Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hum Sab Ke Hain Hamara Koi Nahi

Hum Sab Ke Hain Hamara Koi Nahi

صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے، پہلا ستون عدلیہ ہے، دوسرا مقننہ (پارلیمنٹ)، تیسرا انتظامیہ (بیورو کریسی) اور چوتھا صحافت۔ ملک میں انصاف کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، آپ کے ساتھ زیادتی ہو جائے، آپ ظلم کا شکار ہوں یا پھر آپ جرائم پیشہ افراد کا ٹارگٹ بن جائیں، آپ کو اس ملک میں انصاف نہیں مل سکے گا، یہ ایک دلچسپ ملک ہے، ہمارے ملک میں مقتول کے لواحقین کو بھی وکیل ہائر کرنا پڑتا ہے اور مظلوم انصاف تک پہنچتے پہنچتے خود بھی مقتول ہو جاتے ہیں، ہمارے ملک کا قانون چور پکڑنے کے لیے نہیں بنا، یہ چور کو تحفظ دینے کے لیے بنایا گیا تھا چنانچہ آپ عدلیہ کے ستون کو بھول جائیے، پارلیمنٹ دوسرا ستون ہے مگر آپ اس کی حالت سے بھی بخوبی واقف ہیں جس ملک کے پارلیمنٹیرینز کی ڈگریاں جعلی نکلتی ہوں، جس کے بارہ فیصد ارکان پارلیمنٹ کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر نہ ہوں، جس کے ارکان پارلیمنٹ پر کرپشن کے الزامات لگتے ہوں، جس کی مقننہ کے لیڈرز تمام بڑے فیصلے پارلیمنٹ سے باہر کرتے ہوں اور پارلیمنٹ محض ربڑ اسٹیمپ ہو اور جس پارلیمنٹ میں وہ وزیراعظم قدم نہ رکھنا چاہتا ہو جو اس پارلیمنٹ کی وجہ سے وزیراعظم بنا ہو، آپ اس کی حیثیت کا اندازہ کر سکتے ہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے آمریت جمہوریت سے زیادہ ڈیلیور کرتی رہی لہٰذا آپ اس ستون کو بھی بھول جائیے، انتظامیہ تیسرا ستون ہے، یہ ستون انصاف میں تاخیر اور پارلیمنٹ کی کمزوری کی نذر ہو گیا، سرکاری ملازمین ریاست کے ملازم ہوتے ہیں لیکن یہ آہستہ آہستہ حاکم وقت کے چاکر بن گئے، یہ حکومتوں کے کالے کوے سفید کرتے رہتے ہیں یا پھر سیاستدانوں کی خواہشوں کے گندے پوتڑے دھوتے رہتے ہیں، سرکاری افسر کو افسر سرکار بناتی ہے لیکن یہ بستہ گیری سیاستدانوں کی کرتے ہیں، یہ سچ ہے، ہمارے انتظامی نظام میں آج بھی اچھے، نیک اور ایماندار افسر موجود ہیں، یہ نظام اگر ابھی تک رینگ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ایماندار اور نیک لوگ ہیں، میں ایسے چند افسروں سے واقف ہوں جو آج بھی سرکاری خزانے سے چائے نہیں پیتے، دفتر کے کاغذ سے ذاتی پرنٹ آؤٹ نہیں لیتے اور بچوں کو سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرنے دیتے مگر یہ لوگ آٹے کا نمک ہیں اور اب رہ گیا ریاست کا چوتھا ستون یعنی صحافت۔

میں صحافت کو قطعاً نیکی، ایمانداری یا فرض شناسی کا مینار قرار نہیں دوں گا، ہمارے شعبے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، اس تالاب میں بھی گندی مچھلیاں تیر رہی ہیں مگر اس کے باوجود یہ ستون مضبوط بھی ہے اور اس پر لوگوں کا اعتماد بھی قائم ہے، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، کیا لوگ انصاف لینے کے لیے، بیورو کریسی کی تلوار سے بچنے کے لیے اور ارکان اسمبلی کے مظالم سے محفوظ رہنے کے لیے میڈیا کا سہارا نہیں لیتے، کیا میڈیا پارلیمنٹ، بیورو کریسی اور عدلیہ کو متحرک نہیں کرتا اور کیا یہ ملک کا واحد ایسا شعبہ نہیں جس نے پورے ملک کو باندھ رکھا ہے، جو ملک کے اتحاد، استحکام اور مضبوطی کا ضامن ہے، ملک میں جج، افسر اور سیاستدان اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں لیکن میڈیا کا احترام آج بھی باقی ہے، لوگ میڈیا ورکرز سے آج بھی محبت کرتے ہیں، یہ انھیں دعائیں بھی دیتے ہیں، ہم عوام کی خوشیوں میں باجے کی حیثیت رکھتے ہیں اور غم میں آنسوؤں کی۔

