Sunday, 12 January 2025
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Muslim Baradar Kushi Ke Chand Auraq

Muslim Baradar Kushi Ke Chand Auraq

1980ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی عراق ایران جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ میں شام اور لبنان کے علاوہ سارا بلاد عرب اور مصر، عراق کے ساتھ کھڑے تھے۔ مسلم اخوت کی کتابی، نصابی اور خطابی باتوں پر عرب و عجم کا تعصب حاوی تھا۔ عرب دنیا کے دیندار اور تنخواہ دار دونوں کہہ رہے تھے ایرانی انقلاب کو اس کی سرحدوں کے اندر پابند رکھنا ضروری ہے۔

عراق ایران جنگ کے حوالے سے تین باتیں بہت اہم ہیں، اولاً یہ کہ عراق کے جنگی اخراجات سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امامت نے مل کر برداشت کئے۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور فرانس کی اسلحہ ساز فیکٹریوں نے دونوں ملکوں کودھڑا دھڑ اسلحہ فروخت کیا۔

9 سالہ جنگ لگ بھگ 21 ارب ڈالر کھاگئی۔ عراق کو فراہم کئے جانے والے اسلحہ کی مد میں سعودی عرب، کویت اور دوسرے اتحادیوں نے 11 ارب ڈالر ادا کئے۔ 5 ارب ڈالر کا اسلحہ صدام حسین نے خود خریدا۔

ایرانیوں کے جنگی اخراجات 7 ارب ڈالر تھے۔

ثانیاً اس 9 سالہ جنگ میں عراق کو معاشی طور پر 19 اور ایران کو 23 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

ثالثاً جنگ ہر دو اور کے 3 لاکھ مسلمان کھاگئی۔

حساب لکھ لیجئے عراق ایران جنگ ایک اندازے کے مطابق 63ارب ڈالر اور تین لاکھ مسلمانوں کا سر لے گئی۔

پھر 1990ء میں بلاد عرب کے ہیرو صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑے۔ عالمی امن کے ٹھیکیدار اعظم امریکہ بہادر لشکریوں سمیت میدان میں اترے اور عراق کو کویت سے پسپا ہونا پڑا۔ عراق کے خلاف اس امریکی کارروائی کا خرچہ کویت نے بعدازاں قسطوں میں ادا کیا جو صرف 12 ارب ڈالر تھا۔ 9 ارب ڈالر سعودی عرب نے دیئے۔

اس کے بعد امریکیوں نے کویت میں تعمیر نو کے 17 ارب ڈالر کے ٹھیکوں میں سے 9 ارب ڈالر کے ٹھیکے خود لئے اور باقی کے اپنے یورپی اتحادیوں میں تقسیم کروائے۔

صدام حسین کے جنون کا ہوا اتنا دہشت ناک تھا کہ کویت اور سعودی عرب نے مستقل بنیادوں پر امریکہ کی خدمات حاصل کرلیں اس کے عوض دونوں ملک برسہا برس تک امریکہ کو 3 ارب ڈالر سالانہ نذرانہ پیش کرتے رہے۔

عراق کویت جنگ میں دونوں ملکوں کا مجموعی نقصان کسی بھی طرح 30 ارب ڈالر سے کم نہیں تھا۔ خلیج کی دوسری جنگ جو عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے پراپیگنڈے کی بنیاد پر شرع ہوئی تھی، میں عراق کا مجموعی نقصان 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا تھا۔

امریکی جو عراقی تیل کی فروخت سے پہلے ہی کل آمدنی کا 25 فیصد بطور جنگی مصارف وصول کررہے تھے، پھر ہر چیز پر خود قابض ہوگئے۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک اور بات ذہن نشین رکھئے عراق ایران جنگ کے دوران بلاد عرب کا ہیرو اور محافظ قرار پانے والے صدام حسین کو اس وقت بہت حیرانی ہوئی جب اسرائیلی طیاروں نے سعودی عرب کے صحرائی راستے کو استعمال کرتے ہوئے بغداد کے قریب واقع 5 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونیوالے ایٹمی ریکٹر مرکز پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیا۔

صدام کے دل میں اپنے عرب بھائیوں کے لئے گرہ پڑھ گئی۔ کہتے ہیں کویت کا واقعہ اس کا نتیجہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، پھر 9/11کے بعد دنیا میں القاعدہ کے گرم تعاقب میں مصروف اور اس آڑ میں افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا، سی آئی اے کے تنخواہ دار ایجنٹ ادرنی شہری مصعب زرقاوی کو القاعدہ عراق کے سربراہ کے طور پر میدان میں اتاراگیا

زرقاوی کی قیادت میں ا لقاعدہ نے عراق میں شیعہ سنی خانہ جنگی کی بنیاد رکھی۔ یہ فساد کئی برس جاری رہا۔ زرقاوی کے قتل کے بعد اردن میں مقیم اس کی اہلیہ نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا

"میرا شوہر سی آئی اے کے لئے کام کرتا تھا اس کی مہدی ملیشیا کے ہاتھوں گرفتاری کا خطرہ دیکھ کر امریکہ نے اسے قتل کروادیا تاکہ گٹھ جوڑ کے راز نہ کھلنے پائیں "

