Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dunya Aik Stage Hai

Dunya Aik Stage Hai

اسٹارٹ فورڈ برمنگھم شہر کے مضافات میں ایک چھوٹا سا ٹائون ہے، یہ ٹائون ولیم شیکسپیئر کی وجہ سے دنیا کے 245ممالک میں مشہور ہے، دنیا میں اس وقت ساڑھے چھ ارب لوگ بستے ہیں، ہم اگر دنیا کی ابتداء سے اب تک کی آبادی کا تخمینہ لگالیں تو کرہ ارض کی چھاتی پر قریباً بارہ ارب لوگوں نے قدم رکھا ہوگا، دنیا میں دس ہزار سال سے لٹریچر، شاعری اور تحریری زبان بھی چل رہی ہے، لوگ سات ہزار سال سے تھیٹر بھی دیکھ رہے ہیں اور لوگ آٹھ نو ہزار سال سے ایک دوسرے کو کہانیاں، داستانیں اور کہاوتیں بھی سنا رہے ہیں لیکن دنیا کی دس ہزار سال کی تحریری تاریخ میں ولیم شیکسپیئر ایک ہی تھا اور شائد ایک ہی رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہانی بننے، کہانی کہنے، ڈائیلاگ گھڑنے اور جذباتی صورتحال کو لفظوں میں پینٹ کرنے کا جتنا بڑا کمال ولیم کو عطا کیا تھا وہ کرہ ارض کے کسی دوسرے تخلیق کار کو نصیب نہیں ہوا، شیکسپیئر کے لفظ محض لفظ نہیں یہ ادب کی آیات ہیں اور یہ آیات اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کے بغیر ممکن نہیں۔

ہم نے اور آپ نے یہ فقرہ اکثر سنا ہوگا اس نے لکھا اور قلم توڑ دیا، یہ فقرہ شیکسپیئر کے علاوہ دنیا کے ہرشخص کے لیے فقط فقرہ ہے کیونکہ یہ دنیا کا واحد تخلیق کار تھا جو اس آسمانی فقرے کی کسوٹی پر پورا اترتا تھا، اس نے حقیقتاً لکھا اور تخلیق کا قلم توڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیا اور پیچھے دنیا کے بیس ماسٹر پیس، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی دنیا کا عظیم اسٹیج اور کروڑوں اربوں چاہنے والے چھوڑ گیا اور ان چاہنے والوں میں سے پانچ لاکھ ہر سال اس کے گائوں اسٹارٹ فورڈ کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس سال میں بھی ان پانچ لاکھ زائرین میں شامل تھا۔ لندن میں میاں گلزار میرے دوست ہیں، ہم تین، میں، میاں گلزار اور بھائی مجید 27دسمبر کو اسٹارٹ فورڈ پہنچے۔ لندن سے لے کر اسٹارٹ فورڈ تک سردی، دھند، بارش اور اداسی پھیلی تھی، برطانیہ کا دسمبر پرانی یاد کی طرح اداس ہوتا ہے، یہ آہستہ آہستہ آپ کو اندر سے کاٹتا ہے اور آپ کی بینائی کو دھندلا جاتا ہے، اسٹارٹ فورڈ بھی اداسی اور بارش کی دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ ولیم شیکسپیئر 1564ء میں اس گائوں میں پیدا ہوا، یہ برطانیہ میں موت کا دور تھا، فضا میں بخار کے چودہ قسم کے جراثیم تھے، انسان فلو کے بخار سے بچتا تھا تو ٹی بی کے بخار کا شکار ہو جاتا تھا، اس سے بچ جاتا تھا تو ملیریا، چیچک، خناق، کالی کھانسی کے ہاتھوں مر جاتا تھا اور اگر ان سے بچ جاتا تھا تو طاعون پورے شہر کو چاٹ جاتی تھی اور اگر انسان طاعون سے بھی بچ جاتا تھا تو یہ پادریوں کے احکامات کی نذر ہو جاتا تھا، کیتھولک پادری کسی بھی شخص کو مرتد قرار دے دیتے تھے اور عام لوگ اس شخص کو سرے عام قتل کر دیتے تھے۔

