گزشتہ آٹھ دنوں سے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ہوں۔ دو دن کا قیام آٹھ دن میں تبدیل ہونے کی وجہ انقلاب کے دیوانوں کی "ملک بھر" سے اسلام آباد آنے اور "طلوع صبح" انقلاب کا بندوبست کرنے کی وجہ سے "تعمیر و مرمت" کے لئے موٹرویز اور دیگر شاہراہوں کی بندش تھی لیکن پچھلی شب قائد انقلاب محترمہ بشریٰ بی بی اور لمحہ موجود کے "محمود غزنوی سوئم" علی امین گنڈاپور انقلابی لشکر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
یہ سطور لکھے جانے سے کچھ دیر قبل انقلابی قیادت مانسہرہ میں ناشتہ کررہی تھی جبکہ سینکڑوں کارکن اسلام آباد و راولپنڈی پولیس کی تحویل میں ہیں۔ انقلابیوں کی سوشل میڈیا رجمنٹ اب رونے دھونے کوسنے دینے اور اس شکست کو ایک مذہبی حوالے سے منسوب کرنے کے ساتھ جھوٹ کی چاند ماریوں میں مصروف ہے۔
فیس بکی رجمنٹ کی حالت گرفتار ہونے والے انقلابیوں سے بھی پتلی ہے۔ ایک فرقہ وارانہ جماعت کے مختار ملت کہلانے والے مولوی کے ہمدرد حسب عادت مخالفین کو یزیدی قرار دے رہے ہیں کاش انہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں علم ہوتا کہ "حسینیؑ" لشکر میدان میں کپڑے جوتیاں اور گاڑیاں چھوڑ کر بھاگا نہ حسینیؑ لشکر کی قیادت فرار ہوئی۔
اسی وجہ سے ہمیشہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ سیاست میں حسینیؑ و یزیدی نہیں درست اور غلط ہوتے ہیں۔ ایک فیس بکی مجاہد دعویدار ہے کہ حکومت نے سینکڑوں لاشیں غائب کردیں (ایک کا دعویٰ 272 کا ہے شکر ہے 72 نہیں کہہ دیا)۔
بڑی عجیب حکومت ہے جو قائد انقلاب محترمہ بشریٰ بی بی اور محمود غزنوی سوئم علی امین گنڈاپور کو غائب نہ کرسکی اور وہ فرار ہوگئے مگر سینکڑوں لاشیں اس حکومت نے غائب کردیں آج کے جدید عہد میں یہ ظلم چھپائے نہیں چھپ سکتا۔
پی ٹی آئی اور سوشل میڈیا رجمنٹ کسی تاخیر کے بغیر ان مقتولین کی شناختی دستاویزات خاندان اور دیگر شواہد سامنے لائے تاکہ حکومت کی گردن دبوچی جاسکے۔ بظاہر یہ دعویٰ ویسا من گھڑت دعویٰ ہے جیسا عمران خان نے 9 مئی کے بعد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو چالیس افراد جاں بحق ہوئے ان مقتولین کے خاندانوں کی مدد کے لئے امریکہ اور دوسرے ممالک میں فنڈ ریزنگ مہم چلائی گئی لاکھوں ڈالر پتہ نہیں کس کے پیٹ میں گئے۔
حالیہ ناکام انقلاب (حتمی احتجاج) سے قبل بھی فنڈ ریزنگ کی گئی خیر ایک خاندان کو لگ بھگ چار عشروں سے فنڈ ریزنگ، صدقہ زکوٰۃ و خیرات جمع کرنے میں مہارت حاصل ہے اللہ مزید توفیق دے۔
بہرطور ہفتہ 23 نومبر کو تعمیر و مرمت کے لئے بند کی گئیں موٹرویز اور دوسری شاہراہیں کھلنا شرع ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے زیر اہتمام آزاد کشمیر میں آٹھ دنوں سے پھنسے مسافر نے واپسی کے لئے ٹکٹ بک کرالی ہے۔
پچھلے آٹھ دنوں میں مظفر آباد میں خوب محفلیں برپا ہوئیں سیدی ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ، انوار القمر ایڈووکیٹ، سید احسن کاظمی اور دیگر دوستوں سے ملاقاتیں رہیں ان ملاقاتوں میں عصری سیاست کے ساتھ دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ سید احسن کاظمی زمانہ طالب علمی میں این ایس ایف اور متحدہ طلباء محاظ آزاد کشمیر کے سرگرم رہنما رہے آج کل مرحوم سردار عبد القیوم کی مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔
