Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dorne Say Qabl Chalna Seekhain

Dorne Say Qabl Chalna Seekhain

مائیکل کیرول کی عمر انیس سال تھی، وہ تعلیم مکمل نہیں کر سکا، اس کی کمپنی بھی بری تھی، وہ سولہ سال کی عمر میں شراب، چرس اور کوکین کا عادی ہو گیا اور نشہ پورا کرنے کے لیے چوری چکاری کرنے لگا، پولیس کیس بنا، وہ عدالت میں پیش ہوا اور عدالت نے اس کی کلائی پر "الیکٹرانک ٹیگ" لگا دیا، وہ جوئے کا عادی بھی تھا، جوئے کی لت میں مبتلا لوگ لاٹریاں بھی خریدتے رہتے ہیں، مائیکل بھی چلتے پھرتے لاٹری ٹکٹ خریدتا رہتا تھا، 2002ء میں اس کی لاٹری نکل آئی، اسے پانچ ملین پائونڈ کی خطیر رقم ملی، یہ انیس سال کے فقرے، کم پڑھے لکھے اور معمولی چور کے لیے بڑی رقم تھی، یہ بیٹھے بیٹھے کروڑ پتی ہو گیا، مائیکل نے اس رقم سے اپنی تمام حسرتیں، تمام خواہشیں پوری کرنا شروع کر دیں، اس نے کاروبار بھی کیا، پراپرٹی بھی خریدی، گاڑیاں بھی لیں، اسٹاف بھی رکھا، بڑا گھر بھی لیا اور پارٹیز بھی کیں، دولت کی یہ برسات آٹھ سال تک جاری رہی، یہ 2010ء میں پہنچا تو یہ ایک دن دوبارہ فٹ پاتھ پر کھڑا تھا، گاڑیاں بک چکی تھیں، پراپرٹی بینک ضبط کر چکے تھے، اسٹاف نوکری چھوڑ کر جا چکا تھا، دوست فرار ہو چکے تھے اور اس کا گھر نیلام ہو چکا تھا، مائیکل کے حالات جولائی 2010ء میں اس قدر خراب ہو گئے کہ یہ لندن کے ایک ریستوران میں فرش اور باتھ روم صاف کرنے پر مجبور ہو گیا۔

مائیکل آج کرائے کے کمرے میں رہتا ہے، فاسٹ فوڈ کے ایک ریستوران میں کام کرتا ہے اور بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتا ہے، دولت مندی کے گزرے زمانوں کو یاد کرتا ہے، مائیکل اس انجام کا پہلا شکار نہیں، برطانیہ، یورپی یونین اور امریکا میں مائیکل جیسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، قسمت اور دولت کی دیوی نے ان کے دروازے پر دستک دی، ایک ٹچ سے ان کی خواہشوں کو سونا بنایا لیکن ابھی دولت کی دیوی کے قدموں کے نشان بھی مدہم نہیں پڑے تھے کہ یہ لوگ دوبارہ فٹ پاتھ پر آ گئے، آپ برطانیہ کے لارورتھ ہور کی مثال لیجیے، اس نے 2004ء میں لاٹری کے ذریعے ساڑھے سات ملین پائونڈ حاصل کیے، یہ دو سال بعد جیل میں تھا، مارک گارڈینر نے 1995ء میں 23 ملین پائونڈ کی لاٹری جیتی، یہ تین سال بعد عدالت میں کھڑا تھا اور یہ آٹھ سال تک مقدمات کا سامنا کرتا رہا یہاں تک کہ یہ نقل مکانی پر مجبور ہو گیا، راجر اور لارا گرفتھس کو 2005ء میں لاٹری کے دو ملین پائونڈ ملے، راجر آئی ٹی منیجر تھا اور لارا اسکول ٹیچر۔ یہ چھوٹے سے کمرے میں ہنسی خوشی رہتے تھے لیکن لاٹری نکلنے کے بعد دونوں میں طلاق ہو گئی اور یہ دو سال بعد بازار میں اپنی خریدی ہوئی چیزیں بیچ رہے تھے، راجر کے بینک اکائونٹ میں صرف سات پائونڈ تھے جب کہ لارا کے کریڈٹ کارڈز بند ہو چکے تھے اور یہ بینکوں کے لاء ڈیپارٹمنٹ میں دھکے کھا رہی تھی۔

