میاں نوازشریف اور ان کے طرز حکمرانی پر تمام اعتراضات درست ہیں، خاندانی سیاست کے الزامات میں بھی صداقت ہے، وزارت عظمیٰ صرف پنجاب، دو وفاقی وزراء اور میاں نواز شریف کی ذات تک محدود ہے، یہ بھی ٹھیک ہے، میاں صاحبان کسی کی سنتے نہیں، یہ کام نکلنے کے بعد احسان بھی بھول جاتے ہیں اور یہ آج کل فوج کے ساتھ "کولیشن پارٹنر" بھی ہیں، یہ فوج کے معمولی سے اعتراض پر مشاہد اللہ جیسے پرانے ساتھی اور کارکن کو بھی "ڈمپ، کر دیتے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی درست ہے، ریاست ایم کیو ایم کے ساتھ لڑ رہی ہے لیکن حکومت اسے "ریسکیو" کر رہی ہے، یہ اسے تمام ممکناً سپورٹ فراہم کر رہی ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے۔
میاں نواز شریف رینجرز کے ایشو کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کو زندہ ہونے کا موقع دے رہے ہیں، رینجرز کے اختیارات ایک ایسی نورا کشتی ہے جس کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے مردہ جسم میں روح پھونکی جا رہی ہے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ پانچ دسمبر سے پہلے اور پانچ دسمبر کے بعد کی پاکستان پیپلز پارٹی کا موازنہ کر لیں، آپ کو دونوں میں واضح فرق نظر آئے گا، رینجرز کے اختیارات پر سندھ اسمبلی کی قرارداد، سندھ حکومت کے "نوٹیفکیشن" اور چوہدری نثار کی تین پریس کانفرنسوں نے پیپلز پارٹی کی بکھری ہوئی صفوں میں اتحاد بھی پیدا کر دیا اور اس کے ناراض کارکنوں میں بجلی بھی بھر دی، وفاق اور صوبے کا یہ اختلاف آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کو توانائی دے گا۔
یہ توانائی بلاول بھٹو کی لانچنگ میں بھی کام آئے گی اور یہ پاکستان تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے راستے سے بھی ہٹا دے گی اور یہ بھی درست ہے، میاں نواز شریف پر اگلا حملہ فروری مارچ میں ہو گاا ور یہ حملہ اگست 2014ء کے حملے سے زیادہ سخت ہو گا اور اس میں ان کے بچنے کے چانس کم ہوں گے اور یہ بھی درست ہے، میاں صاحبان نے طیب اردگان کو اپنا استاد بنا لیا ہے، یہ ترکی ماڈل کے تحت پہلے خود کو مضبوط بنائیں گے اور اس کے بعد جنرل پرویز مشرف جیسے جرنیلوں کو آرٹیکل 6 کے ذریعے سزائیں دیں گے لیکن ان تمام اعتراضات اور اعترافات کے باوجود ہمیں بہرحال یہ ماننا ہو گا ملک بدل رہا ہے، پاکستان میں بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت میاں نواز شریف سے ان تبدیلیوں کا کریڈٹ نہیں چھین سکے گی۔
ہم اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو26 دسمبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اچانک لاہور آنا اورڈیڑھ گھنٹے میاں نواز شریف کے فارم ہاؤس میں رہنا بھی ایک ناقابل فراموش تبدیلی ہے، پاکستان کی تاریخ میں بھارت کے دو وزیراعظم دھماکا خیز انٹری کے ساتھ لاہور آئے، پہلی بار اٹل بہاری واجپائی فروری 1999ء میں بس پر بیٹھ کر لاہور پہنچے، مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور دونوں ملکوں کے تنازعے حل کرنے کا اعلان کیا، واجپائی کی آمد کا یہ کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے، دوسری بار 26 دسمبر کو اچانک نریندر مودی لاہور پہنچ گئے، اس اچانک دورے نے بھی پوری دنیا کو حیران کر دیا، نریندر مودی نے 30 نومبر کو پیرس میں میاں نواز شریف سے اچانک ملاقات کی، اس ملاقات نے تعلقات کے نئے دروازے کھول دیے۔
