پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے، یہ چند برس قبل پاکستان آیا اور مجھے اس کی میزبانی کا موقع ملا، یہ گرم جوش، ہمدرد اور متجسس انسان ہے، میں اسے مری بھی لے کر گیا اور ٹیکسلا بھی اور یہ لاہور میں بھی رہا۔
پاکستان اسے مجموعی طور پر بہت پسند آیا، یہ آخر میں اسلام آباد میں اکیلا نکل جاتا تھا، اسٹریٹ فوڈ انجوائے کرتا تھا اور بھائو تائو کرکے چیزیں خریدتا تھا اور خوشی سے تالیاں بجاتا تھا، یہ جب رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں پوچھا، اس نے بڑا دل چسپ جواب دیا، اس کا کہنا تھا پاکستانی بہت اچھے انسان ہیں، مہمان نواز ہیں، خدمت گزار ہیں اور خوش مزاج ہیں، آپ لوگوں کو ہنسنے اور خوش ہونے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
پاکستانی کھڑے کھڑے وجہ کے بغیر قہقہہ لگا سکتے ہیں، تھوڑا سا کھانا بھی دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھاتے ہیں، ملک ہرا بھرا اور کھلا ڈلا ہے اور لوگ بھی لبرل اور ماڈرن ہیں لیکن مجھے یہاں دو چیزیں اچھی نہیں لگیں، وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا، میں نے اس سے وہ دو بری چیزیں پوچھیں تو اس کا جواب تھا، پاکستان میں بھکاری بہت زیادہ ہیں، آپ کسی جگہ چلے جائیں، آپ کو بھکاری گھیر لیں گے اور دوسرا لوگوں کے چہروں پر غربت دکھائی دیتی ہے اور مجھے ان دونوں کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
لوگ یہاں اتنے غریب نہیں ہیں جتنے یہ دکھائی دیتے ہیں اور بھکاری باقاعدہ پیشہ ور ہوتے ہیں اور انھیں پوری دنیا میں ریاست کنٹرول کرتی ہے، پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا مطلب ہے آپ کی ریاست کم زور ہے یا پھر یہ اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
میں نے اس سے اتفاق کیا، اس کی آبزرویشن سو فیصد درست تھی، آپ کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو ہر چہرے پر غربت دکھائی دے گی، ہمارے ملک میں کروڑ اور ارب پتیوں کے چہرے بھی خوش حالی سے محروم ہیں، کیوں؟ میں آج تک وجہ نہیں سمجھ سکا، دوسرا پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں بھکاری ہیں، ہنزہ کے علاوہ کوئی علاقہ، کوئی شہر بھکاریوں سے پاک نہیں، اسلام آباد کی ہر سڑک پر آپ کو یہ بیماری ملے گی، آپ کی گاڑی رکی نہیں اور اس پر یلغار ہوئی نہیں اور ہر بھکاری آپ کا شیشہ تھپتھپا کر اپنا حق مانگے گا اور آپ کو اگر کسی ایک پر رحم آ گیا تو پھر پورا غول آپ پر چڑھائی کر دے گا اور آپ کے لیے جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔
آپ کسی ریستوران یا کافی شاپ میں چلے جائیں، کسی شاپنگ سینٹر، مسجد یا پارک میں آ جائیں آپ کو سیکڑوں بھکاری ملیں گے، یہ لوگ تین شفٹوں میں 24گھنٹے کام کرتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے دارالحکومت میں صرف بھکاری جم کر خلوص نیت کے ساتھ کام کرتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا، ان لوگوں نے بھیک کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں کہ آئن اسٹائن بھی حیران ہو جائے گا مثلاً آپ اگر کسی کیمسٹ کی دکان پر دوا لینے گئے ہیں تو کوئی بچہ اچانک آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہے گا "انکل مجھے بھوک لگی ہے پلیز مجھے کھانا لے دیں" آپ بچے کو دیکھیں گے پھر ہاتھ میں پکڑی دوا دیکھیں گے اور پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں یاد آ جائیں گے اور آپ کا دل پسیج جائے گا۔
