Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Choom Choom Kar

Choom Choom Kar

سمون بائلز (Simone Biles) امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس کی رہنے والی ہے، یہ 27 سال کی نیم سیاہ جمناسٹک پلیئر ہے، اس کا قد صرف چارفٹ اور 8 انچ ہے لیکن اس نے اس چھوٹے قد اور سیاہ رنگت کے باوجود پیرس اولمپکس میں تین گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل حاصل کیا، یہ اب تک اولمپکس میں 11 میڈلز حاصل کر چکی ہے جن میں 7 گولڈ، دو سلور اور دو برونز ہیں، یہ امریکی تاریخ کی پہلی خاتون کھلاڑی ہے جس نے اولمپکس کے آل راؤنڈز میں دو گولڈ میڈلز اور والٹ ٹائیز حاصل کیے اور یہ اعزاز 1964کے بعد دنیا میں کسی کھلاڑی کو پہلی بار نصیب ہوا، دوسری مثال ٹوری ہسکی (Torri Huske) کی ہے، یہ 100 میٹر بٹر فلائی تیراکی میں ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ہے، آرلنگٹن ورجینیا کی رہنے والی ہے۔

سٹین فورڈ یونیورسٹی کی طالبہ ہے، اس نے بھی پیرس اولمپکس میں تین گولڈ اور تین سلور میڈل حاصل کیے اور تیسری مثال گیبریل تھامس (Gabrielle Thomas) کی ہے، یہ بھی سیاہ فام امریکی ہے، جمیکا سے نقل مکانی کرکے والدین کے ساتھ امریکا آئی، اٹلانٹا جارجیا میں رہتی ہے، ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور یہ دو سو میٹر کی ریس میں دنیا کی دوسری تیزی ترین ایتھلیٹ ہے، اس نے بھی پیرس اولمپکس میں ٹریک اینڈ فیلڈ ایتھلیٹکس میں تین گولڈ میڈل حاصل کیے لیکن آپ ان تینوں کی بدقسمتی دیکھیے، اولمپکس میں پوری دنیا کو حیران کرنے کے باوجود امریکی صدر نے ان کے لیے کسی تقریب کا اہتمام کیا اور نہ انھیں کروڑوں ڈالر کے تحفے دیے اور نہ سول ایوارڈز، یہ لوگ چند دن خبر بنے اور اس کے بعد یہ اب عام معمول کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ صرف تین لوگ نہیں ہیں، یہ 126 ہیں اور یہ تمام سرکاری توجہ سے محروم ہیں، کیسے؟

پیرس اولمپکس میں سب سے زیادہ میڈلز امریکا نے حاصل کیے، اس کے کل 126 میڈلز ہیں جن میں سے 40 گولڈ ہیں، چین دوسرے نمبر پر آیا، اس کے کل میڈلز 91 ہیں جن میں 40 گولڈ ہیں، جاپان کل 45 میڈلز کے ساتھ تیسرے نمبر پر آیا، ان میں سے 20 گولڈ ہیں اورآسٹریلیا چوتھے نمبر پر ہے جس کے کل میڈلز 53 ہیں جن میں 18 گولڈ ہیں، یہ میڈلز کس کس کھلاڑی نے کس کس گیم میں حاصل کیے دنیا نہیں جانتی جب کہ ان میں ہر کھلاڑی کی کہانی حیران کن اور سبق آموز ہے، دنیا میں ہر سال گیمز میں کھلاڑیوں کو میڈلز ملتے ہیں، کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ، اسپورٹس ایک غیر فطری عمل ہوتا ہے۔

ہم انسانوں کی جسمانی حدود ہوتی ہیں، اسپورٹس مین ان حدوں کو توڑ دیتے ہیں لہٰذا انھیں ایوارڈز دیے جاتے ہیں مثلاً عام نارمل انسان ڈیڑھ سو گرام کی کرکٹ بال کو35 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ تک پھینک سکتا ہے لیکن شعیب اختر نے 161.3 کلومیٹرفی گھنٹہ کی اسپیڈ سے بال پھینک کر دنیا کو حیران کر دیا، ہم پاؤں سے ساڑھے چار سو گرام کے فٹ بال کو زیادہ سے زیادہ 35 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے پھینک سکتے ہیں لیکن ایک کھلاڑی نے اسے129 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ دے دی اور عام انسان پانی میں آدھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرسکتا ہے لیکن مائیکل فلپس نے 8 اعشاریہ 8 کلومیٹرفی گھنٹہ کی اسپیڈ سے تیر کر دنیا کو حیران کر دیا۔

