میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر تھے، یہ 1955میں گورنر جنرل بنے، 1956کا آئین بنایا، حلف اٹھایا اور ملک کے پہلے صدر بن گئے، وہ 27 اکتوبر 1958 تک صدر رہے۔
مرشد آباد کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، شجرہ میر جعفر سے ملتا تھا، ہندوستان کے پہلے نوجوان تھے جسے رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ میں داخلہ ملا، 1921 میں برٹش آرمی جوائن کی، کوہاٹ میں تعینات ہوئے، پوناہارس رجمنٹ میں بھی رہے، بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا جب کیپٹن تھے تو فوج سے سول سروس میں آگئے، انڈین پولیٹیکل سروس کا حصہ بنے اور پھر چار اضلاع میں ڈپٹی کمشنر رہے، پاکستان بنا تو یہ پاکستان کے پہلے سیکریٹری دفاع بن گئے، ترقی کرتے کرتے گورنر جنرل غلام محمد تک پہنچ گئے، غلام محمد علیل ہوئے تو یہ قائم مقام گورنر جنرل بن گئے، جوڑتوڑ کے ماہر تھے لہٰذا ایوب خان کی مدد سے باضابطہ گورنر جنرل بن گئے۔
تین برسوں میں چار وزراء اعظم کو نگل گئے یہاں تک کہ ایوب خان کی مدد سے ملک میں مارشل لاء لگایا اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے لیکن پھر کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958کو اقتدار پر قبضہ کر لیا، یہ اہلیہ کے ساتھ لندن جلاوطن کر دیے گئے، وہاں درمیانے درجے کے ہوٹل میں پبلک ریلیشنز آفیسر کی حیثیت سے جاب کرتے رہے، 1969 میں انتقال ہوا اور تہران میں دفن کر دیے گئے، سکندر مرزا فوت ہو گئے لیکن ان کے چار کارنامے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ملک کا پہلا آئین ان کے دور میں بنا تھا، یہ ملک کے پہلے صدر بھی تھے، ملک میں مارشل لاء کی بنیاد بھی انھوں نے رکھی اور یہ ملکی تاریخ کے پہلے سربراہ تھے جس نے خود کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی تھی، یہ واقعہ نئی نسل کے لیے یقینا حیران کن ہو گا لیکن یہ بہرحال ہماری تاریخ کا حصہ ہے، واقعہ کچھ یوں تھا، سکندر مرزا جب گورنر جنرل بنے تو ان کے فوجی دور کے ساتھی ترقی کرتے کرتے میجر جنرل ہو چکے تھے۔
گورنر جنرل کو برا لگتا تھا لہٰذا انھوں نے ایک صبح سرکاری حکم جاری کر کے خود کو میجر جنرل ڈکلیئر کر دیا، یہ ملکی تاریخ کے پہلے میجر جنرل ہیں جن کے ساتھ آج بھی ریٹائر کا لفظ نہیں لکھا جاتا، کیوں؟ کیوں کہ یہ ریٹائر نہیں ہوئے تھے لہٰذا یہ آج انتقال کے52برس بعد بھی میجر جنرل ہیں۔
آپ کو یہ واقعہ لطیفہ محسوس ہو گا لیکن ہماری 75برس کی تاریخ ایسے درجنوں لطیفوں سے لبالب ہے مثلاً ذوالفقار علی بھٹو ملک کے واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، یہ اس عہدے پر دسمبر 1971 سے اگست 1973 تک فائز رہے اور کسی نے ان کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق بیک وقت صدر بھی تھے اور آرمی چیف بھی، صدر ضیاء الحق ہر تین سال بعد جنرل ضیاء الحق کی مدت ملازمت میں توسیع کر دیتے تھے اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اس توسیع کو قبول کر لیتے تھے۔
