انداز میں کہا " آپ میری ماں کو مرنے سے قبل نواب شاہ دکھا سکتے ہیں؟" میں نے اس سے وعدہ کر لیا، سرحدیں اور سرحدوں کے پیچھے چھپی نفرت کتنی خوفناک ہوتی ہے؟
جبرالٹر "کرائم فری" ہے، لوگ دروازے اور گاڑیاں کھلی چھوڑ جاتے ہیں، ملک میں کسی کا پرس گر جائے تو وہ گھوم گھام کر اس تک پہنچ جاتا ہے، جبرالٹر کی تاریخ میں آج تک صرف دو قتل ہوئے، چوری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، گورنر ملک کا سربراہ ہے، اس کی تعیناتی ملکہ برطانیہ کرتی ہے، گورنر ہاؤس مین اسٹریٹ میں واقع ہے اور گورنر عام لوگوں کی طرح باہر نکل کر چلتا پھرتا رہتا ہے، جبرالٹر کا ائیر پورٹ دنیا کا حیران کن ہوائی اڈہ ہے۔
ائیرپورٹ کی آدھی لینڈنگ اسٹرپ پانی کے اندر ہے، یہ حصہ سمندر میں پتھر اور مٹی ڈال کر تعمیر کیا گیا، باقی حصہ خشکی پر قائم ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ملک کی مرکزی سڑک ہے، یہ سڑک ائیر اسٹرپ کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، سڑک پر ہر وقت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، جہاز کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران یہ سڑک بند کر دی جاتی ہے، جہاز اترتا یا ٹیک آف کرتا ہے اور پھر سڑک دوبارہ ٹریفک کے لیے کھول دی جاتی ہے، جہاز کی لینڈنگ کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے کیونکہ ایک سیکنڈ کی غلطی سے جہاز سیدھا پانی میں جا سکتا ہے۔
جبرالٹر کے لوگ صلح جو اور مہذب ہیں، یہ رک کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہیں، کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کی شادی ہو تو پورے ملک کو معلوم ہوتا ہے، ملک کے دو بڑے سورس آف انکم ہیں، سیاحت اور آن لائن جواء۔ ملک کی نصف آبادی سے زیادہ سیاح روزانہ یہاں آتے ہیں، یہ سیاح ملک کی معیشت چلا رہے ہیں، حکومت نے آن لائن جوئے کی سہولت بھی دے رکھی ہے چنانچہ دنیا کی تمام بڑی "آن لائن گیمبلنگ ویب سائٹس، جبرالٹر میں قائم ہیں، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ فری ہے، بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں، بچے ان وظائف کے ذریعے برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں، حکومت ان طالب علموں کو رہائش اور ہوائی ٹکٹ تک دیتی ہے، عوام کے لیے علاج مفت ہے۔
ملک کے اندر ٹرانسپورٹ بھی فری ہے، آپ کسی بھی جگہ بس میں سوار ہو جائیں اور جہاں چاہیں اتر جائیں۔ میں نے بڑی جدوجہد کے بعد وہ جگہ تلاش کی جہاں طارق بن زیاد اترا تھا اور اس نے اپنی کشتیاں جلائی تھیں، یہ ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے، آج کل وہاں رہائشی ایریا ہے، میں گھروں کے صحنوں سے ہوتا ہوا بالآخر اس مقام تک پہنچ گیا جہاں طارق بن زیاد نے 5 اپریل 710ء کو قدم رکھا تھا، اسلام کے اس عظیم مجاہد نے اپنی کشتیاں بھی یہیں جلائیں تھیں، میں چند لمحے وہاں اداس کھڑا رہا، طارق بن زیاد نے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنائی تھی لیکن وہ مسجد ختم ہو چکی ہے تاہم سعودی عرب نے وہاں سفید رنگ کی ایک خوبصورت سی مسجد تعمیر کر دی ہے، یہ مسجد ساحل اور جبرالٹر کی سبز پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے اور یہ ماحول کو خوبصورت بھی بناتی ہے اور وہاں تقدس کے سگنل بھی پھیلاتی ہے، میں بڑی دیر اس ماحول کا حصہ بنا رہا۔
جبرالٹر کی اصل اٹریکشن اس کی دونوں پہاڑیاں ہیں، یہ چونے کے پتھر کی پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں پر دیکھنے کی چار چیزیں ہیں، پہلی چیز اس کے غار ہیں، پہاڑ کے اندر 52 کلو میٹر لمبے 140 غار ہیں، یہ غار جبرالٹر کی چھاؤنیاں ہیں، غار میں گولہ بارود بھی ہے اور فوجی جوانوں کی رہائش گاہیں بھی۔ غاروں کا فوجی استعمال 1779ء سے 1783ء کے درمیان شروع ہوا، اس دور میں یورپ کے بڑے ملکوں نے جبرالٹر پر قبضے کے لیے اس کا محاصرہ کر لیا، دشمنوں کی 33 ہزاز فوج نے جزیرے کو گھیر لیا، ملک کی آبادی سات ہزار تھی، یہ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے، پہاڑوں کے اندر پہلے سے غار موجود تھے۔
