مجھے دعا کرنے کا اصل طریقہ ایک ٹرینر نے سکھایا تھا، یہ جسمانی ورزش کا استاد تھا اور میرے جیسے "مڈل ایج" لوگوں کو ایکسرسائز کے طریقے سکھاتا تھا۔ میں اکثر سوچتا تھا ہم میں سے اکثر لوگ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں گھنی داڑھی رکھنے کی توفیق بھی دیتا ہے، ہم وضو میں بھی رہتے ہیں، ہم عمرے بھی کرتے ہیں، حج کی سعات بھی کثرت سے حاصل کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں لیکن اس عبادت اور ریاضت کا ہماری ذات پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔
ہم چالیس چالیس سال کی نمازوں کے بعدبھی متشدد ہوتے ہیں، ہم شیعہ اور سنی ہوتے ہیں، ہم جاہل بھی رہتے ہیں، ہم جی بھر کر منافع بھی کھاتے ہیں، ہم ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں، ہم کم بھی تولتے ہیں، ہم کم بھی ناپتے ہیں، ہم دودھ میں پانی بھی ڈالتے ہیں، ہم جعلی ادویات بھی بناتے ہیں اور ہم اپنے ملازمین کا حق بھی مارتے ہیں۔
میں سوچتا تھا ہماری نمازیں، روزے اور حج ہماری ذات پر اثر کیوں نہیں چھوڑتے جب کہ اللہ تعالیٰ دعویٰ کرتا ہے مومن بے ایمان نہیں ہو سکتا، مومن سخت گیر بھی نہیں ہو سکتا، مومن بے انصاف اور منافق بھی نہیں ہو سکتااور مومن متشدد اور انتہا پسندبھی نہیں ہو سکتا لیکن مومن ہونے کے باوجودہم میں اسلام کی کوئی صفت دکھائی نہیں دیتی، کیوں؟ ہم اپنے اسلام سے اپنے بھائیوں اور بہنوں تک کو متاثر کیوں نہیں کر پاتے؟ میں اکثر سوچتا تھا، پریشان ہوتا تھا اور پھردوسرے بے بس اور کم عقل مسلمانوں کی طرح اسے ایمان کی کم زوری قرار دے کر خاموش ہو جاتا تھا لیکن پھر مجھے وہ ٹرینر ملا اوراس نے میرے ذہن کی ساری گرہیں کھول دیں۔
اس نے بتایا ایکسرسائز کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے آپ جب کسی مسل کی ایکسرسائز کریں تو آپ دوران ایکسر سائز اس مسل کے بارے میں سوچیں۔ اس کا کہنا تھا مثلاً آپ اگربازوئوں کی ایکسرسائز کر رہے ہیں، آپ بازوئوں کی مدد سے وزن اٹھارہے ہیں تو آپ کو اپنی ذہنی یکسوئی بازوئوں پر رکھنی چاہیے، آپ کے بازوئوں کے مسل بہت جلد ڈویلپ ہو جائیں گے، اسی طرح آپ چھاتی کی ایکسرسائز کر رہے ہوں تو آپ ایکسر سائز کے دوران چھاتی کے بارے میں سوچیں، آپ کی چھاتی کے مسل پھیل جائیں گے۔
اس کا کہنا تھاہمارا دماغ طاقت کا ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے، ہم جب اس ہیڈ کوارٹر کے بغیر ایکسرسائز کرتے ہیں تو ہمارے مسلز پر وزن، بوجھ یا کھچائو تو آتا ہے لیکن انہیں طاقت نہیں ملتی چناں چہ یہ اس رفتار سے نہیں بڑھتے جس رفتار سے ہم انہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔
اس کا کہنا تھا ہم جب اپنے بازوئوں پر وزن ڈالتے ہوئے بازوئوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ہیڈ کوارٹر میں جمع طاقت بازوئوں پر شفٹ ہو جاتی ہے اور یوں بازوئوں کو اندر اور باہر دونوں طرف سے طاقت ملتی ہے اور ہمارے بازوئوں کے مسل پھیلنے لگتے ہیں۔