یہ چھوٹی لاٹریاں جیتنے والے لوگ تھے، آپ اب برطانیہ کی بڑی لاٹریاں جیتنے والوں کی کہانیاں بھی ملاحظہ کیجیے، سمانتھا اور اسکیڈنگ کی 2009ء میں 4 کروڑ 55 لاکھ پائونڈ کی لاٹری نکلی، پاکستانی روپوں میں یہ رقم 9 ارب روپے بنتی ہے، یہ دونوں اتنی رقم پا کر انتہائی خوش تھے لیکن صرف اٹھارہ ماہ بعد دونوں میں طلاق ہو گئی، سمانتھا باربا ڈوس شفٹ ہو گئی جب کہ سکیڈنگ نے بلجیئم کے شہر گینٹ میں گھر لے لیا اور یہ اب ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے، ان کے تمام عزیز، رشتے دار اور دوست ان کے رویے کی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، یہ دونوں مردم بیزار ہو چکے ہیں اور ان کی تنہا اور اداس شامیں شراب نوشی میں گزرتی ہیں، ایڈرین اور گلیان بے فورڈ کی 2012ء میں 148 ملین پائونڈ (پاکستانی روپوں میں 29 ارب روپے) کی لاٹری نکلی، یہ دونوں پندرہ ماہ بعد ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور ان کی دولت بھی بڑی تیزی سے پھٹی ہوئی بوری سے گرتے ہوئے دانوں کی طرح ختم ہو رہی ہے، یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف مقدے بھی لڑ رہے ہیں اور ڈیوڈ اور انجیلا ڈوس لاٹری پانے والا تیسرا بدقسمت جوڑا ہے، ان کی 101 ملین پائونڈ کی لاٹری نکلی، یہ رقم پاکستانی روپوں میں 18 اب روپے بنتی ہے، یہ لوگ لاٹری سے قبل 70 پائونڈ ماہوار کے کرائے کے کمرے میں رہتے تھے، لاٹری نکلنے کے بعد انھوں نے سرے میں 9 ملین پائونڈ کا محل خرید لیا، یہ دونوں بھی اختلافات کے شکار ہوئے اور یہ بھی اب الگ الگ زندگی گزار رہے ہیں جب کہ اختلافات کی وجہ سے دونوں کی آدھی دولت بینک میں منجمد ہو چکی ہے۔

یہ اچانک دولت کے مظلوم شکار ہیں، آپ کو اس قسم کے شکار اپنے اردگرد بھی دکھائی دیتے ہیں، ہمارے سامنے بے شمار لوگ کروڑ پتی ہوئے، ان کا کوئی نہ کوئی آئیڈیا چل نکلا، یہ مل اونر بنے، ان کی ایکسپورٹس شروع ہو گئیں، یہ ٹھیکیدار ہو گئے، یہ ترقی کا پرمٹ اور لائسنس پا گئے یا پھر انھوں نے زمینوں کی خرید و فروخت میں کروڑوں اربوں روپے پا لیے لیکن ہم پھر اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دوبارہ فٹ پاتھ پر آتے، عدالتوں میں دھکے کھاتے اور پولیس کے ذریعے گرفتار ہوتے دیکھتے ہیں، آپ نے درجنوں لوگوں کو جھونپڑی سے محل میں جاتے اور پھر محل سے واپس جھونپڑی میں آتے دیکھا ہو گا، آپ ملک میں قتل ہونے والے لوگوں کا پروفائل بھی دیکھ لیجیے، آپ کو زیادہ تر مقتول نو دولتیے یا پھر کسی نو دولتیے کے بیٹے، بیٹی یا عزیز رشتے دار ملیں گے، آپ ایکسیڈنٹس میں مرنے والے لوگوں کا ڈیٹا بھی نکال لیجیے، آپ کو ان میں بھی نو دولتیوں کی اچھی خاصی تعداد ملے گی اور آپ مہنگے ڈاکٹروں کے مریضوں کا ڈیٹا بھی نکال لیجیے، آپ کو ان میں بھی نو دولتیوں کی تعداد زیادہ ملے گی، سوال یہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس کی وجہ دولت کا مہلک پن ہے، دولت سنکھیا کی طرح ہوتی ہے، یہ اگر آہستہ آہستہ، تھوڑی تھوڑی ملے تو یہ آپ کی خوشیوں، آپ کے آرام اور آپ کے اطمینان میں اضافہ کرتی ہے لیکن یہ اگر ایک دم مل جائے تو یہ آپ کو بیمار بھی کرتی ہے، آپ کو حادثوں کا شکار بھی بناتی ہے، آپ کے دشمنوں میں بھی اضافہ کر دیتی ہے اور یہ آپ کے رشتے بھی توڑ دیتی ہے، آپ ذاتی گارڈز اور بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کا پس منظر نکال کر دیکھ لیں، آپ کو نوے فیصد لوگ نو دولتیے ملیں گے جب کہ آپ کو خاندانی دولت مند آج بھی گارڈ اور رائفل کے بغیر چلتے پھرتے دکھائی دیں گے، یہ آج بھی ریستورانوں اور مارکیٹوں میں بے خوف چلتے پھرتے نظر آئیں گے، کیوں؟ کیونکہ نو دولتیوں کی دولت کرنسی نوٹوں کے ساتھ ان کے دشمن، ان کے حاسدین کو بھی لے کر آئی اور یہ حاسدین اور یہ دشمن اب انھیں آرام سے زندگی نہیں گزارنے دے رہے چنانچہ یہ اپنے سر پر رائفلوں کا سایہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ان کے مقابلے میں خاندانی رئیس یا امیر لوگ کوئی ایسی حرکت، کوئی ایسی غلطی نہیں کرتے جس کے نتیجے میں لوگ ان کے خلاف ہو جائیں یا ان سے دشمنی پال لیں، میں نے لاہور میں ایک کھدر پوش شخص کو دو ارب روپے کا سودا کرتے ہوئے دیکھا، اس کے پائوں میں عام سی چپل تھی، سر پر کپڑے کی میلی سی ٹوپی تھی اور یہ رینٹ اے کار پر آیا تھا جب کہ اس ڈیل کا ڈیلر پراڈو پر سوار تھا اور اس کے ساتھ چار گن مین تھے، آپ فرق کا اندازہ لگا لیجیے، دو ارب روپے دینے والا رینٹ کی گاڑی پر پھر رہا ہے اور ایک فیصد کمیشن لینے والا پراڈو پر گارڈز کے ساتھ، کیوں؟ کیونکہ دو ارب روپے کا مالک دو نسلوں سے امیر آ رہا تھا لہٰذا اس کا کوئی دشمن نہیں تھا جب کہ کمیشن ایجنٹ نے نئی نئی دولت دیکھی تھی اور یہ دولت اپنے ساتھ اس کے جانی دشمن لے کر آئی تھی.

