Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Banda Mazdoor Ki Auqat

Banda Mazdoor Ki Auqat

امریکا کی ریاست کیلیفورنیا میں آج سے پندرہ سال قبل ورکنگ کلاس نے ہڑتال کر دی، یہ لوگ مختلف شہروں میں ریلیاں نکال رہے تھے، یہ مطالبہ کر رہے تھے کیلی فورنیا میں کم سے کم تنخواہ آٹھ ڈالر فی گھنٹہ ہونی چاہیے، کیلی فورنیا میں اس وقت کم سے کم معاوضہ سات ڈالر فی گھنٹہ تھا، ورکنگ کلاس کا خیال تھا، اس معاوضے میں گھر چلانا ممکن نہیں چنانچہ معاوضے میں فی گھنٹہ ایک ڈالر اضافہ کیا جائے، اس وقت جب کیلی فورنیا کی ستر فیصد آبادی ایک ڈالر فی گھنٹہ اضافے کے لیے جنگ لڑ رہی تھی اس وقت اسی ریاست کا ایک شہری 57 کروڑ ڈالر سالانہ تنخواہ لے رہا تھا، یہ پونے پانچ کروڑ ڈالر ماہانہ بنتے ہیں اور ہم اگر انھیں روپوں میں تبدیل کریں تو یہ پونے پانچ ارب روپے ماہانہ بن جائیں گے، یہ شخص بھی امریکی تھا، اس کے پاس بھی وہی شناختی کارڈ، وہی پاسپورٹ اور وہی شہریت تھی جو سات ڈالر فی گھنٹہ حاصل کرنے والے لوگوں کے پاس تھی، یہ بھی وہی زبان بولتا تھا، وہی کھانا کھاتا تھا، یہ بھی انھی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھا تھا اور یہ بھی اسی فضا میں سانس لیتا تھا جس میں ایک ڈالر فی گھنٹہ اضافے کے لیے احتجاج کرنے والے امریکی مزدور لیتے تھے۔

یہ بھی ان لوگوں کی طرح دس بیس تیس سال قبل ایک عام امریکی شہری تھا اور یہ بھی ان کی طرح سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا مگر پھر یہ سسٹم کو سمجھ گیا، یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت جان گیا، یہ جان گیا دنیا آپ کی شخصیت، آپ کی کوالی فکیشن، آپ کی ضرورت اور آپ کی مظلومیت کا معاوضہ نہیں دیتی، یہ آپ کی کارکردگی، آپ کی "آئوٹ پٹ" اور آپ کی پرفارمنس کو معاوضہ دیتی ہے، آپ اگر کسی شخص، ادارے، کارپوریشن یا پھر فرم کو ماہانہ دس لاکھ روپے کما کر دے رہے ہیں تو یہ آنکھیں بند کر کے آپ کو ایک لاکھ روپے ماہانہ دے دے گی لیکن آپ اگر ایک لاکھ روپے کما رہے ہیں اور اس کام پر کمپنی کے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں تو یہ آپ کو دس ہزار روپے بھی نہیں دے گی، وہ جان گیا آپ اگر مزدور ہیں تو آپ کے شب و روز کبھی روشن نہیں ہوں گے، آپ کے کمرے کا روشن دان کبھی نہیں کھلے گا، آپ خواہ امریکا کی ساری سڑکیں بند کر دیں، آپ روز کام چھوڑ ہڑتال کریں یا آپ خواہ خود سوزی کر لیں دنیا آپ کی طرف نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھے گی چنانچہ اس نے مزدور سے مالک بننے کا فیصلہ کر لیا، اس نے نوکری لینے والوں کی قطار سے نکل کر نوکری دینے والوں کی لائین میں جانے کا عزم کر لیا، یہ نیچے کے بجائے اوپر والا ہاتھ بن گیا اور یوں یہ صرف بیس برسوں میں امریکا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ملازم ہو گیا، اس نے یہ سب کچھ کیسے کیا، یہ بھی ایک دلچسپ داستان تھی۔