جبرالٹر کے لوگوں نے ان پہاڑوں کو وسیع کیا، ان کے دھانوں پر توپیں لگائیں اور وہاں سے دشمنوں پر گولہ بار ی شروع کر دی، یہ ایک حیران کن تکنیک تھی، دشمن نے چار سال محاصرہ کیے رکھا لیکن وہ کوشش کے باوجود جبرالٹر پر قبضہ نہ کر سکا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے یہ غار جبرالٹر کا پینٹا گان ہیں، پہاڑوں میں دیکھنے والی دوسری چیز اس کی سو سو ٹن کی دوبڑی توپیں ہیں، یہ توپیں دونوں پہاڑوں پر نصب ہیں، ایک توپ کا رخ مراکش کی طرف ہے اور دوسری اسپین کو فوکس کیے ہوئے ہے، یہ توپیں دس کلو میٹر تک مار کر سکتی ہیں اور یہ ملک کا سب سے بڑا دفاع ہیں۔
تیسری چیز بندر ہیں، پہاڑ پر افریقہ کے دم کٹے بندر ہیں، یہ بندر مراکش سے جبرالٹر کیسے آئے؟ لوگ اس کے دو جواب دیتے ہیں، لوگوں کا خیال ہے سمندر کے نیچے ایک طویل ٹنل موجود ہے، زمانہ قدیم میں بندر اور انسان اس ٹنل کے ذریعے مراکش سے جبرالٹر آئے تھے لیکن یہ جواز سائنسی لحاظ سے ثابت نہیں ہو پا رہا، دوسرے جواب کے مطابق یہ بندر پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوجیوں کی تفریح کے لیے یہاں لائے گئے، یہ بعد ازاں جنگل میں چھوڑ دیے گئے اور یہ اب قبیلہ بن کر زندگی گزار رہے ہیں، میں نے پہاڑ پر چڑھ کر یہ بندر دیکھے، بندر بھی مجھے دیر تک دیکھتے رہے، یہ شاید مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے، پہاڑوں کی چوتھی اہم چیز اس کا مسلمان قلعہ ہے۔
طارق بن زیاد نے اپنے زمانے میں سمندر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ کی اترائی پر چھوٹا سا قلعہ بنایا تھا، وہ قلعہ وقت کے ہاتھوں ختم ہوگیا، چودہویں صدی عیسوی کے مراکشی حکمرانوں نے بعد ازاں انھی بنیادوں پر نیا قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ آج تک قائم ہے اور یہ مورش قلعہ کہلاتا ہے، اسپین کے لوگ مسلمانوں کو مراکش کی نسبت سے موریا یا مورش کہتے تھے، پہاڑ کے شروع میں یونانی خدا ہرکولیس کا ایک ستون بھی ایستادہ ہے۔
ہمارے گائیڈ نے بتایا، اس نوعیت کا دوسرا ستون طنجہ میں ہے، یہ دونوں ستون دو مختلف تہذیبوں اور ان تہذیبوں کے درمیان موجود سمند ر کا اظہار ہیں، جبرالٹر میں پورے یورپ کے مقابلے میں پٹرول سستا ہے، حکومت نے حکمت عملی کے تحت پٹرول سستا کیا، پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے بحری جہاز جبرالٹر سے روزانہ لاکھوں ٹن پٹرول خریدتے ہیں، حکومت پٹرول سے کوئی منافع نہیں کماتی لیکن یہ جہازوں کی پارکنگ فیس اور محصول کی مد میں اربوں روپے سالانہ کما لیتے ہیں اور یہ رقم بعد ازاں عوام کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔
جبرالٹر اور غرناطہ کے اس سفر کے دوران میرے دوستوں کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہوا، غرناطہ میں ایک پاکستانی نوجوان کاروبار کرتے ہیں، یہ سہیل مقصود ہیں، گجرات کے رہنے والے ہیں، یہ یورپ کے مختلف ملکوں میں دھکے کھاتے ہوئے غرناطہ پہنچے، آج سے چار سال قبل ایک چھوٹی سی دکان شروع کی، اللہ نے کرم فرمایا، یہ دکان، دکانیں ہوئیں اور پھر یہ کیش اینڈ کیری میں تبدیل ہو گئیں، یہ مثبت ذہن کے ان تھک انسان ہیں، یہ اپنے دو بھائیوں ساجد اور ماجد کے ساتھ غرناطہ میں رہتے ہیں، یہ تینوں بھائی دن رات کام کرتے ہیں اور پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔
غرناطہ جیسے دور دراز شہر میں کسی پاکستانی سے ملاقات خوشی کی بات تھی، سہیل مقصود کے سادہ پن نے میرا دل موہ لیا، ملک سے باہر آباد پاکستانی نوجوان سہیل مقصود جیسے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، غرناطہ اور جبرالٹر کے اس سفر میں سہیل مقصود جیسے شخص کا ملنا نعمت سے کم نہیں تھا، سچ ہے دوست بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں، یہ آپ اور آپ ان سے مل کر ہی رہتے ہیں مگر سہیل صاحب کا ملنا اپنی جگہ لیکن جبرالٹر میں مسلمانوں کے زوال کی داستان اور اس کی اداسی دوسری جگہ۔ یہ اداسی اب پوری زندگی سانس کی طرح وجود میں دوڑتی بھاگتی رہے گی۔