دولت کمانا ایک فن ہے لیکن خود کو اس دولت کے خوفناک ہتھیار سے بچا کر رکھنا اور اس دولت کو سنبھال لینا فنکاری۔ آپ جب تک دولت کو سنبھالنا، اس کے وار سے خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھنا نہیں سیکھتے آپ کو اس وقت تک دولت نہیں کمانی چاہیے کیونکہ آپ نے اگر فنکاری کے بغیر دولت کما لی تو یہ آپ اور آپ کے خاندان کے لیے بربادی کا پیغام لے کر آئے گی، یہ آپ کو تباہ کر کے رکھ دے گی، آپ اگر اس کی تباہی سے بچ بھی گئے تو آپ کی اولاد اس کا ضرور نوالہ بنے گی کیونکہ آپ اسے صرف دولت دے کر جا رہے ہیں، آپ نے اسے دولت کمانے اور اس دولت کو سنبھالنے کا فن نہیں سکھایا، آپ نے اسے یہ بتایا ہی نہیں دولت جنگلی گھوڑے یا بدمست ہاتھی کی طرح ہوتی ہے، آپ اگر گھڑ سواری سیکھے بغیر یا ہاتھیوں کی نفسیات کو سمجھے بغیر ان پر سوار ہو جائیں گے تو یہ دونوں آپ کو اپنے قدموں میں کچل دیں گے، یہ سواری آپ کی موت ثابت ہو گی، آپ اپنے بچوں کو دولت سے قبل دولت کو سنبھالنے کا فن سکھائیں، آپ اسے نو دولتیے کی بجائے خاندانی رئیس بنائیں، آپ کی اولاد آپ کی ترقی اور آپ کی خوشحالی کو آگے لے جائے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ اپنی زندگی میں اپنی لنکا جلتے اور اپنے ٹائی ٹینک کو ڈوبتا دیکھیں گے اور یہ دولت کا انتہائی خوفناک انتقام ہوتا ہے۔

ہم انسان غربت میں زندگی گزار لیتے ہیں لیکن ہم امارت کے تخت سے غربت کے چبوترے پر آ کر زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے، ایک یونانی کہاوت ہے، آپ اگر دوڑنا چاہتے ہیں تو آپ پہلے چلنا سکھیں، آپ بھی دولت مند بننے سے قبل خوشحال ہونا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں کیونکہ آپ نے اگر خود چلنا سیکھا اور نہ ہی اپنے بچوں کو سکھایا تو آپ کی دوڑ آپ اور آپ کے خاندان کی آخری دوڑ ثابت ہو گی، آپ بھی مائیکل کی طرح فٹ پاتھ پر آتے دیر نہیں لگائیں گے کیونکہ جو پیسہ برسات کی طرح آتا ہے وہ ہوا کی طرح اڑ جاتا ہے اور پیچھے صرف بدبودار کیچڑ رہ جاتا ہے اور اس کیچڑ کے کیڑے۔

نوٹ: میں نے 13 دسمبر کے کالم "کم از کم عدلیہ" میں چیف جسٹس سے درخواست کی تھی آپ غیر ضروری سیکیورٹی اور پروٹوکول نہ لیں، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے میری یہ درخواست مان لی اور کل سے پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا، یہ اپنے لیے روٹس بھی نہیں لگوا رہے، میں عوام کی طرف سے چیف جسٹس کے اس اقدام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.