لیبیا میں قذافی کی آمریت کی جگہ جمہوریت لانے کے لئے امریکی آشیرباد سے نیٹو نے جو کارروائی کی اس میں القاعدہ اور نیٹو حلیف تھے۔ سقوط لیبیا کے وقت دنیا بھر کے اطلاعاتی اداروں نے وہ تصاویر نشر کیں جن میں برطانیہ، اٹلی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ القاعدہ و لیبیا چیپٹر کے سربراہ یحییٰ البدا پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ 35 ہزار انسانوں کی بلی لینے والی اس جمہوریت نواز جنگ کے دوران نیٹو کے حملوں اور کرائے کے سپاہیوں کی زمینی کارروائیوں میں لیبیا کی معیشت کو 7 ارب ڈالر کا جھٹکا لگا۔ جمہوریت کے آغاز پر لیبیا کی نئی حکومت نے اپنے بیرون ملک 47 ارب ڈالر کے اثاثوں میں سے 8 ارب ڈالر جمہوریت دلوانے والوں کی خدمت میں پیش کئے جبکہ اٹلی، فرانس اور برطانیہ نے 7 ارب ڈالر کے ٹھیکے برائے تعمیر نو حاصل کئے۔

امریکیوں نے لبیا کی کل تیل کی پیداوار کے 45 فیصد کو عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے حقوق لے لئے۔

یاد کیجے کہ مصر میں عرب بہار کے بعد اخوان کی کامیابی کو دنیا بھر کے اسلام پسندوں کے لئے مثبت پیغام سمجھا گیا۔ بدقسمتی سے اخوان کی قیادت اپنی اتحادی تمیمی سلفی عقیدے والی النور پارٹی کو کنٹرول میں نہ رکھ سکی۔ یوں سکندریہ، بلادیہ اور قاہرہ میں رونما ہونے والے چند انسانیت سوز واقعات نے اخوان کی اخلاقی حیثیت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اخوان مخالف سڑکوں پر نکلے۔ ہلکی پھلکی جھڑپیں، پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوئیں تو سعودی و امریکی آشیرباد سے مصری فوج نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

مصر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والی فوجی قیادت کی خدمت میں سعودی عرب، کویت، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے 48 گھنٹے کے اندر 14 ارب ڈالر کی خطیر رقم پیش کی۔

اسی عرصے میں امریکی سینٹ کی دفاعی کمیٹی نے شام کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کی منظوری دیدی۔ کہا جارہا تھا کہ امریکہ کو شام میں جمہوریت لانے اور اپنے آپریشن کے لئے لگ بھگ 7 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اس میں سے ا یک ارب ڈالر کویت، تین ارب ڈالر سعودی عرب اور اڑھائی ارب ڈالر بحرین اور متحدہ عرب امارات نے ادا کیئے تھے۔

اُن دنوں بشارالاسد کے خلاف سرگرم عمل جنگجوئوں، ان میں القاعدہ، النصر، حزب آزادی نامی مسلح تنظیموں کے علاوہ 31 جماعتی اپوزیشن اتحاد بھی شامل تھا، کو پونے دو ارب ڈالر کی امدادی رقم امریکہ کے توسط سے فراہم کی گئی۔ حکومت مخالف جنگجوئوں کو اسلحہ اسرائیل اور ترکی کی معرفت فراہم کیا گیا۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے النصر بریگیڈ والوں کو کیمیائی اسلحہ بھی فراہم کیا جس کے استعمال کا الزام امریکہ بشارالاسد حکومت پر لگاتا رہا تھا اور اس کے کمانڈوز نے حمص کے قریب شامی حکومت کے ایک دفاعی ادارے کے حملے کے لئے جشہ النصر کی رہنمائی کی۔

اُس وقت شام کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے دفاعی ادارے پر جنگجوئوں کے حملے کو اسرائیلی فضائیہ نے فضائی تحفظ فراہم کیا۔

یہ سچ ہے کہ جمہوریت اچھی چیز ہے لیکن ایک سوال بہت اہم ہے شخصی آمریتوں (یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کی آڑ میں قائم تھیں) والے ممالک میں تو جمہوریت کے لئے سب کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے رہے اور ہیں لیکن جن ملکوں میں بادشاہتیں قائم ہیں اور سانس لینا بھی دشوار، ان ممالک میں جمہوریت کیوں غیرضروری ہے؟

مندرجہ بالا معروضات کسی تبصرے کے بغیر کالم کا حصہ بنانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اگر 1980ء سے اب تک برادر کشی کے دھندوں میں مسلم ممالک کی طرف سے کی گئی سرمایہ کاری والی رقم مسلم دنیا کی سماجی و علمی پسماندگی کے خاتمہ کے لئے خرچ ہوتی تو نتیجہ کیا ہوتا۔

ظاہر روزگار کے نئے مواقع ملتے۔ جدید تعلیم اور تحقیق کے میدانوں میں مسلمانوں کی نئی نسل اپنا کردار ادا کرتی۔ کچھ رقم پسماندہ مسلم ممالک میں صحت کے شعبہ میں بہتری لانے پر بھی خرچ ہوسکتی تھی

مگر ہم اس کا کیا کریں کہ کتابوں، وعظ اور عام گفتگو میں جس مسلم اخوت و بھائی چارے کی باتیں ہوتی ہیں عملی میدان میں اس بھائی چارے پر خودکش حملے " ایمانی جذبے " سے ہوتے ہیں۔

مان لیجئے کہ مسلم اخوت محض جاگتی آنکھوں کا خواب ہے، اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔

حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں

"دولت اور اقتدار ہی انسان کی اصل آزمائش ہیں۔ یہ دونوں بڑے بڑوں کی اصل اوقات کویوں بے نقاب کرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے"۔

ہم ایسے عامی مسلمان دنگ ہی تو ہیں ہمارے حال پر ہماری تباہی کے منصوبے بنتے اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ ویسے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ شام کی بشار الاسد حکومت کا خاتمہ باقی ماندہ بلاد عرب کو اسرائیل کے مقابلہ میں ریت کی دیوار بنادے گا۔ اپنے لے پالک اسرائیل کے لئے امریکہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن یہ

"ثنا خوانِ تقدیس اسلام کہاں ہیں؟"