ملکھا سنگھ 1935ء میں مظفر گڑھ کے گائوں گووند پورہ میں پیدا ہوا، پاکستان بنا تو اس کی عمر بارہ سال تھی، یہ راٹھور سکھ ہے، فسادات میں اس کے خاندان کے زیادہ تر لوگ مارے گئے، یہ، اس کی بڑی بہن، بہنوئی اور چند دور کے رشتے دار بچ گئے، یہ دھکے کھاتا ہوا بھارت پہنچا، بھارت میں اس نے انتہائی مشکل زندگی گزاری، یہ کیمپوں میں رہا، اس نے سڑکوں پر مزدوری کی، یہ جیب تراشوں کے ساتھ مل گیا، یہ چور بھی بنا اور اس نے چھوٹی بڑی وارداتیں بھی کیں، قسمت نے یاوری کی اور یہ انڈین فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا، یہ دودھ کا شوقین تھا، فوج میں جا کر اسے معلوم ہوا فوج کے اسپورٹس سیکشن میں کھلاڑیوں کو دودھ اور انڈے ملتے ہیں، یہ اسپورٹس سیکشن میں چلا گیا، دودھ کے لالچ میں ایتھلیٹ بن گیا، یہ دوڑ لگاتا، دوڑ جیتتا اور اسے انعام میں ایک کلو دودھ مل جاتا، یہ گرائونڈ میں کھڑے کھڑے وہ دودھ پی جاتا، یہ دودھ پیتے پیتے اور دوڑتے دوڑتے بھارت کا سب سے بڑا ایتھلیٹ بن گیا، یہ بھارت سے نکلا اور 1958ء میں ٹوکیو کی ایشین گیمز میں بھی دو سو میٹر اور چار سو میٹر کی دوڑ میں سونے کا تمغہ جیت لیا۔
اس نے 1962ء میں جکارتا میں ہونے والی ایشین گیمز میں بھی چار سو میٹر اور چار سو بائی چار کی ریلے ریس میں بھی گولڈ میڈل حاصل کر لیے، ان اعزازات کے ساتھ ساتھ ملکھا سنگھ نے 1958ء کی ایشین گیمز میں دو سو میٹر کا فاصلہ 21 اعشاریہ چھ سیکنڈ میں طے کر کے ریکارڈ قائم کیا، یہ ملکھا سنگھ کے ایشین ریکارڈ تھے لیکن اس کا اصل اعزاز 1960ء میں پاکستان میں ہونے والی انڈو پاک ریس تھی، صدر ایوب خان اور جواہر لال نہرو نے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کے لیے 1960ء میں دونوں ممالک کے ایتھلیٹس کے درمیان مقابلے کا فیصلہ کیا، جواہر لال نہرو نے اس مقابلے کے لیے ملکھا سنگھ کو سلیکٹ کیا، ملکھا سنگھ اس وقت تک چندی گڑھ شفٹ ہو چکا تھا اور یہ اس پاکستان میں جانے کے لیے تیار نہیں تھا جہاں اس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا تھا، نہرو نے ملکھا سنگھ کو وزیراعظم ہائوس بلایا، اس کے اعزاز میں کھانا دیا اور دہلی کے عمائدین کے سامنے اس سے اس مقابلے میں شرکت کی درخواست کی، ملکھا سنگھ نے ہاں کر دی، یہ لاہور پہنچا، لاہور میں ریس ہوئی، صدر ایوب خان اس ریس میں خود موجود تھے۔
ملکھا سنگھ کا مقابلہ پاکستان کے سب سے بڑے ایتھلیٹ عبدالخالق کے ساتھ تھا، عبدالخالق ملکھا سنگھ سے کہیں بڑے ایتھلیٹ تھے، یہ کانٹے دار مقابلہ تھا، دونوں ملکوں میں ریڈیو پر اس ریس کی لائیو کمنٹری ہو رہی تھی، ہندوستان اور پاکستان کے کروڑوں لوگ ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھے تھے، ایوب خان اسٹیڈیم میں موجود تھے جب کہ نہرو اور ان کی کابینہ ریڈیو پر ریس کے اتار چڑھائو سن رہی تھی، یہ ریس ملکھا سنگھ جیت گیا، اس وقت کے تجزیہ کاروں نے ملکھا سنگھ کے غصے کو اس کی جیت کی وجہ قرار دیا، یہ جب بھاگ رہا تھا تو اسے اس وقت اپنے خاندان کے وہ تمام لوگ یاد آ رہے تھے جو 1947ء کے فسادات میں مارے گئے تھے اور یہ خون آلود یادیں اس کی رفتار میں اضافہ کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ وہ ریس جیت گیا، ریس جیتنے کے بعد ایوب خان نے ملکھا سنگھ کو "فلائنگ سکھ" کا خطاب دیا، یہ خطاب آج تک ملکھا سنگھ کے نام کے ساتھ جڑا ہے، ملکھا سنگھ نے ریس جیتنے کے بعد دو خواہشیں کیں، ایک خواہش ایوب خان نے پوری کی اور دوسری خواہش نہرو نے۔ ملکھا سنگھ نے ایوب خان سے اپنے پرانے گائوں جانے کی خواہش کی، ایوب خان نے اجازت دے دی اور یوں ملکھا سنگھ پندرہ سال بعد اس گائوں گیا جہاں سے یہ جان بچا کر بھاگا تھا، دوسری خواہش جواہر لال نہرو نے پوری کی، ملکھا سنگھ نے نہرو سے درخواست کی آپ میرے نام پر پورے ہندوستان کو ایک سرکاری چھٹی دے دیں، نہرو نے ملکھا سنگھ کی جیت کی خوشی میں پورے ہندوستان میں سرکاری چھٹی کا اعلان کر دیا اور یوں ملکھا سنگھ تاریخ کا حصہ بن گیا، ملکھا سنگھ زندہ ہے، یہ چندی گڑھ میں رہتا ہے اور اس وقت اس کی عمر 78 سال ہے۔
بالی ووڈ نے 2013ء میں ملکھا سنگھ کی کہانی پر "بھاگ ملکھا بھاگ" کے نام سے ایک شاندار فلم بنائی، یہ تین گھنٹے کی انتہائی دلچسپ اور خوبصورت فلم ہے، ملکھا سنگھ کا کردار جاوید اختر کے صاحبزادے فرحان اختر نے ادا کیا اور کمال کر دیا، یہ فلم دیکھنے والوں کی توجہ اور جذبات دونوں کو جکڑ لیتی ہے اور آپ کے لیے بعض مقامات پر اپنے آنسو ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ فلم ملکھا سنگھ نے بھی دیکھی، یہ پوری فلم کے دوران روتا رہا، آخر میں جب اس سے فلم کے بارے میں تاثرات مانگے گئے تو اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے کیونکہ یہ فلم حقیقت کے اس قدر قریب تھی کہ اس نے ملکھا سنگھ تک کو دہلا کر رکھ دیا، ملکھا سنگھ کے نام پر بننے والی یہ فلم جہاں ایک معیاری تفریح ہے وہاں یہ بھارت کے ایک عظیم کھلاڑی کو ٹریبیوٹ بھی ہے، یہ شاندار "موٹی ویشن" بھی ہے اور یہ ایک عام، کمزور اور معاشرے کے قدموں میں روندے ہوئے جلاوطن شخص کی "سکسیس اسٹوری" بھی۔
میں نے جب یہ فلم دیکھی تو میں بھی جذبات کی رو میں بہہ گیا، مجھے ملکھا سنگھ سے ہمدردی ہو گئی لیکن پھر مجھے اچانک عبدالخالق یاد آگیا، فلم میں بار بار پاکستانی ایتھلیٹ عبدالخالق کا نام لیا جاتا تھا، میں نے عبدالخالق پر ریسرچ شروع کر دی، پتہ چلا پاکستانی عبدالخالق ملکھا سنگھ سے کہیں بڑا ایتھلیٹ تھا، یہ 1933ء میں ضلع چکوال کے گاؤں جنڈ اعوان میں پیدا ہوا، یہ اپنے دور کا باکمال ایتھلیٹ تھا، عبدالخاق نے 1954ء میں منیلا میں سو میٹر کا فاصلہ دس اعشاریہ چھ سیکنڈ میں طے کر کے ریکارڈ قائم کیا، اس نے سو میٹر کی دوڑ میں سونے اور چار سو میٹر کی دوڑ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا، اسے 1954ء میں "ایشیا کا تیز ترین انسان" قرار دیا گیا، 1958ء میں اس نے ٹوکیو میں سو میٹر کی دوڑ میں اپنا ریکارڈ برقرار رکھا، یہ دو سو میٹر کی دوڑ میں دوسرے اور چار سو میٹر کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر رہا، اس نے 1956ء کے میلبورن اور 1960ء کے روم اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمایندگی کی، یہ اس وقت میلبورن اولمپکس کے سو میٹر کی ریس کے پہلے دو رائونڈز میں دوسرے نمبر اور دو سو میٹر کی ریس کے پہلے دو رائونڈز میں پہلے نمبر پر رہا جب دنیا میں ملکھا سنگھ کا نام تک نہیں تھا۔