یہ امیر ہونے کے فیصلے کے بعد سب سے پہلے بزنس اسکول گیا اور بزنس کلاسز لینا شروع کر دیں، یہ دن بھر میکڈونلڈ میں کام کرتا تھا اور شام کو بزنس کلاسز لیتا تھا، یہ دو سال اسی طرح پڑھتا رہا، میکڈونلڈ سے مفت ملنے والے دو برگر، ایک کوکا کولا اور ایک کافی اس کی خوراک تھی، یہ سائیکل پر بزنس اسکول جاتا تھا، ایک چھوٹے سے پرائیویٹ ہاسٹل کے گندے سے کمرے میں رہتا تھا، لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا تھا اور سال میں دو بار کپڑے خریدتا تھا، دو سال بعد اسے بزنس کی ڈگری ملی تو یہ امریکا کی درمیانے درجے کی ایک فرم میں ملازم ہو گیا، اس نے اس کے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر لیا، یہ ایک خطرناک معاہدہ تھا، اس کے دوستوں نے اسے اس معاہدے سے باز رکھنے کی کوشش کی، دوستوں کا کہنا تھا" تم انتہائی کم معاوضے میں پانچ سال کی غلامی میں جا رہے ہو" مگر اس کے خواب مختلف تھے، اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا مستقل مزاجی اس کائنات کا بنیادی قانون ہے، اس کائنات کی ہر چیز، ہر فعل مستقل مزاج ہے اور آپ اگر مستقل مزاجی کے ٹریک پر آ جاتے ہیں تو کائنات کی ساری طاقتیں آپ کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں، کائنات کی یہ فورسز آپ کو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔

یہ کائنات غیر مستقل مزاج لوگوں سے نفرت کرتی ہے، یہ ان سے انتقام بھی لیتی ہے چنانچہ آپ کبھی غیر مستقل مزاج لوگوں کو کامیاب نہیں دیکھیں گے، اس نے کسی جگہ پڑھا، مستقل مزاجی کا ہر زینہ پانچ سال کا ہوتا ہے، کائنات آپ کو اس وقت تک مستقل مزاج نہیں مانتی جب تک آپ اپنی پروفیشنل لائف کو پانچ پانچ سال کے حصوں میں تقسیم نہیں کرتے، آپ جو بھی کام کریں آپ اسے پانچ پانچ سال کے کیلنڈر میں تقسیم کر لیں، کائنات دس سے پندرہ برسوں میں آپ کو مستقل مزاج مان لے گی اور یوں آپ کا سفر آسان ہو جائے گا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا وہ اس کمپنی کو کسی قیمت پر پانچ سال سے پہلے نہیں چھوڑے گا، اس نے کام شروع کیا، وہ دن بھر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا اور شام اور رات کے وقت سیلز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا بلامعاوضہ سیکریٹری بن جاتا، یہ ڈیوٹی آورز کے بعد اس کا بیگ اٹھا لیتا، اس کی میٹنگز طے کرتا، اس کے مہمانوں کا استقبال کرتا، اس کی گاڑی ڈرائیو کرتا، اس کے اگلے دن کا شیڈول طے کرتا اور رات گئے اسے اس کے گھر چھوڑ کر آتا، یہ چار پانچ گھنٹے کی نیند کے بعد دوبارہ آفس پہنچ جاتا، یہ دو سال سیلز ہیڈ کا فری اسسٹنٹ بنا رہا، اس نے ان دو برسوں میں سیلز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کا دل موہ لیا چنانچہ اس نے اسے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے اپنے شعبے میں شفٹ کر لیا، وہ سیلز ڈیپارٹمنٹ میں سارا دن باس کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتا تھا اور رات کے وقت وہ سیلز کی نئی تکنیکس سیکھتا تھا۔