دائیں بازو کی مسلم کانفرنس میں ترقی پسند این ایف کے رہنما کا ہونا قابل حیرت ہے یا اس کا عاشقِ اخیرالمومنین ہونا یہ بہرطور ایک سوال ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور خامی یہ ہے کہ سیاسی مخالفت میں 1980ء کی دہائی والے مسلم لیگی اور موجودہ انقلابیوں جیسے جذبات چھپا نہیں پاتے۔ بہرطور اچھے انسان اور بہترین دوست ہیں۔
فقیر راحموں نے اگلے دن ایک دوست کو فون پر کہا "جن سے دل ملتے ہیں پتہ نہیں وہ لوگ ملتے کیوں نہیں"۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ "اور بھی غم ہیں زمانے میں مسافر دوست کی پذیرائی کے سوا"۔
مظفر آباد میں گزرے پچھلے آٹھ دنوں میں سے لگ بھگ 6 دن تو پاکستان جانے کے راستے بند تھے گو اب آمدورفت بحال ہوگئی ہے لیکن پابندیوں میں گزرے 6 دنوں میں مکالماتی محفلوں کے ساتھ دلچسپ واقعات اور لطیفے بھی ہوئے۔
ہمارے ایک انصافی دوست ملک محمد نصیر اعوان ایڈووکیٹ جوانی میں انجمن متاثرینِ جماعت اسلامی رہے آجکل عمران خان کی قیادت میں انقلاب لانے کے خواہش مند ہیں۔ انقلاب کے لئے پاکستان جانا چاہتے تھے پھر پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ بیان آگیا کہ "آزاد کشمیر متنازعہ علاقہ ہے متنازعہ علاقے کے باسی پاکستان کے قانونی شہری نہیں"۔
ایڈووکیٹ نصیر اعوان صاحب اس بیان سے دل گرفتہ ہوئے اور انقلابی لشکر میں پرجوش عملی شرکت کے لئے جانے سے رہ گئے۔ وزیر داخلہ کے بیان پر ان کے غم و غصہ کو بھانپ کر ہم نے عرض کیا کہ آپ ایک پریس کانفرنس کرکے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کریں کہ متنازعہ خطے میں پھنسے ہوئے اپنے شہری (ہمیں) پاکستان لے جانے کا بندوبست کرے۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "شاہ جی آپ کی حکومت ڈالروں کے عوض شہری فروخت کرنے کا خصوصی تجربہ رکھتی ہے اب اگر پاکستان سے جواب آیا کہ ہزار پانچ سو ڈالر دے کر ہمارا شہری رکھ لو تو پھر کیا کریں گے؟"
عزیزم ثاقب اعوان کے "مسٹر بکس" پر دن بھر مسافر دوستوں سے ملتا ملاتا رہا۔ ثاقب اعوان وسیع المطالعہ دوست ہیں تاریخ سیاست اور ادیان و عقائد پر ان سے نوک جھونک خوب چلتی رہی یہ سطور لکھتے وقت کی صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد سے لشکر انقلاب واپس جاچکا۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ عمران خان کی تیسری اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی نے پی ٹی آئی کی سیاست پر پہلے شریعت نافذ کرنے والا بیان "باجوہ یہ تم کسے اٹھالائے ہوے" دے کر خودکش حملہ کیا تھا اب رہی سہی کسر اپنے غیر سیاسی جذباتی طرز عمل سے پوری کردی۔ ڈی چوک جانے کا فیصلہ ان کا ذاتی عزم تھا وہ آخری سانس تک ڈٹے رہنے کا اپنے پختون حامیوں سے حلف لیتی رہیں اور خود آخری سانس سے قبل میدان چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف چل دیں۔
ان کے عامیانہ جذباتی فیصلے کا خمیازہ پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑے گا۔ ڈی چوک جانے کے لئے تکبر سے عبارت ضد کی بجائے اگر وہ عمران خان اور پارٹی قیادت کی بات مان کر سنگجانی میں جلسے اور دھرنے کا راستہ اختیار کرتیں تو حکومت راستے کھولنے کا رسک بالکل نہ لیتی بلکہ پی ٹی آئی کی سیاسی بصیرت کی تحسین کی جاتی اور راستوں کی مزید بندش سے مشکلات کا شکار شہریوں کے غصے کا نشانہ حکومت وقت بنتی۔
خیر اب کیا ہوسکتا ہے قیادت میدان سے بھاگ نکلی، سینکڑوں ورکرز اور 50 سے زائد افغان شہری پولیس کی تحویل میں ہیں۔ دیکھئے اور انتظار کیجئے کہ انقلاب کی "پٹاری" سے اب کیا برآمد ہوتا ہے۔