آپ یقین کریں میں آج کل جب بھی دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو مجھے دوپاکستان نظر آتے ہیں، ایک پاکستان عمران خان کا پاکستان ہے، اس میں کنفیوژن، بحران، سیاسی افراتفری، دیوالیہ پن اور فساد کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا جب کہ دوسرا پاکستان ہمدردی، محبت اور خدمت سے لبریز پاکستان ہے اور یہ دن اور رات ترقی کر رہا ہے، ہم پہلے عمران خان کے پاکستان کا تجزیہ کرتے ہیں۔
عمران خان فاسٹ باؤلر بن کر ملک کی تمام وکٹیں گرانا چاہتے ہیں، اگست کے شروع میں جب بارشیں اور سیلاب ملک کی طرف بڑھ رہے تھے توعین اس وقت پی ٹی آئی کی قیادت اگلے دو ماہ کی سیاسی حکمت عملی طے کر رہی تھی، عمران خان کو کسی نے اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا تھا ریاست کی پہلی فہرست کے نیوٹرلز ہمارے خلاف ہیں جب کہ دوسری اور تیسری فہرست میں شامل عہدیدار ہمارے ساتھ ہیں۔
خان صاحب کو وہ تمام لوگ اور ان کے عہدے تک بتائے گئے تھے جن کے خاندان پارٹی کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں لہٰذا فیصلہ ہوا ہم شروع میں پہلی اور دوسری فہرست کے درمیان فاصلہ بڑھائیں گے، پھر جلسوں کے ذریعے میدان گرم کریں گے، پھر اپنی صوبائی حکومتوں کے ذریعے وفاق پر عدم اعتماد کریں گے اور پھر صدر عارف علوی وزیراعظم سے اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ کر دیں گے۔
آپ یہ حکمت عملی پڑھ کر یقیناً سوچ رہے ہوں گے عمران خان اس سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے تھے؟ بات سیدھی ہے، عمران خان کی اطلاعات تھیں ستمبر کے آخر تک نئے آرمی چیف کے لیے سمری وفاقی حکومت کو بھجوا دی جائے گی، حکومت سمری آنے کے بعد معاملے کو اکتوبر کے آخر تک کھینچ کر لے جائے گی، نئے آرمی چیف کا فیصلہ اکتوبر کے آخری دنوں یا نومبر کے شروع میں ہو گا گویا فوج ستمبر سے نومبر تک کمانڈ کی تبدیلی میں مصروف ہو جائے گی۔
حکومت اکیلی رہ جائے گی لہٰذا یہ حکومت پر حملے کا بہترین وقت ہو گا، دوسرا حکومت اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کی کوشش کرتی ہے تو بھی کنفیوژن شروع ہو جائے گی اور اس کنفیوژن کا نقصان بھی حکومت کو ہو گا، اس کی سپورٹ عملاً ختم ہو جائے گی اور اس وقت اگر صدر وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ مانگ لیتے ہیں تو اتحادیوں کو کون اکٹھا کرے گا، حکومت کے لیے اعتماد کے ووٹ کا بندوبست کون کرے گا چناں چہ حکومت گر جائے گی، یہ منصوبہ بظاہر ٹھیک لگ رہا تھا مگر اس میں تین خدشات تھے۔
پہلا، ملک سیلاب کے دہانے پر کھڑا تھا اور سیلاب کے دوران حکومت اور فوج ملک کو حالات کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتی تھی؟ دوسرا فوج ریاست کی ریڈ لائین ہے اور کوئی ادارہ یا شخصیت کسی کو یہ ریڈ لائین کراس کرنے کا موقع کیوں دے گی اور تیسرا خدشہ اگر فوج اور حکومت کی طرف سے ردعمل آگیا توپارٹی کا پلان بی کیا ہوگا؟ عمران خان کیوں کہ اگرچہ، مگرچہ اور چوں کہ چناں چہ سے بالاتر ہیں لہٰذا یہ ان تینوں خدشات کو مسترد کر کے آگے چل پڑے اور آج حالت یہ ہے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