وہ اچھے سیلزمین کے پاس بیٹھ کر سیلز کمیونیکیشن سیکھتا تھا، وہ پرانے سیلزمین سے خریداروں کی نفسیات سمجھتا تھا اور وہ سیلز کی کلاسز لیتا تھا، وہ بہت جلد سیلزمین اور خریداروں کی نفسیات جان گیا چنانچہ اس نے سیلز میں بھی باس کی مدد شروع کر دی، وہ فارغ وقت میں بزنس ڈویلپ کرتا، باس کے حوالے کرتا اور اس کے بدلے میں اس سے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہ کرتا، اس کے اخلاص سے بھرے ہوئے اس رویے نے بہت جلد پوری کمپنی کو اپنا گرویدہ کر دیا، لوگوں نے اس کا نام اینجل رکھ دیا مگر وہ سر نیچے کر کے کام کرتا رہا یہاں تک کہ پانچ سال پورے ہو گئے؟ اس کے اگلے کانٹریکٹ کا وقت آ گیا، کمپنی نے اس کو چار گنا تنخواہ آفر کر دی مگر اس نے کمپنی کو ایک عجیب پیش کش کر دی، اس نے اپنے باس کو آفر کی، آپ مجھے تنخواہ کے بجائے سیلز میں حصہ دار بنا لیں، میں آپ سے کوئی تنخواہ نہیں لوں گا، میں آپ کی مصنوعات بیچوں گا اور آپ میری بیچی ہوئی مصنوعات کے پرافٹ سے مجھے پانچ فیصد دے دیا کریں۔

یہ ایک انتہائی بے وقوفانہ پیش کش تھی، آپ خود سوچئے، آپ کسی شخص کو بیس ہزار ڈالر ماہانہ کی پیش کش کر رہے ہوں مگر وہ آپ سے چند ہزار یا چند لاکھ کی سیل پر پانچ فیصد ڈیمانڈ کر رہا ہو تو آپ کو وہ شخص بے وقوف نہیں لگے گا؟ کمپنی نے بھی اس وقت اسے بے وقوف سمجھا، اس کی شرط قبول کر لی اور اس کے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر لیا مگر دو مہینے بعد کمپنی پریشان ہو گئی کیونکہ اس نے سیل میں حیران کن اضافہ کر دیا، کمپنی کی مصنوعات دھڑا دھڑ بکنے لگیں یہاں تک کہ کمپنی نے ایک سال بعد پرانا معاہدہ واپس لیا اور اس کے ساتھ دس فیصد شیئر کا نیا سمجھوتہ کر لیا، دو سال بعد وہ کمپنی کی ساری سیل میں دس فیصد کا شیئر ہولڈر بن گیا، پانچ سال پورے ہوئے تو وہ کمپنی کا نائب صدر بن گیا، اگلے دو تین برسوں میں وہ کمپنی کا چیئرمین بھی تھا، وہ سیل میں بھی بیس فیصد کا حصہ دار تھا اور وہ امریکا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ملازم بھی تھا۔

یہ شخص مزدوروں کے ہر احتجاج پر ہنستا تھا اور اپنے جونیئرز سے کہتا تھا، یہ مزدور اس لیے مزدور ہیں کہ انھوں نے خود کو مزدور مان لیا ہے، آپ ان کے معاوضے میں دگنا اضافہ بھی کر دیں تو بھی ان کے مسائل میں کمی نہیں آئے گی، اس کی بات سو فیصد درست تھی، دنیا میں معاوضہ ایشو نہیں ہوتا، اسٹیٹس ایشو ہوتا ہے، آپ اگر مزدور ہیں تو پھر دنیا کا کوئی معاشرہ، کوئی سسٹم اور کوئی حکومت آپ کو خوشحال نہیں بنا سکتی، آپ کی زندگی ہر دور میں جبر مسلسل رہے گی، آپ کے لیے وقت ناقابل معافی جرم کی سزا بنا رہے گا اور بھٹو آئیں یا بھٹو جائیں آپ کی کوٹھڑی کی چھت ٹپکتی رہے گی اور ملک میں خواہ کمیونزم آ جائے، سوشلزم آ جائے، سرمایہ داری بلندی کو چھونے لگے یا پھر اسلامی نظام آ جائے آپ کے آٹے کا کنستر اسی طرح خالی رہے گا، آپ مزدور کے مزدور رہیں گے، آپ اگر اپنے حالات تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا اسٹیٹس بدلنا ہو گا، آپ کو مزدور سے راج اور راج سے ٹھیکیدار بننا ہو گا، آپ کو شفٹ انچارج، منیجر، جنرل منیجر اور چیئرمین بننا ہو گا اور آپ اگر یہ بن گئے تو آپ فرعون ہی کے دور میں کیوں نہ ہوں زندگی اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ آپ پر مہربان ہو جائے گی جب کہ دوسری صورت میں آپ بندہ مزدور رہیں گے اور ہر یکم مئی پر اپنی اوقات پر مرہم لگاتے اور پٹیاں باندھتے رہیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.