آپ اس سے پوچھیں گے "بیٹا آپ نے کیا کھانا ہے؟" وہ سامنے موجود برگر شاپ یا تنور کی طرف اشارہ کر دے گا، آپ برگر شاپ پر جا کر بچے کی مرضی کا برگر تیار کرائیں گے، آپ کے سامنے برگر بنے گا، لفافے میں بند ہوگا، آپ رقم دیں گے اور بچے کو برگر پکڑا کر خوشی خوشی گھر چلے جائیں گے لیکن آپ کے جانے کے چند لمحے بعد وہ برگر دکان پر واپس پہنچ جائے گا اور وہ بچہ دوبارہ کسی اور شکاری کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہو جائے گا، آپ کسی دن ڈیٹا اکٹھا کر لیں، آپ کو تنور اور برگر شاپ کے سامنے ایسے بچے اور بوڑھے ضرور ملیں گے۔
مسجدوں کے باہر اور اندر بھی روزانہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی جیبیں کٹ چکی ہوتی ہیں یا کوئی ان کا سامان چوری کرکے لے گیا اور وہ اب مسلمان بھائیوں کی مدد چاہ رہے ہیں، اسلام آباد میں بھکاری بچے کرائے پربھی ملتے ہیں، جمعہ، محرم، رمضان اور عید کے موقع پر پورے پاکستان سے بھکاری اسلام آباد، لاہور اور کراچی آتے ہیں اور اربوں روپے سمیٹ کر اپنے شہروں کو لوٹ جاتے ہیں، اس عید پر کراچی میں چار لاکھ نئے بھکاری آئے اور انھوں نے کراچی کی مت مار کر رکھ دی، یہ لوگ اب جہازوں میں بھی بھیک مانگ لیتے ہیں اور ائیرپورٹس کے اندر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
آپ کو اگر کبھی سعودی عرب، عراق اور ایران جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو وہاں ہر دوسرا بھکاری پاکستانی ملے گا، یہ حرم شریف، کربلا، امام رضاؒ کے مقبرے اور مسجد نبویﷺ میں زائرین کا دامن پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، زائرین کا دل اس وقت نرم ہوتا ہے لہٰذا یہ اپنا سب کچھ ان کے حوالے کر دیتے ہیں، یہ لوگ باقاعدہ ریکٹ ہیں اور یہ چھ، چھ ماہ کے لیے بھیک کے مشن پر حجاز مقدس جاتے ہیں اور کروڑ پتی ہو کر واپس آتے ہیں، یہ لوگ روز سعودی عرب اور ایران میں پاکستان کا جنازہ نکالتے ہیں اور ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
بھیک اب ڈیجیٹل مارکیٹ میں بھی داخل ہوگئی ہے، آپ کو روز واٹس ایپ پر امداد کے درجنوں میسج ملتے ہوں گے، آپ کسی دن تحقیق کریں، یہ لوگ نوے فیصد فراڈ نکلیں گے، یہ ڈیجیٹل بھکاری صبح اٹھ کر ایک میسج بناتے ہیں اور تین چار سو لوگوں کو بھجوا دیتے ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی مقدر کا مارا جال میں پھنس جاتا ہے اور یوں کسی قسم کی سرمایہ کاری کے بغیر ان لوگوں کی دیہاڑی بن جاتی ہے۔
بھارت میں میرا ایک سکھ دوست رہتا ہے، چند ماہ قبل اس کا فون آیا، اس کا کہنا تھا میں پچھلے سال یاترا کے لیے ننکانہ صاحب گیا تھا، مجھے وہاں ایک شاہ صاحب ملے، وہ بھلے انسان ہیں، انھیں اب 50ہزار روپے کی ضرورت ہے، میں انڈیا سے انھیں رقم نہیں بھجوا سکتا، کیا آپ اس معاملے میں میری مدد کر سکتے ہیں، میں نے اس سے شاہ صاحب کا ایڈریس اور فون نمبر لیا اور اپنے ایک پولیس آفیسر دوست کو اس ایڈریس پر بھجوا دیا، پتا چلا اول شاہ صاحب خود ساختہ سید ہیں، انھیں ملک سے سید بننے میں صرف دو سال کا عرصہ لگا۔