سوات کے 36 دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں، کالام میں 25ہوٹل ختم ہو گئے ہیں اور جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان پانی میں غوطے کھا رہا ہے، بلوچستان کی تاریخ میں کبھی اتنا سیلاب نہیں آیا، سندھ اور جنوبی پنجاب نے بھی کبھی ایسی تباہی نہیں دیکھی، پانی جنوبی پنجاب اور سندھ کے چار سو دیہات بہا لے گیا، وہاں اب گارے اور نعشوں کے سوا کچھ نہیں بچا، فوج اور حکومت دونوں سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں۔
لوگوں کو پانی سے نکالنا، انھیں خوراک، کپڑے اور خیمے پہنچانا اور ان کا علاج کرنا اور پھر انھیں ان کے گھروں میں آباد کرنا یہ آسان کام نہیں ہوگا اور یہ کام اگر ہو بھی جائیں تو بھی انفراسٹرکچر کون بحال کرے گا؟ اڑھائی سوپل، پانچ ہزار کلومیٹر سڑکیں، ریلوے لائینز، 700اسپتال اور19ہزاراسکول کون بنائے گا اور اس کے لیے 10 بلین ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ ریاست اس وقت اس غم میں مبتلا ہے جب کہ عمران خان ریاست کی پشت پر مسلسل باؤنسر مارتے چلے جا رہے ہیں، یہ ریاست اور حکومت دونوں کو کھائی کی طرف دھکیلتے جا رہے ہیں، یہ پہلا پاکستان ہے، آپ اب دوسرا پاکستان بھی دیکھیے۔
ہمارا دوسرا پاکستان بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ (بی ڈبلیو ٹی) جیسے اداروں پر مشتمل ہے، یہ ادارے نہایت خاموشی سے سیلاب زدہ علاقوں میں کمال کرتے چلے جا رہے ہیں، آپ نے کبھی بی ڈبلیو ٹی کا نام نہیں سنا ہو گا، کیوں؟ کیوں کہ اس ادارے کے لوگ خدمت کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہیں ہونے دیتے، یہ پبلسٹی، شہرت اور پروپیگنڈے سے دور خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔
بی ڈبلیو ٹی کے1500 ورکرز اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہے ہیں، یہ لوگ 16شعبوں میں کام کر رہے ہیں، متاثرین کو خوراک کے ساتھ ساتھ رہائش، ادویات، تعلیم اور صاف پانی بھی دے رہے ہیں، یہ سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب کے تمام متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں، ٹرسٹ امدادی سامان کے 150 کنٹینر متاثرہ علاقوں تک پہنچا چکا ہے، یہ لوگ ائیرفورس اور نیوی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
لاہور اور کراچی سے روزانہ ان گنت ٹرکوں کے قافلے چلتے ہیں، جہاں تک سڑک جاتی ہے یہ وہاں سامان پہنچاتے ہیں اور اس سے آگے نیوی اور ائیرفورس ان کی مدد کرتی ہے اور یہ ایک، ایک متاثرہ شخص تک اس کی ضرورت کا سامان پہنچاتے ہیں، پاکستان کے لاتعداد امیر تاجر اور صنعت کار ٹرسٹ سے وابستہ ہیں، بی ڈبلیو ٹی کا ہدف ہے یہ پانچ ارب روپے جمع کر لیں گے اور اس رقم سے متاثرین کو گھر تک بنا کردیں گے۔ یہ ادارہ کراچی کی ایک معتبر مذہبی شخصیت شیخ عبدالستار حفظ اللہ نے بنایا تھا۔
شیخ صاحب مولانا سیلم اللہ خان کے وفاق المدارس العربیہ سے فارغ التحصیل ہیں، ڈیفنس کراچی فیز 4 کی جامع مسجد بیت السلام میں فکری اور تربیتی نشستیں کرتے ہیں، مولانا نے 2008 میں دی انٹلیکٹ اسکولز کے نام سے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان اداروں کی تعداد چار سو ہو گئی اور ان میں 40 ہزار طالب علم تعلیم حاصل کرنے لگے، مولانا خواتین کے نو مراکز بھی چلا رہے ہیں اور ان میں ساڑھے چھ سو خواتین بھی زیر تعلیم ہیں۔