یہ تمام لوگ چیمپیئن ہیں کیوں کہ انھوں نے انسانی حدیں توڑ دیں اور اس نوعیت کے کارنامے دنیا میں روزانہ ہوتے ہیں، روز کسی نہ کسی فیلڈ میں کوئی نہ کوئی چیمپیئن پیدا ہوتا ہے اور روز اسے ایوارڈز اور میڈل دیے جاتے ہیں اور دوسری وجہ پیسہ اور پاپولیرٹی ہے، اسپورٹس میں بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور کھلاڑیوں کے بغیر یہ سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی لہٰذا دنیا بھر کے کلبز نئے کھلاڑی ڈویلپ کرتے ہیں، یہ کھلاڑی اسپورٹس انڈسٹری کو ملتے ہیں اور انڈسٹری ان کے ذریعے پیسہ کماتی ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں اسپورٹس بھی بے شمار دوسرے بزنسز کی طرح ایک بزنس ہے۔

ہم اگر اس بیک گراؤنڈ میں ارشد ندیم کو رکھ کر دیکھیں تو کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً ارشد ندیم نے بے شک انتہائی نامساعد حالات، غربت اور ٹریننگ کی سہولتوں کے بغیر گولڈ میڈل لے کر کمال کر دیا، یہ اس شخص کا کریڈٹ ہے اور دنیا کا کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ اس کے بعد ہو رہا ہے کیا یہ نارمل ہے؟ ہم نے سیلی بریشنز کے ذریعے اس شخص کی مت مار کر رکھ دی، لوگ چیک اٹھا کر آ رہے ہیں اور ارشد ندیم چیک لے کر ان کے ساتھ تصویریں بنا رہا ہے اور یہ اب اس کا عادی ہو چکا ہے۔

یہ اب اپنے ہر ملاقاتی سے چیک، نقد انعام یا پلاٹ کی توقع لگا کربیٹھا رہتا ہے، یہ ہر فون کو انعام سمجھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف امریکا اور چین میں ایسے 40 اور جاپان اور آسٹریلیا میں 20 اور 18 کھلاڑی ہیں اور یہ تمام لوگ نارمل زندگی گزار رہے ہیں، یہ گولڈ میڈل کے بعد اگلے ہی دن جم گئے، اپنی پریکٹس کی، بچوں کو اسکول سے لیا، گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کی جھڑکیاں کھائیں اور ٹیکس کے فارم بھرے لہٰذا سوال یہ ہے ہم نے ارشد ندیم کو نارمل کیوں نہیں رہنے دیا اور کیا یہ اب ایک نارمل زندگی گزار سکے گا؟ دوسرا سوال ارشد ندیم بے شک ایک با کمال انسان ہے، اس نے چالیس سال بعد پاکستان کو گولڈ میڈل سے نوازا، ہم نے آخری بار 1984میں ہاکی میں اولمپکس میں گولڈمیڈل لیا تھالیکن یہ سارا ایک بندے کا کارنامہ ہے جب کہ ملک میں سو کے قریب اسپورٹس آرگنائزیشنز کام کررہی ہیں، قوم ان پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے، ان کے پاس ایکڑوں پر پھیلے کمپلیکس بھی ہیں۔

آپ ان کے بجٹ اور مراعات دیکھیں اور ان کے ملازمین اور کنسل ٹنٹس کی تعداد دیکھیں اور اس کے بعد ان سے پوچھیں آپ لوگوں نے ان چالیس برسوں میں کیا کیا ہے؟ ہم نے پیرس اولمپکس میں صرف ایک میڈل لیا جب کہ ہمارے 40 کھلاڑی اور آفیشلز پیرس گئے، کیا ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ان کے ٹریول، ہوٹلز اور خوراک اور ٹی اے ڈی اے پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟ کیا ان سے یہ بھی نہیں پوچھنا چاہیے ملک کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز پر پچھلے چالیس برسوں میں کتنے ارب روپے خرچ ہوئے؟ ان اخراجات کے بعد یہ ایک بھی میڈل کیوں نہیں حاصل کر سکے اور اگر ہم نے میڈل نہیں لینا تھا تو پھر ان آرگنائزیشن کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ پیسے، توانائی اور وقت کا زیاں نہیں اور تیسرا سوال، کیا یہ حقیقت نہیں پاکستان کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز، بورڈز اور وزارتیں ارشد ندیم کے پیچھے پناہ لے رہی ہیں۔