ولیم شیکسپیئر نے اس سیاہ ترین دور میں آنکھ کھولی، اس کا اصل کمال کنگ لیئر اور ہملٹ جیسے شاہکار تخلیق کرنا نہیں تھا، اس کا کمال بچپن میں موت کے جراثیم سے بچنا اور پھر جوانی میں ایسے پادریوں کی موجودگی میں شہ پارے تخلیق کرنا تھا جو انجیل کے علاوہ ہر تحریر کو بدعت، دوزخ کا ایندھن اور ناقابل معافی جرم سمجھتے تھے اور یہ شاعروں، ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں کے قتل کا فتویٰ جاری کرتے پانچ منٹ لگاتے تھے۔ ولیم شیکسپیئر کا والد دستانے بناتا تھا، اس کے آٹھ بچے تھے، ولیم اس دستانے ساز کا تیسرا بچہ تھا، ہم ساڑھے تین بجے شیکسپیئر کے گھر میں داخل ہوئے، یہ چھوٹا سا دو منزلہ لکڑی کا گھر تھا، گھر کا ایک کمرہ دستانے بنانے کی ورکشاپ تھا، ولیم کا والد اس ورکشاپ میں چمڑے کے دستانے بناتا تھا، ورکشاپ کی ایک کھڑکی بازار کی طرف کھلتی تھی، یہ اپنے دستانے کھڑکی کے اندر لٹکا دیتا تھا، گاہک آتے تھے اور یہ اس کھڑکی کے ذریعے دستانے بیچ دیتا تھا، گھر کے اندر ایک چھوٹا سا ڈائیننگ روم ہے، ایک چھوٹا سا اوپن کچن ہے، بالائی منزل رہائشی علاقہ تھا، یہاں دو کمرے ہیں، ایک کمرہ بچوں کا اور دوسرے کمرے میں والدین رہتے تھے، چھت اور کھڑکیوں سے روشنی کا بندوبست ہے، فرش چوبی ہیں اور دیواریں لکڑی اور گارے سے بنائی گئی ہیں، گھر کے پچھواڑے میں سبزیوں اور فروٹ کا چھوٹا سا گارڈن ہے اور پورے کمپائونڈ میں دانش اور فکر کی مہک ہے، حکومت نے ولیم کی جائے پیدائش کے دائیں بائیں گھر خرید کر انھیں میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے، آپ میوزیم میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ملٹی میڈیا کے ذریعے شیکسپیئر کے تخلیق کردہ ڈراموں کے مختلف کردار دکھائے جاتے ہیں، پھر پرانا اسٹارٹ فورڈ دکھایا جاتا ہے، پھر اس کی سولہویں صدی میں چھپنے والی کتاب دکھائی جاتی ہے اور پھر اس کے گھر کے پچھواڑے سے گزار کر اس کے مکان کے اندر لایا جاتا ہے اور پھر آپ پست قامت چھتوں اور چوبی فرشوں سے ہوتے ہوئے اس کا سارا گھر دیکھتے ہیں، آپ فرش پر چلتے ہیں تو آپ کو پرانی لکڑی کی چیں چیں ماضی میں لے جاتی ہے اور آپ ہملٹ کے کرداروں کو اپنے دائیں بائیں سرگوشیاں کرتے محسوس کرتے ہیں اور آپ اس شیکسپیئر کے تخلیقی دماغ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے جس نے چار سو سال قبل انسان کی لاکھوں سال پرانی جبلت لفظوں کے ذریعے پینٹ کی اور ہم آج جب اپنے جذبات، اپنے احساسات اور اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ہم بے اختیار شیکسپیئر کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

"دنیا ایک اسٹیج ہے" کیا آپ انسانی زندگی کو اس سے زیادہ خوبصورتی سے بیان کر سکتے ہیں؟ آپ اپنے دائیں جانب دیکھیے، بائیں دیکھیے اور آگے اور پیچھے دیکھیے، کیا آپ کو دنیا ایک وسیع اسٹیج اور اسٹیج پر چلتے پھرتے لوگ کردار دکھائی نہیں دیتے اور کیا آپ خود کو بھی ان کرداروں میں سے ایک کردار محسوس نہیں کرتے۔"محبت کرو اور خاموش رہو" یہ محبت جیسے جذبے کے نتائج بھگتنے کا انتہائی خوبصورت طریقہ ہے اور "گلاب کو کوئی بھی نام دے دیں یہ گلاب ہی رہتا ہے" یہ نیکی کا کیا خوبصورت جواز ہے، دنیا میں بے شمار دانشور، ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار گزرے ہیں لیکن شیکسپیئر ان چند خوش نصیب لکھاریوں میں شمار ہوتا ہے جس کا ہر دوسرا فقرہ ضرب المثل، محاورہ یا فلسفہ بنا اور یہ اللہ کا اس پر خصوصی کرم تھا۔