ملکھا سنگھ نے 1958ء میں ٹوکیو کی ایشین گیمز میں دو سو میٹر کا فاصلہ 21 اعشاریہ چھ سکینڈ میں طے کیا تھا جب کہ عبدالخالق نے دو سال قبل یہ فاصلہ 21 اعشاریہ ایک سیکنڈ میں طے کیا تھا اور یہ ملکھا سنگھ سے اعشاریہ 5 سکینڈ آگے تھا، ملکھا سنگھ پوری زندگی کوئی اولمپکس ریکارڈ بنا سکا اور نہ ہی ورلڈ ریکارڈ جب کہ عبدالخالق کا نام اولمپکس میں بھی گونجتا رہا اور دنیا کے ایوانوں میں بھی۔ عبدالخالق کے صرف دو جرم تھے، یہ 1960ء میں لاہور کی ریس میں ملکھا سنگھ سے ہار گیا، اس ہار کی دو وجوہات تھیں، ایک پاک بھارت دوستی، صدر ایوب خان ملکھا سنگھ کو جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے تاکہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جا سکے، دوسرا ملکھا سنگھ کے پائوں میں نفرت، غصے اور تکلیف کی آگ جل رہی تھی اور یہ آگ اسے بھگا نہیں رہی تھی، اسے اڑا رہی تھی اور اس کی اس اڑان کو دیکھ کر صدر ایوب خان نے اسے "دی فلائنگ سکھ" کا خطاب دیا، عبدالخالق کا دوسرا جرم پاکستانی ہونا تھا، ہم ایک احسان فراموش قوم ہیں، ہم اپنے محسنوں کو فراموش بھی کر دیتے ہیں اور ان سے ان کے احسانوں کا بدلہ بھی لیتے ہیں۔
بھارت نے ملکھا سنگھ کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ اسے بھارت کے چوتھے بڑے سویلین ایوارڈ پدما شری سے بھی نوازا اور اب78ء سال کی عمر میں ملکھا سنگھ پر فلم بنا کر اپنے ایتھلیٹ کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جب کہ ہم نے عبدالخالق کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیا، عبدالخالق کون تھا، اس نے 1960ء کے بعد کیسی زندگی گزاری، یہ کہاں کہاں رہا، اس کا انجام کیا ہوا، یہ آج زندہ بھی ہے یا یہ انتقال کر چکا ہے، اس کا خاندان کہاں آباد ہے، اس کے تمغے آج باقی ہیں یا پھر یہ کباڑیئے کی دکان پر فروخت ہو گئے، ہمارے ملک میں کوئی شخص نہیں جانتا، میری ریسرچ بھی ایک لیول پر آ کر دم توڑ گئی، میں عبدالخالق کو اس سے آگے تلاش کر رہا ہوں مگر مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو رہا۔ میں "بھاگ ملکھا بھاگ" کے فلم ساز راکیش اوم پرکاش مہرا، اداکار فرخان اختر اور ملکھا سنگھ کا مشکور ہوں جس نے فلم میں بار بار عبدالخالق کا نام لیا اور اس فلم کی مہربانی سے مجھے اور میرے ہم وطنوں کو یاد آیا ہمارے ملک میں بھی ایک عبدالخالق ہوتا تھا اور یہ عبدالخالق ملکھا سنگھ سے بڑا ایتھلیٹ تھا، ہماری اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی۔
ہمیں اپنے لیجنڈز کے نام بھی بھارتی فلموں کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں، ہمیں عبدالخالق کا نام بھی ملکھا سنگھ یاد کراتا ہے لیکن ہم اس حقیقت کے باوجود خود کو زندہ قوم بھی کہتے ہیں، ہم نے عبدالخالق کا نام یاد رکھا اور نہ ہی اس پر کوئی فلم بنائی، کیوں؟ کیونکہ ہم احسان فراموش قوم ہیں اور احسان فراموش قومیں صرف ویلن کو یاد رکھا کرتی ہیں، ہیروز کو نہیں، کاش ملک کا کوئی امیر شخص، کوئی سرمایہ کار، کوئی صنعت کار، کوئی فلم ساز، کوئی اداکار اور کوئی میڈیا فرم عبدالخالق کو بھی یاد کر لے، کوئی اس ایتھلیٹ کو بھی پردہ اسکرین پر زندہ کر دے، یہ کردار بھی کھل کر پاکستانی معاشرے کے سامنے آ جائے اور ہماری قوم بھی سر اٹھا کر کہہ سکے ہماری صفوں میں صرف دہشت گرد نہیں ہیں، ہمارے پاس عبدالخالق جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے زمین پر اپنی کامیابی کے نقش چھوڑے ہیں، کاش کوئی شخص آگے آئے، یہ شاید ممکن نہ ہو کیونکہ ملکھا سنگھ کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے جب کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ہجوم میں عبدالخالق کا کوئی نہیں۔
نوٹ: اگر عبدالخالق صاحب زندہ ہیں یا ان کے خاندان کے لوگ موجود ہیں تو یہ مہربانی کر کے میرے ای میل اکائونٹ [email protected] یا میرے کولیگ شرجیل فاروق صاحب سے اس فون نمبر 0322-8218094 پر رابطہ کریں۔