ایک ہی فائل اور ایک ہی کاغذ پر دو دستخط ہوتے تھے اور دونوں دستخطوں کے نیچے ضیاء الحق لکھا جاتا تھا تاہم یہ صورت حال اس وقت زیادہ دل چسپ ہو جاتی تھی جب آرمی چیف کا باس سیکریٹری دفاع آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی سمری بنا کر اپنے باس صدر ضیاء الحق کو بھجواتا تھا اور سپریم کمانڈر صدر ضیاء الحق اپنے ماتحت سیکریٹری کی سمری کی منظوری دیتا تھا۔
سیکریٹری جنرل ضیاء الحق کا آرڈر جاری کرتا تھا اور ان تینوں کا ماتحت جنرل ضیاء الحق توسیع کو قبول کر لیتا تھا، جنرل پرویز مشرف کا دور آیا تو وہ اس تردد سے بھی بالاتر نکلے، وہ خود ہی صدر بن گئے اور خود ہی آرمی چیف اور یہ دونوں عہدے ان کے پاس اس وقت تک رہے جب تک انھوں نے یہ کرسیاں چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا، یہ بہرحال ماضی کے قصے ہیں۔
ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان ان لطیفوں کو اب نیکسٹ لیول پر لے گئے ہیں، ماضی اب چھوٹا لطیفہ محسوس ہوتا ہے مثلاً ہم ان کے منہ سے معاشی ترقی کے دعوے سن سن کر تھک چکے ہیں، حکومت روز دعویٰ کرتی ہے لارج اسکیل مینوفیکچرز نے ہزار ارب روپے کما لیے، حکومت نے زرعی شعبوں میں چودہ سو ارب روپے ڈال دیے، تجارتی خسارہ کم ہو گیا، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی پیداوار بڑھ گئی۔
زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے اور تارکین وطن نے ملک میں ڈالروں کے انبار لگا دیے وغیرہ وغیرہ لیکن جب کارکردگی کی سند دینے کا وقت آیا تو وزیرخزانہ شوکت ترین کا نام بری کارکردگی یا ناکام وزراء کی فہرست میں آ گیا، وزیراعظم آج بھی 27 فروری 2019 کو بھارت کے دو جنگی طیارے گرانے اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن یہ وزیردفاع پرویز خٹک کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
حکومت خارجی کام یابیوں کا ڈھنڈورا بھی مسلسل پیٹ رہی ہے لیکن وزیرخارجہ بھی ٹاپ ٹین وزراء میں شامل نہیں ہیں، حکومت کا صرف ایک ہی وکیل ہے اور اس کا نام ہے فواد چوہدری، یہ آج کل وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں میں بھی شامل ہیں، یہ مسلسل ساڑھے تین سال سے ہارے ہوئے مقدمے لڑ رہے ہیں مگر وزیراعظم ان کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
فروغ نسیم وزیر قانون ہیں، یہ ہر مشکل وقت میں حکومت کی سپورٹ میں سامنے آئے، آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہو یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا مسئلہ ہو میدان میں صرف ایک شخص نظر آیا اور وہ تھا بیرسٹر فروغ نسیم مگر وزیراعظم ان سے بھی مطمئن نہیں ہیں، ملک میں اس وقت تین بڑے ڈیم بن رہے ہیں لیکن آبی وسائل کے وفاقی وزیر مونس الٰہی ناکام وزراء کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں۔
کشمیر حکومت کا ٹاپ ایجنڈا ہے لیکن وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور ناکام وزراء کی فہرست میں بھی نویں نمبر پر ہیں اور ملکی معیشت ترقی کر رہی ہے مگر وفاقی وزیر برائے معاشی امور عمر ایوب ناکام وزراء کی لسٹ میں گیارہویں نمبر پر ہیں جب کہ دوسری طرف ملک میں کوئی نئی موٹروے نہیں بنی، نواز شریف دور کے منصوبے بھی ذلیل وخوار ہو کر مکمل ہو رہے ہیں اور دوڑتا ہوا سی پیک تھک کر بیٹھ چکا ہے لیکن مراد سعید کارکردگی میں پہلے نمبر پر ہیں، یہ ملکی تاریخ کے پہلے ٹاپر ہیں جن کی کام یابی پر ان کے اپنے ساتھی وزراء بھی حیران ہیں۔