6 دسمبر کو بنکاک میں بھارت اور پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات ہوئی، 8 دسمبر کو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد آئیں، 26 دسمبر کو نریندر مودی آ گئے اور جنوری میں بھارتی سیکریٹری خارجہ آئیں گے، اگلے ماہ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ بھی شروع ہو جائے گی، تجارتی معاملات بھی طے پا جائیں گے اور جنوری فروری میں کشمیر کے تنازعے پر بھی ایک بڑا بریک تھرو ہو گا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور اگر بہار کے موسم میں کارگل جیسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تو دو برسوں میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعے بڑی حد تک طے پا جائیں گے مگر دو سال سے پہلے دو ماہ آتے ہیں اور یہ دو ماہ دونوں ملکوں کی تاریخ میں بہت اہم ہیں، کیوں؟ کیونکہ کارگل اس بار پاکستان کی طرف سے نہیں ہو گا، بھارت کی طرف سے ہو گا اور میاں نواز شریف اس پر پوزیشن لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، کیوں؟
کیونکہ نریندر مودی کو لاہور پہنچانے میں چار بڑے بزنس مینوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہ بزنس مین نریندر مودی کے الیکشن فنانسر بھی ہیں اور دوست بھی، مودی کے یہ بزنس مین دوست اور میاں نواز شریف کے چند بزنس مین دوست "بیک ڈور ڈپلومیسی" کے ذریعے ڈپلومیسی کے فرنٹ ڈور کھول رہے ہیں، اگر خدانخواستہ مستقبل میں کارگل جیسا کوئی ایڈونچر ہو جاتا ہے تو یہ دوست میاں صاحب کو کوئی پوزیشن نہیں لینے دیں گے اور یوں یہ ایک بار پھر پھنس جائیں گے لیکن یہ مستقبل کی باتیں ہیں، ہو سکتا ہے یہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت رہے گی، میاں نواز شریف نریندر مودی کو اچانک لاہور کھینچ لائے اور تعلقات کی رکی پھنسی گاڑی چل پڑی اور کوئی شخص یہ کریڈٹ میاں نواز شریف سے نہیں چھین سکے گا، یہ دونوں بار انھیں لاہور لے آئے جو پاکستانیوں سے ہاتھ تک ملانا نہیں چاہتے تھے، نواز شریف اب اگر بھارت سے کشمیر پر کوئی "سیٹلمنٹ" کرا لیتے ہیں تو یہ واقعی کمال ہو گا۔
ملک کی سفارتی تاریخ کا دوسرا بڑا واقعہ اتوار 27 دسمبر کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا افغانستان کا دورہ تھا، اس ملاقات میں فیصلہ ہوا، پاکستان طالبان سے افغانستان کے مذاکرات کرائے گا، دونوں ملکوں کے درمیان ہاٹ لائین بھی قائم ہو گی اور دونوں مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ بھی کریں گے، یہ فیصلے اگر نتیجہ خیز ثابت ہو جاتے ہیں تو افغانستان میں امن ہو جائے گا اور افغانستان کا امن پاکستان پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا، آپ تصور کیجیے، پاکستان اگر بھارت اور افغانستان دونوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لیتا ہے تو ملک کی اقتصادی، کاروباری اور سیاسی حالت دس برسوں میں کہاں سے کہاں آ جائے گی؟ اور اس کا کریڈٹ کس کو جائے گا؟
یہ کریڈٹ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ توانائی اور دہشت گردی ملک کے دو بڑے مسائل ہیں، ہم بجلی اور گیس دونوں کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں، ملک میں گرمیوں میں پنکھے نہیں چلتے اورسردیوں میں چولہے نہیں جلتے مگر اب توانائی میں بھی بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے، اگر قطر سے ایل این جی آ جاتی ہے اور تاپی گیس پائپ لائین کے ذریعے ترکمانستان کی گیس پاکستان پہنچ جاتی ہے تو آپ خود فیصلہ کیجیے، ملک میں گیس کی کتنی فراوانی ہو جائے گی؟ اسی طرح اگر بجلی کے تمام منصوبے بھی 2017ء تک مکمل ہو جاتے ہیں اور ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی کس کو جائے گا؟ یقینا میاں نواز شریف کو جائے گا، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی میں نمایاں کمی ہوئی، ملک اب کھل رہا ہے، لوگ اب آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