اللہ کے کرم سے ہمارے بغیر خوشیاں مکمل ہوتی ہیں اور نہ ہی دکھ اور حکومت اور عوام دونوں اس حقیقت سے واقف ہیں مگر مجھے اس کے باوجود محسوس ہوتا ہے، ملک کے اس چوتھے ستون کو بھی توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، حکومتیں کل تک صحافیوں کو خریدنے کی کوشش کرتی تھیں، ملک کی ہر جماعت، ہر حکومت کے اپنے اپنے صحافی ہوتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی تھی تو ان کے ذاتی صحافی چھلانگ لگا کر پہلی صف میں آ بیٹھتے تھے، یہ صدارتی جہازوں میں بھی سوار ہوتے تھے اور ہیلی کاپٹروں میں بھی، یہ پلاٹس بھی پاتے تھے اور ٹھیکے اور پرمٹ بھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آتی تھی تو ان کے صحافی پہلی صف میں فروکش ہو جاتے تھے، ان صحافیوں میں کچھ سورج مکھی صحافی بھی ہوتے تھے، یہ پیپلز پارٹی کے دور میں "جئے بھٹو" بن جاتے تھے اور ن لیگ کے دور میں "میاں دے نعرے وجن دے" ہو جاتے تھے لیکن الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد یہ لوگ فارغ ہو گئے اور صحافت کا کریکٹر مضبوط ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ صحافیوں بالخصوص بڑے، با اثر اور رائے ساز صحافیوں کو خریدنا مشکل ہو گیا، صحافی اینکروں نے اپنی دنیا آباد کی اور یہ ڈرے، متاثر ہوئے اور لالچ میں آئے بغیر رائے سازی کا کام کرتے گئے، آج یہ صحافی اور ان کا میڈیا ملک کا بااثر ترین طبقہ ہے، یہ لوگوں کی سوچ کے زاویے بدل دیتے ہیں اور یہ بات باقی تینوں ستونوں کے لیے قابل قبول نہیں چنانچہ یہ اب چوتھے ستون کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ملک میں اب تک 74 صحافی مار دیے گئے، صحافتی تنظیموں نے اس پر شور کیا مگر حکومتوں نے صحافیوں کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا، بلوچستان کے بعض علاقوں میں پریس کلبوں کو تالے لگ چکے ہیں اور صحافی نقل مکانی پر مجبور ہیں لیکن صوبائی اور وفاقی حکومت نے کچھ نہ کیا، صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہیں، صحافی اغواء بھی ہوئے، ان پر تشدد بھی ہوا، ہمارے دوست عمر چیمہ کے ساتھ کیا ہوا؟ ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں صحافیوں کو بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر بھی کمپین چلاتی ہیں، صحافیوں کے جعلی سکینڈل بھی بنائے جاتے ہیں اور انھیں دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز بھی ملتی ہیں، مجھے ساہیوال سے دھمکیوں اور گالیوں بھرے ایس ایم ایس اور فون آتے تھے، میں نے ایف آئی آر درج کرائی لیکن ملزم گرفتار نہ ہو سکا اور صحافیوں کے فون بھی ٹیپ ہوتے ہیں مگر شکایت کے باوجود حکومتوں نے کچھ نہیں کیا، حکومتیں میڈیا کو معاشی دباؤ میں لانے کے لیے اشتہارات کو بھی بطور دباؤ استعمال کررہی ہیں، یہ پسندیدہ میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات کا زیادہ کوٹہ دیتی ہیں اور ناپسندیدہ اخبارات اور چینلز کے اشتہارات کے بل روک لیتی ہیں، اس رقم کے ذریعے چینلز کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، سیاسی جماعتیں اینکر پرسنز اور کالم نگاروں کو جانبدار ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں .

آپ کو جو صحافی پسند نہ آئے یا آپ کو اس کا سوال اچھا نہ لگے، آپ اسے بڑے آرام سے بلیک میلر، بھارتی جاسوس یا غدار قرار دے دیتے ہیں اور ہم اس ظلم کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کرا سکتے، ملک میں پچھلے تین ماہ سے دو بڑے میڈیا ہاؤسز کے درمیان جنگ چل رہی ہے، ہمارے ایک ساتھی اینکر پرسن نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس پر سنگین الزام لگائے، ٹیلی ویژن پر اس میڈیا ہاؤس کو یہودی ایجنٹ بھی کہا گیا اور بھارتی ایجنٹ بھی، میڈیا ہاؤس پر ٹیکس چوری کا الزام بھی لگ رہا ہے، دوسری طرف سے اینکر پرسن کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے اور عدالتوں میں مقدمے بھی دائر ہو چکے ہیں، یہ جنگ دو ماہ سے چل رہی ہے لیکن حکومت مداخلت کر رہی ہے اور نہ ہی عدالتیں فیصلہ کر رہی ہیں، فریقین عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور جج اگلی تاریخ دے دیتے ہیں، میری عدلیہ سے درخواست ہے آپ ان مقدمات کا ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کریں، الزام لگانے والا سچا ہے تو ملزمان کے خلاف فیصلہ دیں اور اگر ملزمان بے قصور ہیں تو الزام دینے والے کو سزا دیں تا کہ یہ معاملہ نبٹ سکے اور میڈیا بدنام نہ ہو، عدالت کی تاخیر اس تماشے کو ہوا دے رہی ہے، یہ معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے، حکومت کو بھی چاہیے، یہ میڈیا کے لیے ثالثی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن اس نوعیت کے تنازعوں کو فوری طور پر حل کر دے تا کہ ملک کا نقصان نہ ہو۔

یہ سارے معاملات اپنی جگہ پر لیکن اب میڈیا پر حملے بھی شروع ہو چکے ہیں، ایکسپریس کراچی کے دفتر پر چھ ماہ میں تین حملے ہوئے، تیسرے حملے میں ہمارے تین ساتھی شہید ہو گئے، اس سانحے پر پورے ملک کے پریس کلب اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، یہ جلسے بھی کر رہی ہیں اور جلوس بھی نکال رہی ہیں، ہم اینکرز آر آئی یو جے اور پی ایف یو جے کی کال پر بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر پروگرام کر رہے ہیں لیکن صحافیوں اور میڈیا کے دفاتر کو سیکیورٹی دینا تو دور حکومت ہمیں تسلی تک نہیں دے رہی، وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کے سوا کسی وفاقی وزیر نے ایکسپریس سے اظہار افسوس نہیں کیا، حکومت کا کوئی وزیر، کوئی نمایندہ صحافیوں کے احتجاج میں شامل نہیں ہوا، حکومت کے کسی کارندے کو شہداء کے لواحقین سے ملاقات کی توفیق بھی نہیں ہوئی، ہم صحافی فوج، پولیس اور ایف سی کے شہداء کے لیے پھول رکھتے ہیں، ان کے لیے موم بتیاں بھی روشن کرتے ہیں اور ان موم بتیوں اور پھولوں کو کوریج بھی دیتے ہیں مگر ہمارے ساتھیوں کے لیے کسی نے پھول رکھے اور نہ ہی موم بتیاں جلائیں۔ ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کی عیادت کے لیے پندرہ سو گلدستے لے کر اے ایف آئی سی پہنچ جاتی ہے، پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم مل کر جنرل مشرف کے لیے احتجاج کرلیتی ہیں لیکن ہمارے لیے کسی کو احتجاج کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ ہی اظہار افسوس کی اور وزیر داخلہ چوہدری نثار فوج سے اظہار افسوس کے لیے چلے جاتے ہیں مگر یہ شہید صحافیوں کو انسان اور پاکستانی نہیں سمجھتے، یہ تمام حالات کیا ثابت کرتے ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں ملک کے تمام ادارے چوتھے ستون کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں، ہمیں طالبان بھی مار رہے ہیں اور طالبان سے لڑنے والے بھی، ہمارے لیے دونوں برابر ہیں، دونوں ایک جیسے ہیں، ہم سب کے ہیں لیکن ہمارا کوئی نہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.