اسٹارٹ فورڈ میں ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی، ہم ولیم کے گھر سے نکلے اور گلی کی دوسری سائیڈ پر ریستوران میں گھس گئے، کائونٹر پر خوبصورت نوجوان کھڑا تھا، میں نے اس سے پوچھا "آپ کا نام ہیری ہے؟ " اس نے جواب دیا "جی نہیں، میں ولیم ہوں " میں نے کہا "لیکن تمہاری شکل پرنس ہیری سے ملتی ہے" اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "ولیم کے گائوں کا ہر دوسرا مرد ولیم ہے، آپ گلی میں کھڑے ہو کر اونچی آواز میں ولیم کا نعرہ لگائیں، گلی کے آدھے سے زائد مرد مڑ کر آپ کی طرف دیکھیں گے" یہ شیکسپیئر کے گائوں کا ولیم کے لیے معمولی سا خراج تحسین تھا۔ میں اسٹارٹ فورڈ سے واپسی کے وقت ایک لمحے کے لیے ولیم کے گھر کے سامنے رکا، گھر کے باہر جنگلہ تھا اور جنگلہ کے پیچھے چار سو سال پرانی کھڑکیاں اور دروازے اور وقت کی سیاہی میں چھپی ہوئی دیواریں اور چار سو برفوں اور دھوپوں اورخزائوں اور بہاروں میں پکی ہوئی چھت تھی اور لاکھوں کروڑوں عقیدت مندوں کی نظروں میں پلی ہوئی خزاں رسیدہ بیلیں تھیں اور اربوں رکے، تھمے اور عقیدت سے ڈگمگاتے قدموں کے نشان لیے ڈیڑھ دو سو سال پرانی اینٹیں تھیں اور آسمان سے اترتے ہوئے نرم، ٹھنڈے اور سبک قطرے تھے اور الہام کی طرح اترتی گدگداتی ٹھنڈی ہوا تھی اور اس گیلی ٹھنڈی ہوا میں دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے سیاح تھے اور ان سیاحوں کے کیمروں کے فلش تھے اور فلش کی ان کڑکتی، جلتی اور بجھتی روشنیوں میں گلی کے اس موڑ سے اس موڑ تک ایک سوال گردش کر رہا تھا، ولیم کے دائیں جانب کون رہتا تھا، بائیں جانب اور پیچھے اور آگے کس کا گھر تھا، ولیم کے زمانے میں اسٹارٹ فورڈ کس کی جاگیر تھا، گائوں میں کون کون خوشحال تھا اور وقت کے گھوڑے کی لگام کس کے ہاتھ میں تھی، ان سب کے نام، نشان اور خدوخال گزرتے وقت کی ہوائوں میں تقسیم ہو گئے، یہ سب ماضی کی اندھی قبر میں دفن ہو گئے اور ان کی قبروں پر گمنامی کی مہر لگ گئی.

ولیم کے دور کے شہزادے، شہزادیاں، ملکائیں اور بادشاہ تک بے نام مر گئے لیکن ولیم، اس کا نام اور اس کا گھر نہ صرف آج تک سلامت ہے بلکہ ہر سال پانچ لاکھ لوگ اس کی جائے پیدائش کی زیارت کے لیے بھی آتے ہیں، کیوں؟ یہ صرف اور صرف لکھے ہوئے حرف کی برکت ہے، یہ تخلیق کی قوت ہے، کتاب اللہ کی عنایت ہے، دنیا میں دولت مندوں کی دولت، اقتدار زادوں کا اقتدار اور جاگیرداروں کی جاگیر ختم ہو جاتی ہے لیکن صاحبان کتاب کی کتابیں سلامت رہتی ہیں اور ان کتابوں کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کے نام بھی کیونکہ اللہ کی کسی عنایت کو زوال نہیں آتا اور یہ ولیم شیکسپیئر کے گائوں کا دنیا کے ہر اس شخص کے نام پیغام تھا جو دولت، زمین، جائیداد اور اقتدار کو علم پر فوقیت دیتا ہے جو کنگ لیئر کا خالق بننے کے بجائے کنگ لیئر بننے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہم اس پیغام کے ساتھ ہی اسٹارٹ فورڈ کی نرم بارش اور یخ دھند ولیم کے دروازے پر چھوڑ کر لندن آ گئے، اس لندن جہاں ولیم شیکسپیئر کے کردار جدید لباس میں گلیوں اور سڑکوں پر پھر رہے تھے۔

دنیا ایک وسیع اسٹیج ہے اور ہم سب اس اسٹیج کے چھوٹے چھوٹے کردار، اللہ کی قلم سے لکھے ہوئے کردار جنھیں شیکسپیئر نے چار سو سال پہلے پڑھ لیا تھا اور ہمارے پڑھنے کے لیے دنیا میں چھوڑ گیا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.