نام تو طیبہ تھا لیکن عرب اسے یثرب کہتے تھے، عربی میں یثرب تکلیف اور بیماری کے مقام کو کہا جاتا ہے، یہ بات تھی بھی درست، پورے عرب میں سب سے زیادہ بارشیں اسی علاقے میں ہوتی تھیں لہٰذا وادی میں زہریلے مادے پیدا ہو گئے تھے، جو بھی طیبہ میں قدم رکھتا بیمار ہو جاتا لیکن پھر وہاں میرے حضور ﷺ تشریف لائے، محققین کہتے ہیں یہ اگست 622ء کا پہلا ہفتہ تھا لیکن کچھ کا خیال ہے یہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔
آپ ﷺ قبا میں چودہ دن قیام کے بعد یثرب میں داخل ہوئے تو بنو نجار کی بچیوں نے دف بچا کر استقبال کیا، اس واقعے کے ایک ہزار تین سو اسی برس ایک ماہ اور 23 دن بعد ہم ٹھیک اس جگہ کھڑے تھے، سامنے ایک قدیم قلعے کے آثار تھے، شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی نے قلعے کی طرف اشارہ کر کے بتایا "وہ بچیاں وہاں کھڑی ہو کر دف بجا رہی تھیں" قریب ہی ایک مسجد تھی، بتایا گیا "حضور ﷺ نے یہاں ہجرت کی پہلی نماز جمعہ ادا فرمائی تھی" قلعے اور مسجد کے درمیان ایک احاطہ تھا اور احاطہ میں ایک چبوترے کے آثار تھے، وہاں رسول اللہﷺ نے ایک صحابیؓ کی درخواست پر نماز ادا کی تھی، پلکوں پر آنسو آبشار کی طرح گرنے لگے۔
حضور ﷺ یہاں سے آگے بڑھے تو یثرب مدینہ بن گیا اور طیبہ منورہ اور پھر یہ شہر دنیا میں سکون، ایمان، شفاء اور قبولیت کا مرکز ہو گیا، یہ شہر کیا ہے؟ آپ اس کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلگتے کوئلوں پر چلتے چلتے ایسی وادی میں آ گئے جہاں گلاب کی نرم پتیاں بچھی ہیں اور ہوا عنبر اور مشک کے بطن سے جنم لے رہی ہے، دنیا بھر کے درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں ماسوائے مدینہ کے اشجار کہ یہ بے ادبی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی کا ایک شعر پڑھا، واہ کیا نازک احساس اور ہزاروں لاکھوں پھولوں کی گندھی فکر تھی، شاعر نے کہا " اگر تمہیں مدینے میں سکون نہیں ملتا تو پھر کہاں ملے گا، اگر تمہاری دعائیں مدینے میں قبول نہیں ہوتیں تو پھر کہاں ہونگی!"
انصار کو بڑی شدت سے حضور ﷺ کا انتظار تھا، وہ روز صبح گھروں سے نکلتے اور شہر سے باہر آ کر آپ ﷺ کا انتظار کرنے لگتے، سورج ڈوبتا تو ساتھ ہی آس بھی ڈوب جاتی لیکن صبح سورج کے ساتھ شوق دید پھر آنکھ کھول لیتا، اس دن بے انتہا گرمی تھی، لوگ شام سے پہلے ہی مایوس ہو گئے لیکن جونہی حضور ﷺ کی اونٹنی نے قبا میں قدم رکھا، ایک یہودی نے آپ ﷺ کو دیکھا اور " اے لوگو! تمہارا نجات دہندہ آ گیا" کا نعرہ لگا کر گلیوں میں دوڑنے لگا، امیدیں ایک بار پھر طلوع ہو گئیں۔ چودہ دن بعد آپ ﷺ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو سیکڑوں جاں نثار دائیں بائیں چل رہے تھے۔ یہ انصار تھے وہ انصار جنہوں نے آپ ﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں۔
آپ ﷺ کے ساتھیوں کو اپنے گھروں، کھیتوں، باغوں اور دکانوں میں حصہ دیا اور بدلے میں حضور ﷺ کو پایا۔ تاریخ کو حنین کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب میرے حضور ﷺنے نو مسلم مکیوں کومال غنیمت سے زیادہ حصہ دیا، چند انصار نے یہ تقسیم ناپسند کی، آپ ﷺ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا "کیا تم کو یہ پسند نہیں لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کراپنے گھر آئو" انصار بے اختیار ہو کر چیخے "ہمیں صرف رسول اللہ ﷺ درکار ہیں" اور پھر وہاں گریہ کا سیلاب آ گیا، داڑھیوں سے آنسو ٹپکنے لگے، قریش اونٹ اور بکریاں لے گئے اور انصار کو حضور ﷺ مل گئے۔ یہ اعزاز اب دنیا کی کوئی طاقت اہل مدینہ سے نہیں چھین سکتی۔
انصار مہمان نواز تھے، اللہ کے نبی ﷺ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے۔ انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضور ﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ رمضان میں پورا مدینہ اشیاء خورونوش لے کر مسجد نبوی ﷺ حاضر ہو جاتا ہے، دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی ﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور ﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے۔
وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں۔ مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں، میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا "چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے" میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا " یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔ "
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے۔
باب جبرائیل، آپ ﷺ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے، افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھ پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا، حضرت بلالؓ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ فرماتے " عائشہؓ باہر دیکھو باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں" آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں" یا رسول الل ہﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔ " آپ ﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے، میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضور ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔ میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا، آج بھی رمضان ہے۔
ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضور ﷺ حضرت عائشہؓ سے پوچھیں" ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں" اور ام المومنین عرض کریں گی " یا رسول اللہ ﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں، یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہ ﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے" اور پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو۔