اس کا کہنا تھا یکسوئی کے بغیر بھی مسل پھیلتے ہیں لیکن ان کے پھیلنے کی شرح محض 30 فیصد ہوتی ہے اور ہم اگر اس 30فیصد میں دماغ یا یکسوئی کا 70فیصد شامل کر لیں تو ہمارے نتائج سو فیصد ہو جائیں گے۔ یہ لیکچر محض ایکسرسائز کے بارے میں تھا لیکن اس لیکچر کے دوران مجھ پر عبادت اور دعا کی رمز بھی کھل گئی، میں جان گیاہم چالیس چالیس سال عبادت کرنے کے باوجود اس عبادت کے اثرات سے "محفوظ" کیوں رہتے ہیں، ہم نیکی اور پارسائی کے دریا میں غوطے لگانے کے باوجود سوکھے کیوں رہتے ہیں، پارسائی اور عبادت ہماری ذات پر اثر کیوں نہیں کرتی؟
اس کی وجہ صرف اور صرف یکسوئی ہوتی ہے، عبادت کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہےاور انسان کی تمام اچھائیاں بھی روح ہی میں سٹور ہوتی ہیں، علم ہو، سچ ہو، ایمان ہو، صفائی ہو، شائستگی ہو، تہذیب ہو، اخلاق ہو اور سماجی، معاشی اور کاروباری اخلاقیات ہوں یہ سب انسانی روح میں جمع ہوتی ہیں، ہمیں ان میں سے چند اچھائیاں، چند خوبیاں درکارہوتی ہیں، ہم اگر عبادت کے دوران درکار اچھائیوں کے بارے میں سوچتے رہیں، ہم انہیں اپنی یکسوئی کا حصہ بنا لیں تو مسلز کی طرح ہماری یہ اچھائیاں بھی مضبوط ہونے لگتی ہیں اور یہ چند دنوں، چند برسوں میں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔
مثلاً اگر کسی شخص کو علم چاہیے اوریہ نماز کے دوران اللہ سے علم مانگنا شروع کر دے، یہ ذہن میں علم کو رکھ کر نماز شروع کرے، یہ تسبیح کے دوران بھی اللہ سے علم مانگتا رہے، یہ وضو کرتے ہوئے، صدقہ کرتے ہوئے، دوسرے لوگوں کو راستہ بتاتے ہوئے اور روزے کے دوران اللہ سے علم مانگے تو اس کی روح میں چھپی طاقت اس کی دعا کے ساتھ شامل ہوجائے گی اور یوں اس پرعلم کے دروازے کھل جائیں گے۔
اسی طرح کوئی دکان دار ایمان دار ہونا چاہے، یہ ناپ، تول اور لین دین میں کھرا ہونا چاہے، یہ جعل سازی اور فراڈ سے بچنا چاہے تو یہ اس نیت کو اپنی نماز، اپنی عبادت کا حصہ بنا لے، یہ کوئی بھی تسبیح کرے لیکن نیت میں ایمان داری رکھے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایمان داری کا سبب کھول دیتا ہے۔
اسی طرح کوئی شخص صاف ستھرا رہنا چاہتا ہے لیکن اس کا کام بدبودار یا گندا ہے، یہ شخص تسبیح یا نماز کے دوران صفائی کی نیت کر لے اور پوری نماز کے دوران اللہ تعالیٰ سے صفائی مانگتا رہے تواللہ تعالیٰ اس پر بھی صفائی کے اسباب کھول دے گا لیکن یہ تمنا، یہ خواہش نیت کی شکل میں ہونی چاہیے الفاظ یا فقروں کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ لفظوں اور فقروں میں بناوٹ آ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ بناوٹ کو پسند نہیں کرتا۔
