Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Amjad Siddique

Amjad Siddique

امجد صدیق شاندار انسان ہیں۔ پیاری اور انگیج کرنے والی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی اپنی ایک سیاسی رائے ہے جس پر وہ بڑے عرصے سے قائم ہیں۔ انہوں نے بھی زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ بیرون ملک کام کرتے رہے۔ مشکلات دیکھیں۔ شاید ڈنکی بھی لگائی تھی جس پر سنا ہے آج کل ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے جو بیرون ملک کام کیا تھا اور وہاں جو اچھے برے تجربات ہوئے تھے انہیں ایک شاندار کتاب کی شکل دی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے خصوصا ان نوجوانوں کے لیے جو پاکستان سے باہر جا کر کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے لیے امجد صدیق کی یہ کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ آپ بہت ساری مشکلات سے بچ جائیں گے۔

آج ان کی وال پر ان کی تصویر دیکھی اور لکھا آپ کو داد بنتی ہے کہ آپ ابھی تک سپسنس ڈائجسٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ جب تک اس کے مالک معراج رسول حیات تھے تو سپنس اور جاسوسی کی کیا بات تھی۔ معراج صاحب نے ان رسالوں کو تعمیر کیا تھا۔ ایک ایک اینٹ رکھ کر محل کھڑا کیا تھا۔ خیر ان کی بیماری اور پھر رحلت کے بعد وہ میعار قائم نہ رہا یا پھر وہ لکھاری بھی نہ رہے جو وہ شاہکار قسط وار کہانیاں لکھتے تھے جنہوں نے ہمیں دیوانہ کیا ہوا تھا۔

جب بھی انارکلی لاہور اتوار بازار جائوں تو 1980 کی دہائی کے پرانے جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ مل جائیں تو ضرور خرید لیتا ہوں۔ تین سو روپے کا ایک پرانا رسالہ مل جاتا ہے۔ ان پرانے رسائل کا اپنا رومانس ہے۔ ان کے ساتھ اپنا بہت کچھ سانجھا ہے۔ خصوصا اقبال مہدی جیسے بڑا آرٹسٹ کے بنائے سکیچز کا میں آج تک دیوانہ ہوں۔ اقبال مہدی اپنی جگہ ایک بہت بڑی کلاس کے ارٹسٹ تھے جس تک شاید کوئی اور نہ پہنچ سکا یا پھر سب رنگ میں انعام راجہ کے سیکچز جن میں سے کچھ میں نے فریم کرا کر اپنے گھر میں لگا رکھے ہیں خصوصا بابر زمان، استاد بٹھل والا سیکچ بلکہ میری فیس بک بینیر پر وہی سیکچ برسوں سے لگا ہوا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں۔

خیر میں وہ excitement نہیں بھول سکتا جب سلیم بھائی لیہ شہر سے بنک جاب کے بعد گھر لوٹتے اور سکوٹر کی ٹوکری میں سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ لاتے تو ہم بہن بھائیوں کی کیا حالت ہوتی تھی۔ رات کو بھائی صاحب نے خود دیوتا یا موت کے سوداگر کی قسط پڑھنی ہوتی تھی جس کا ہم سب انتظار کرتے تھے۔ ہم دور سے اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹے آسمان کے تارے گنتے اپنی لالیں بہاتے رہتے کہ شاید بھائی جلدی سو جائیں تو ان کے تکیے کے نیچے سے انتہائی دھیان سے رسالہ نکال لیں اور ان کی نیند بھی خراب نہ ہو۔

سلیم بھائی کی نیند بہت حساس تھی لہذا کیٹ واک کرتے ہوئے بلی کی سی کاروائی ڈالنی پڑتی تھی۔ ہماری بہن خیر دھڑلے سے جا کر بھائی کے تکیے سے سسپنس یا جاسوسی نکال لیتی تھی کہ اسے پتہ تھا اسے گھر میں اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب بھائیوں کی آج تک لاڈلی ہے۔ خیر چھوٹا موٹا ڈان تو میں بھی تھا میرا مطلب ہے لاڈلا تو میں بھی تھا لیکن ابھی اماں کی طرف سے ایسے رسائل پڑھنے کا لائسنس نہیں ملا تھا حالانکہ خود وہ اگلے دن اماں حضور ہماری بہن سے انہی رسائل سے کہانیاں سنتی تھی۔

مجھے یاد ہے میں ساتویں جماعت سے ہی سسپنس، جاسوسی اور سب رنگ پڑھنا شروع کر چکا تھا اماں سے چھپ چھپا کر خصوصا سردیوں میں سکول کی کتاب پڑھنے کے نام پر رضائی کے اندر۔

(اب رضائی میں پڑھنے کو افسانہ نگار عصمت چغتائی کے افسانے لحاف ساتھ نہ ملا دیجیے گا)۔

پھر اگلی صبح بہن پڑھتی تھی اور میری باری اگلی شام تک آتی تو بھائی کی بینک سے واپسی کا ٹائم بھی۔ لہذا دو تین دن بعد ہی میرے ہاتھ لگتا جب بڑی بہن کو مجھ پر کچھ رحم آتا تھا۔

کہاں گئے وہ سلسلے شکاری، گمراہ، موت کے سوداگر، دیوتا۔۔ الیاس سیتا پوری کی تاریخی کہانیاں، مرزا امجد بیگ اور تھانیدار کہانیاں۔

اب بھی کبھی کبھار مرزا امجد بیگ اور تھانیدار کی کہانیاں پڑھنے کے لیے میں سسپنس ڈائجسٹ خرید لیتا ہوں یا پھر گائوں کے گھر کی ان پرانی یادوں اور گرمیوں کی ان خاموش دوپہروں کو یاد کرنے کے لیے کہ کب گھر کے باہر سے سلیم بھائی کے سکوٹر کی آواز آئے گی اور اس کی ٹوکڑی میں اخبار رسائل بھرے ہوں گے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.