یہ ارشد ندیم زندہ باد کے نعرے لگا کریا اس کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرکے قوم کی توجہ اپنی ناقص کارکردگی سے ہٹا رہی ہیں اور کیا حکومت بھی ارشد ندیم کو بار بار بلا کر اپنی نالائقی پر پردہ نہیں ڈال رہی؟ یہ عوام کی عوامی مسائل سے توجہ نہیں ہٹا رہی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا وزیراعظم ارشد ندیم کی کام یابی کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن بناتے اور اسپورٹس کے تمام اعلیٰ عہدیداروں سے پوچھتے تم نے وقت پر ارشد ندیم کی سپورٹ کیوں نہیں کی تھی؟ یہ شخص جیولین کی ٹریننگ اور باقاعدہ سینٹر کے باوجود گولڈ میڈل تک کیسے پہنچ گیا اور تم اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود کانسی کا ایک تمغہ بھی کیوں حاصل نہیں کر سکے؟ تمہارے کھلاڑی ٹریننگز اور کوچنگ کے باوجود کمال کیوں نہیں کر سکے؟ میرا خیال ہے وزیراعظم کو ان سے حساب لینا چاہیے تھا۔

آپ یقین کریں ہم خواجہ سرا کے بچے کی طرح ارشد ندیم کو چوم چوم کر مار رہے ہیں، یہ بے چارہ کام یابی کے اتنے صدمے برداشت نہیں کر سکے گا، آپ اسے اگلے سال کسی میچ میں بھجوا کر دیکھ لیجیے گا، یہ آپ کوبری طرح شرمندہ کرائے گا، کیوں؟ کیوں کہ ہم نے اس کی وہ بھوک، وہ ڈرائیو ہی مار دی ہے جس سے اس نے جنم لیا تھا، ہمیں چاہیے تھا ہم اسے چھوٹا سا گھر، گاڑی اور تاحیات تنخواہ دے دیتے، اس کے نام پر ایک فنڈ بناتے، گورنمنٹ اور بزنس مین اس فنڈ میں رقم جمع کرا دیتے، اسے زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا جاتا، یہ وہاں جیولین کی اکیڈمی بنا لیتا اور اپنے جیسے بچے تلاش کرکے ان کو ٹریننگ دیتا جب کہ ہم نے اسے بھکاری بنا دیا ہے۔

ٹریننگ کے لیے اس کے پاس پہلے بھی وسائل نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں، یہ اب بھی کھیتوں میں نیزہ بازی کی پریکٹس کرے گا، میری حکومت سے درخواست ہے آپ ملک کی تمام سرکاری اسپورٹس آرگنائزیشنز ختم کر دیں، ملک کو کسی اسپورٹس بورڈ، وزیر یا وزارت کی ضرورت نہیں ہے، یہ سرمائے، توانائی اور وقت کا زیاں ہے، آپ اس کے بجائے یہ رقم ریکارڈ ہولڈرز، میڈل ہولڈرز اور چیمپیئنز کو دے دیں، یہ اپنی اپنی اکیڈمیز اور کلب بنائیں اور نئے کھلاڑیوں کو ٹریننگز دیں، کھلاڑی جب ایک خاص حد کو چھو لیں تو حکومت انھیں مقابلوں میں بھجوا دے اور اگر یہ کام یاب ہو جائیں تو حکومت کی طرف سے ان کے لیے انعامات اور اعزازات فکس ہوں، یہ انھیں خود بخود مل جائیں، حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل ہی نہ ہو، آپ اس میں سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثال لے سکتے ہیں، یہ دونوں ملک اولمپکس میں گولڈ میڈل لینے والے کھلاڑیوں کو ایک ملین ڈالر دیتے ہیں اور بس، یہ کھلاڑیوں کو ارشد ندیم کی طرح چوم چوم کر نہیں مارتے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.