مولانا تلہ گنگ میں کیڈٹ کالج بھی چلا رہے ہیں، یہ لوگ سائبان کے نام سے یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کے سینٹرز بھی بنا رہے ہیں، یہ 20 لاکھ لوگوں میں ہر سال قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں، کورونا کے دوران اس ٹرسٹ نے 85 کروڑ روپے کی امدادی رقم تقسیم کی لہٰذا آپ اس غیر معروف ٹرسٹ کے کام کا دائرہ کار دیکھ لیجیے اور یہ ہے دوسرااور اصل پاکستان۔
ہم اگر دونوں پاکستانوں کا تجزیہ کریں تو ہم حیران ہو جائیں گے، ہم ایک طرف ریاستی اور سیاسی سطح پر سمندر کی تہہ چوم رہے ہیں، ملک میں اس وقت کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں بچا جس کی کریڈیبلٹی یا ورکنگ کی ہم مثال دے سکیں، ریاست کا ہر ادارہ انحطاط پذیر ہے، ہم ریاستی سطح پر دیوالیہ بھی ہو چکے ہیں اور فیل بھی لیکن دوسری طرف پاکستانیوں کا جذبہ اور پاکستانی این جی اوز دیکھیں تو ہر تنظیم بی ڈبلیو ٹی ہے اور یہ اندھیرے میں کروڑوں لوگوں کا ہاتھ تھام کر کھڑی دکھائی دیتی ہے، اخوت سے لے کر المصطفیٰ آئی ٹرسٹ تک پاکستان کا ہر ادارہ مثالی ہے اور اہل خیر ہر سال ان اداروں کو اربوں روپے عطیہ دیتے ہیں۔
حکومت ایک طرف ٹیکسوں کا رونا روتی رہتی ہے اور دوسری طرف سو روپے کمانے والا مزدور بھی دس روپے کسی نہ کسی خیراتی ادارے کو دے کر گھر جاتا ہے، میں ملک کے درجنوں ایسے کروڑ اور ارب پتیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنی کل دولت خیراتی اداروں کے لیے وقف کر رکھی ہے، یہ لوگ کماتے ہی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے غریب اور بے بس لوگوں کے لیے ہیں اور آخر میں خالی ہاتھ جھاڑ کر مسکراتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، میں پانچ چھ سال سے ریڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
ریڈ فاؤنڈیشن میرے گاؤں میں میری زمین پر اسکول بھی بنا رہی ہے، میں اس کے علاوہ اخوت، کاروان علم فاؤنڈیشن اور المصطفیٰ آئی ٹرسٹ کے ساتھ بھی کام کررہا ہوں، المصطفیٰ آئی ٹرسٹ کا ایکٹو ممبر ہوں، ٹرسٹ ہر سال میرے گاؤں میں آئی کیمپ لگاتا ہے اور اللہ کے کرم سے ہزار بارہ سو لوگوں کے آپریشن ہوتے ہیں اور یہ لوگ اللہ کے نور سے اس کی بنائی ہوئی دنیا کو دیکھتے ہیں، میں اب اپنے گاؤں میں چھوٹا سا میٹرنٹی ہوم بنوانا چاہتا ہوں۔
خواتین کو ڈیلیوری کے دوران بے تحاشا مسائل کا سامنا ہے، میں ایسا ادارہ تلاش کر رہا ہوں جسے زمین اور باقی وسائل فراہم کردوں اور وہ یہ میٹرنٹی ہوم بنا اور چلا دے لہٰذا کہنے کا مطلب یہ ہے ایک پاکستان بی ڈبلیو ٹی بھی ہے اور یہ پاکستان دوسرے پاکستان سے 180 درجے مختلف ہے، آپ یقین کریں سیاسی پاکستان اور امدادی پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ایک طرف مکمل تباہی ہے جب کہ دوسری طرف خیر ہی خیر اور امید ہی امید ہے، میں جب بھی ان دونوں کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس امدادی پاکستان کے صدقے ہمارے سیاسی پاکستان کی غلطیاں معاف کر رہا ہے، یہ ہمیں بی ڈبلیو ٹی جیسے اداروں کی وجہ سے ہر عذاب سے بچا رہا ہے۔
نوٹ: میرے پاس کل المصطفیٰ آئی ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد تشریف لائے، ان کا کہنا تھا ہم نے ایک ماہ قبل جو ٹینٹ چھ ہزار روپے فی کس خریدے وہ اب 16 ہزار روپے کے ہو چکے ہیں، پلیز تاجروں اور حکومت سے درخواست کریں یہ ٹینٹ کی قیمت ہی کنٹرول کر لیں تاکہ متاثرین کو فائدہ ہو سکے لہٰذا میں تاجروں سے خدا خوفی کی درخواست کرتا ہوں اور انھیں پہلے پاکستان سے نکل کر دوسرے پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