میں نے اس نقطے کی آگہی کے بعد قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا پورا قرآن مجید، احادیث اور سیرت اسی نقطے کے ارد گرد پھیلی ہے، پوری نماز، پورے روزے، پورے عمرے اور پورا حج اسی نقطے کے گرد گھومتا ہے، نماز کی زبان عربی ہے اور عرب نماز کے دوران اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ مانگتے ہیں جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر اسباب کھول دیتا ہے۔
ہماری زبان عربی نہیں چناں چہ ہم نے نماز رٹ رکھی ہےاور ہم یہ رٹی ہوئی نماز مکینیکل انداز میں پڑھ کر واپس آ جاتے ہیں، آپ آج سے غور کریں، ہم میں سے اکثر لوگوں کا دماغ نماز کے دوران مختلف سمتوں میں بھٹکتا ہے، ہم نماز کے دوران دماغ میں کسی نہ کسی کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں، ہم کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں، ہم پرانے حساب جوڑنے میں لگ جاتے ہیں یا بچپن کے بچھڑے ہوئے دوستوں کو یاد کرنے لگتے ہیں، ہم اگر اپنی اس سوچ کی زبان پر غور کریں تو یہ زبان ہماری مادری زبان نکلے گی، گویا ہم نماز عربی میں پڑھتے ہیں لیکن سوچ پنجابی، سندھی، بلوچی یا پشتو میں رہے ہوتے ہیں اور ہماری یہ سوچ کیاہوتی ہے؟
یہ جو بھی ہو یہ طے ہے اس کا تعلق نماز کے ساتھ نہیں ہوتا چناں چہ نماز کے دوران ہماری سوچ بھٹکتی رہتی ہے اور ہم اس دوران روبوٹ کی طرح مکینیکل نماز ادا کرتے رہتے ہیں، ہم امام صاحب کے پیچھے خود کار نظام کے تحت رسومات ادا کرتے جاتے ہیں اور پنجابی میں دنیاداری کے بارے میں سوچتے جاتے ہیں اور یوں ہم خود کو بہتر بنانے کا موقع کھو دیتے ہیں، ہمارے پاس اپنی عبادت کو بہتر بنانے یا اس سے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ہم نماز کو پوری طرح سمجھ کر ادا کریں، ہمیں ایک ایک لفظ کی سمجھ آرہی ہو اور ہم اپنی خواہشوں، اپنی نیتوں کو ان لفظوں کے ساتھ جوڑرہے ہوں، ہم علم، خوش حالی، ایمان داری اور صفائی کو سورۃ کوثر کے ساتھ شامل کر رہے ہوں تو مجھے یقین ہے ہمارے لئے اسباب کھل جائیں گے۔
دوسرا ہم نماز عربی میں ادا کریں لیکن اپنی خواہش، اپنی نیت اور اپنی دعا کو اپنی مادری زبان میں اس کے ساتھ جوڑ دیں، ہم خیال کو زیادہ نہ بھٹکنے دیں، ہم اسے اپنی دعا کے قریب قریب رکھیں، ہم اگر علم چاہتے ہیں تو ہم اس علم کی نیت لے کر مسجد جائیں اور نماز کے دوران اپنی اس نیت کو تازہ رکھیں، ہماری سوچیں، ہمارے خیالات اس نیت کے ساتھ جڑے رہیں، اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔
میں اللہ کے کرم سے پچھلے 20برس سے اس فارمولے کے تحت تسبیحات کر رہا ہوں اور میں نے ان تسبیحات کے دوران للہ تعالیٰ سے جو بھی مانگا اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے عنایت کر دیا اور اس عنایت میں ایسی ایسی خامیوں سے چھٹکارا بھی شامل ہے جن کے بارے میں میرا خیال تھا یہ میری فطرت کا حصہ ہیں اور انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے میری ان خامیوں کو خوبی میں بدل دیا چناں چہ آپ میرے تجربے کی بنیاد پر یہ فارمولا استعمال کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ پر بھی کرم کرے گا۔