دوسرا "مدد مانگنا" ان کا پیشہ ہے لہٰذا ننکانہ صاحب میں لوگ انھیں"ایف بی آر" کہتے ہیں یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو، مجھے اسی طرح چند ماہ قبل ملتان کی ایک معزز اور خوش حال فیملی کے بارے میں معلوم ہوا یہ لوگ چھ ماہ کراچی، حیدرآباد اور اسلام آباد میں مانگتے ہیں اور اگلے چھ ماہ اس رقم سے عیش کرتے ہیں، ملتان میں یہ لوگ باقاعدہ گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کے مالک ہیں اور کوئی انھیں دیکھ کر ان کے پیشے کا اندازہ نہیں کر سکتا، یہ لوگ بھکاریوں کی معزز کلاس ہے اور یہ بھی ملک کے ہر شہر میں پائی جاتی ہے جب کہ عملی بھکاریوں کے باقاعدہ ٹھیکے دار ہوتے ہیں، یہ لوگ پورے ملک سے بھکاری اکٹھے کرکے بڑے شہروں میں لاتے ہیں، انھیں مختلف اسٹاپس اور مقامات پر بٹھاتے ہیں اور رات کے وقت ان کے ساتھ "پرافٹ شیئرنگ" کرتے ہیں۔
بھکاریوں کے باقاعدہ اسٹیشن اور اجارہ داریاں ہوتی ہیں، کوئی دوسرا بھکاری ان کے اسٹیشن اور اجارہ داری پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، یہ لوگ اپنے ٹھکانے باقاعدہ لیز بھی کرتے ہیں اور کرائے پر بھی دیتے ہیں، ان کی شفٹیں بھی ہوتی ہیں اور یہ چھٹیوں پر بھی جاتے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی کٹتی ہیں، بھکاریوں کے ٹھیکے دار فیس وصول کرکے ان کی حفاظت کرتے ہیں، انھیں پولیس سے بھی بچاتے ہیں اور انھیں دوسرے بھکاریوں کی بدمعاشی سے بھی محفوظ رکھتے ہیں چناں چہ یہ ایک مکمل اور منظم کاروبار ہے۔
ہم ملک کو بے روزگاری، جہالت، بیماری اور غربت سے نہیں نکال سکتے، ہمارے پاس عمران خان کا بھی کوئی علاج موجود نہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ہم بھکاریوں سے بھی جان نہیں چھڑا سکتے، کیا ہم اس بیماری کا علاج بھی نہیں کر سکتے؟ میں پچھلے ماہ ایران گیا تھا، آپ یقین کریں مجھے پورے ایران میں کوئی بھکاری نہیں ملا جب کہ ایران پر45سال سے اقتصادی پابندیاں ہیں، سوال یہ ہے ایران نے بھکاری کیسے ختم کیے یا وہ جاپان جس میں 1945سے 1960تک لوگوں کو دو دن میں ایک کھانا ملتا تھا یاوہ سری لنکا جو 2022میں ڈیفالٹ کر گیا تھا یا وہ ارجنٹائن جو انفلیشن میں اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اس نے بھکاریوں سے کیسے جان چھڑا لی اور اگر یہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
اور اگر پورے پاکستان میں بھکاریوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں تو کیا ہم 25 کلو میٹر کے اسلام آباد کو بھی اس ذلت سے صاف نہیں کر سکتے، ہم وفاقی دارالحکومت کو بھی کلیئر نہیں کر سکتے اور اگر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر آخر ہم کر کیا سکتے ہیں؟ محسن نقوی اس وقت وزیر داخلہ ہیں، یہ سمجھ دار اور متحرک انسان ہیں، میری ان سے درخواست ہے یہ کوئی بڑی توپ نہ چلائیں، یہ بس اسلام آباد کو بھکاریوں اور منشیات سے پاک کر دیں، یہ شہر انھیں ہمیشہ یاد رکھے گا اور اس کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیے بس ایک وِل اور ایک جذبہ کافی ہے۔
یہ آئی بی کو ریسرچ کی ذمے داری دیں اور اس کے بعد پولیس، اسپیشل برانچ اور سی ڈی اے کو ٹاسک دے دیں اور اسلام آباد اس عفریت سے پاک ہو جائے گا لیکن شاید ملک کے اصل مسائل ہماری حکومتوں کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہیں، ہم صرف دن گزارتے ہیں اور رات کو یاجوج ماجوج کی طرح کان لپیٹ کر سو جاتے ہیں اور بس۔