فوج اگر 2016ء میں ملک کو دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد کرا لیتی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی میاں نواز شریف کو چلا جائے گا، اسی طرح کراچی بھی اب بڑی حد تک کنٹرول میں ہے، کراچی کی حالت ٹھیک کرنے میں جنرل راحیل شریف اور چوہدری نثار علی خان دونوں نے قابل تعریف کام کیا، یہ اگر بروقت فیصلے نہ کرتے تو کراچی ہاتھ سے نکل جاتا لیکن اس کا کریڈٹ بھی بالآخر نواز شریف کو جائے گا، اسی طرح چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری بھی عہد ساز فیصلہ ہے، یہ راہداری اگر مکمل ہو گئی تو یہ ملک راہداری ٹیکس ہی سے چل جائے گا، کراچی سے لاہور تک موٹروے بھی پورے ملک کو آپس میں جوڑ دے گی، یہ منصوبہ بھی عوام پر اچھے اثرات مرتب کرے گا اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بڑی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک تقریباً ختم ہو گئی، ہزارہ کمیونٹی پر حملے بھی بند ہو گئے، باغیوں نے بھی ہتھیار پھینکنا شروع کر دیے اور طویل عرصے بعد بلوچستان میں یوم آزادی اورقائداعظم کی سالگرہ کی تقریبات بھی منعقد ہوئیں، پشاور سے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں، عمران خان وہاں حکومتی نظام پر توجہ دے رہے ہیں، یہ اگر صوبے میں پولیس، محکمہ مال، صحت اور تعلیم کا نظام ٹھیک کر لیتے ہیں، یہ اگر شہروں کو صاف پانی فراہم کر دیتے ہیں اور یہ اگر لوگوں کو جان اور مال کی گارنٹی دے دیتے ہیں تو خیبرپختونخواہ کے عوام جھولی اٹھا کر عمران خان کو دعائیں دیں گے لیکن کریڈٹ اس کا بھی بہرحال میاں نواز شریف کو جائے گا، کیوں؟ کیونکہ یہ اگر 2013ء میں ڈاکٹر مالک اور ثناء اللہ زہری میں معاہدہ نہ کراتے اور یہ عمران خان کو کے پی کے میں حکومت بنانے اور چلانے کا موقع نہ دیتے تو ان دونوں صوبوں میں یہ مثبت تبدیلیاں نہ آتیں چنانچہ اس کا کریڈٹ بھی نواز شریف کو جائے گا۔
پاکستان اگر اسی رفتار سے چلتا رہتا ہے تو پوری دنیا 2018ء میں نواز شریف کے لیے تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائے گی لیکن میاں صاحب کو اس سے پہلے چند دوسرے بڑے قدم بھی اٹھانا ہوں گے، مثلاً ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی کوئی بڑی "اقتصادی راہداری" بنانا ہوگی، مثلاً تعلیم اور صحت یہ دونوں اب مڈل کلاس کے ہاتھوں سے بھی نکل چکی ہیں، آپ پورے ملک میں کوئی ایسا سرکاری اسکول دکھا دیجیے جس میں یونین کونسل کا کوئی چیئرمین اپنے بچوں کو داخل کرانے کا رسک لے لے، سرکاری اسپتالوں میں علاج تو دور کی بات آپ ان کے اندربھی داخل نہیں ہو سکتے، ملک میں ماحولیاتی آلودگی انتہا کو چھو رہی ہے، آپ لاہور شہر میں دل کھول کر سانس نہیں لے سکتے، پولیس آج بھی ظالم ہے اور انصاف اندھا، آپ جس سرکاری محکمے کے قابو میں آ جائیں وہ آپ کی چیخیں نکلوا دیتا ہے۔
ٹریفک کا نظام بدترین ہے، ہم حادثات میں دنیا میں پہلے تین نمبروں پر آتے ہیں، پورے ملک میں کوئی ایک شہر اور کسی ایک شہر کا کوئی ایک ایسا محلہ نہیں جس کے عوام ٹونٹی کا پانی پی سکیں، پاکستان کا کوئی شہر کرائم فری بھی نہیں، سرے راہ لٹ جانا اب لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور ملک میں ٹینشن اور ڈپریشن کی ادویات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے، یہ مسئلے کون حل کرے گا؟ آپ کو یقینا ان پر بھی توجہ دینی چاہیے، آپ کو یہ کریڈٹ بھی لینا چاہیے، کیوں؟ کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو، آپ سڑکوں، پلوں، پاور پلانٹس، میٹروز، سفارت کاری اور گیس پائپ لائین کا کریڈٹ لیتے لیتے عوام کے اس اصل کریڈٹ سے محروم ہو جائیں جو سیاستدان کو لیڈر اور قائد کو قائداعظم بناتا ہے، جو لیڈروں کو مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا، یہ منصوبے کمال ہیں لیکن اصل منصوبہ انسان ہیں اور آپ کریڈٹ جمع کرتے کرتے اس ملک کے انسانوں کو بھول گئے ہیں اور یہ وہ غلطی ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرتا چنانچہ لوگوں کی طرف بھی دیکھئے میاں صاحب! یہ بھی ایک منصوبہ ہیں، ایسا منصوبہ جس کا کریڈٹ صدیوں تک قائم رہتا ہے۔