نوجوان ہمہ تن گوش تھا، اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا پانی تھا اور اس کی بے چینی عروج پر تھی۔ وہ کافی دیر سے مجھ سے بحث کر رہا تھا کہ حماس کو یہ جنگ نہیں چھیڑنا چاہیے تھی۔ آج غزہ کی ہر گلی اور ہر محلے میں موت رقص کر رہی ہے۔ انسانیت پانی کو ترس رہی ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں، بیماریاں پھیل چکی ہیں، ہزاروں فلسطینی تباہ حال عمارتوں کے نیچے زندہ دفن ہیں اور غزہ اور رفح میں موت کا راج ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو پُر امن جد و جہد کرنا چاہیے تھی، انہیں سفارتی ذرائع سے اسرائیل پر دباؤ بڑھانا چاہیے تھا اور انہیں مسلم ممالک کو اپنی حمایت کی طرف متوجہ کرنا چاہیے تھا۔ وہ اپنے استدلال کے ساتھ میرے سامنے سراپا سوال بنا بیٹھا تھا، میں نے اس کے سوالات کو غور سے سنا اور عرض کیا: "آپ نے جو استدلال پیش کیا نظریاتی طور پر یہ بہت اپیل کرتا ہے لیکن عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حماس سے قبل فلسطینی سیاسی جدوجہد کرکے دیکھ چکے ہیں۔ بلکہ حماس سیاسی جدوجہد میں ناکامی کے بعد ہی وجود میں آئی۔
"اسرائیل پر سفارتی دباؤ" ایک خوبصورت ڈھکوسلا ہے، اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوئیں ہیں لیکن امریکہ ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر اور سفارتی دباؤ کیا ہو سکتا ہے۔ رہی اسلامی ممالک کی حمایت تو یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی منافقت ہے، کیا عرب کیا عجم اور کیا حکمران کیا عوام سب بے حس ہوئے بیٹھے ہیں۔ فلسطینیوں کے حق میں جتنی آوازیں یورپ اور امریکہ میں بلند ہوئی ہیں کسی اسلامی ملک میں اس طرح کی آواز یں بلند نہیں ہو سکیں۔ اس لیے آپ نے پُر امن جد و جہد کا جو استدلال پیش کیا ہے وہ نظریاتی طور پر تو اپیل کرتا ہے مگر عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ " نوجوان کا تجسس بڑھ رہا تھا، میں نے عرض کیا: "فلسطینیوں کی عسکری جد و جہد کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد صورت حال یہ تھی کہ یہودیوں نے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اپنی زمینوں پر غیر قانونی بستیوں کا قیام اور اپنے علاقوں سے اخراج کے بعد فلسطینیوں کے پاس عسکری جد و جہد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیلی حکمت عملی میں واضح طور پر توسیعی عزائم شامل ہیں اور ان کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل کا قیام ہے۔ اگر فلسطینیوں نے عسکری جد و جہد نہ کی ہوتی تو شاید اسرائیل اب تک یہ ہدف حاصل کر چکا ہوتا۔
اسرائیلی حکمت عملی اور سرکاری پالیسیاں واضح کرتی ہیں کہ وہ قبضے اور توسیع پسندی کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ اسرائیل نے کبھی اپنی جارحانہ پالیسیوں کو ترک نہیں کیا بلکہ روز بروز فلسطینی علاقوں پر قبضے کو مزید بڑھایا۔ فلسطینیوں کی طرف سے عسکری جدوجہد نہ ہونے کی صورت میں اسرائیل کا توسیعی منصوبہ روکنے والا کوئی وجود نہ ہوتا اور فلسطینیوں کے پاس اپنے حقوق کی بازیابی کا کوئی راستہ نہ بچتا۔ "
میں نے سانس لینے کے بعد دوبارہ عرض کیا: "انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ طاقتور اور قابض قوتیں مذاکرات یا پُرامن طریقوں سے اپنے قبضے کو ترک نہیں کرتیں۔ انڈونیشیا میں ڈچ قبضے کے خلاف جنگ ہو یا الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے خلاف لڑائی، آزادی حاصل کرنے کے لیے عسکری جدوجہد ناگزیر رہی ہے۔ خود برصغیر میں آزادی کی چنگاری اس وقت بھڑکی جب اٹھارہ سو ستاون میں ہندوستانیوں نے عسکری جدوجہد کی شروعات کیں۔
بین الاقوامی ادارے بشمول اقوامِ متحدہ فلسطینیوں کی حمایت میں قراردادیں تو پاس کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود امریکا اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہیں اور فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں عسکری جد و جہد فلسطینیوں کے لیے واحد راستہ رہ جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بقا اور حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہ تصور کرنا کہ فلسطینی عسکری جد و جہد نہ کرتے تو شاید انہیں آزادی مل جاتی ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔
اسرائیل کا مقصد واضح ہے کہ فلسطین پر مکمل قبضہ اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر فلسطینیوں کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو اسرائیل کے توسیعی عزائم زیادہ آسانی سے پورے ہو چکے ہوتے اور آج شاید ہی دنیا کو معلوم ہوتا کہ دنیا میں فلسطین نام کا کوئی ملک بھی وجود رکھتا تھا۔ اس کے برعکس آج فلسطینی جد و جہد کا اثر یہ ہے کہ عالمی برادری میں فلسطین کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور اسرائیلی مظالم کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ عسکری جد و جہد نے فلسطینی کاز کو بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ مسئلہ بنا دیا ہے۔
آج دنیا کا بچہ بچہ یہودیت اور اسرائیل کی حقیقت جان چکا ہے۔ آج دنیا کے ہر نوجوان کو یہ علم ہوگیا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ یہ عسکری جدوجہد کے وہ نتائج ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ عسکری جد و جہد فلسطینیوں کے لیے ایک طے شدہ اور ناگزیر راستہ بن چکی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ اس کاز کے حصول کے دیگر طریقے جیسے مذاکرات، سفارتی کوششیں اور عالمی سطح پر اتحاد بھی مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہیں۔ فلسطینی عوام کو ان تمام طریقوں پر کام کرنا ہوگا۔ "
میں نے بات کو سمیٹتے ہوئے عرض کیا: "فلسطینیوں کی عسکری جد و جہد پر تنقید کرنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر فلسطینی یہ جد و جہد نہ کرتے تو آج شاید اُن کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ عسکری جد و جہد فلسطینیوں کے حقوق اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسرائیل کے خلاف یہ مزاحمت نہ صرف فلسطینی عوام کو اپنی شناخت برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ فلسطینی اپنے حقوق کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ یہ ایک طویل اور مشکل راستہ ہے مگر فلسطینیوں کے لیے یہ ایک ناگزیر حقیقت بن چکا ہے جس کے بغیر ان کا وجود اور ان کا مستقبل محفوظ نہیں۔
فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے پیش نظر آپ جیسے نوجوانوں کا دکھ بجا مگر حقیقت یہی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے۔ دنیا میں طاقتور اور قابض قوتوں نے کبھی رضاکارانہ طور پر کسی ملک کو آزادی نہیں دی، پھر یہود جیسی مبغوض اور وعدہ خلاف قوم سے تو یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے ہم اگر فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے تو ہمیں کم از کم ان کی عسکری جد و جہد پر بھی سوالات نہیں اٹھانے چاہئیں"۔ نوجوان کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی اور وہ "پُر امن" جد و جہد کے نظریاتی ڈھکوسلے سے باہر آ چکا تھا۔