اسد عمر کو وزیراعظم نے ٹویٹ کر کے وزارت خزانہ سے ہٹایا تھا لیکن یہ دوسرے نمبر پر ہیں، ثانیہ نشتر نے بہرحال کام کیا، پورا ملک ان کی تعریف کرتا ہے، شفقت محمود پورے ملک میں ایک سلیبس نافذ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے لیکن یہ چوتھے نمبر پر ہیں، شیریں مزاری نے بھی ثانیہ نشتر کی طرح انسانی حقوق کے لیے بہت زور لگایا، ہم ان کی کارکردگی کو تسلیم کر لیتے ہیں، یہ ڈیزرو کرتی ہیں لیکن خسرو بختیار، معید یوسف، رزاق دائود، شیخ رشید اور فخر امام نے کیا توپ چلائی جس کی وجہ سے یہ کام یاب وزراء کی فہرست میں شامل ہیں؟ ملک میں کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں۔
ہم اگر اس فہرست کو سچ بھی مان لیں تو بھی تین دل چسپ سوال پیدا ہوتے ہیں، پہلا سوال ملک کی پانچ وزارتیں اہم ترین ہوتی ہیں، وزارت خزانہ، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات اور وزارت دفاع اوریہ ملک کی پہلی حکومت ہے جس نے ان پانچ میں سے چار وزارتوں کو ناکام تسلیم کر لیا، صرف وزارت داخلہ ٹاپ ٹین میں آئی اور وہ بھی نویں نمبر پر ہے لہٰذا قوم حکومت کو کام یاب سمجھے یا ناکام؟
دوسرا سوال، صحت کارڈ حکومت کا "فلیگ شپ پروجیکٹ" ہے، میاں نواز شریف جس طرح ہمیشہ موٹرویز کا کریڈٹ لیتے ہیں بالکل اسی طرح عمران خان زندگی بھر صحت کارڈ کا تمغہ سینے پر سجا کر پھریں گے لیکن صحت کارڈ کے معمار ڈاکٹر فیصل سلطان کام یاب تو کیا ناکام ترین وزراء کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہیں، اس کو کیا سمجھا جائے؟
اور تیسرا سوال شفقت محمود کے پاس دو پورٹ فولیوز ہیں، یہ وزیر تعلیم بھی ہیں اور ان کے پاس ہیرٹیج اینڈ کلچر کا قلم دان بھی ہے، یہ بطور وزیر تعلیم کام یاب وزراء کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں لیکن یہ ہیرٹیج اینڈ کلچر کے وزیر کی حیثیت سے ناکام وزراء کی لسٹ میں بھی ہیں۔
سوال یہ ہے ایک ہی شخص بیک وقت کام یاب اور ناکام کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف عمران خان وزیراعظم ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وزیر بھی ہیں اور یہ وزارت ناکام وزارتوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے لہٰذا کیا ہم وزیراعظم کو بھی بطور وزیر ناکام سمجھیں؟
ہم اگر وزراء کے ایوارڈز کو ملک کی 75 سالہ تاریخ میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں یہ ماننا ہوگا یہ واقعہ بھی سکندر مرزا کی بطور میجر جنرل ترقی اور صدر ضیاء الحق کی طرف سے جنرل ضیاء الحق کی ملازمت میں توسیع سے ملتا جلتا ہے اوریہ واقعہ ثابت کرتا ہے عمران خان بھی اس مائینڈ سیٹ تک پہنچ چکے ہیں جس میں یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں حتیٰ کہ یہ خود کو فیلڈ مارشل بھی ڈکلیئر کر سکتے ہیں اور اگر یہ واقعہ ہو گیا تو اس کی تعریف سب سے پہلے شہباز گل کریں گے۔
یہ کہیں گے عمران خان دنیا کے پہلے فیلڈ مارشل کپتان ہیں اور یہ عہدہ میاں نواز شریف کو لندن سے گھسیٹ کر لانے کے لیے ضروری تھا لیکن میں اس کے باوجود دعوے سے کہہ سکتا ہوں شہباز گل کا نام اس جرات اور بہادری کے بعد بھی کام یاب وزراء کی فہرست میں نہیں آئے گا۔