میں شیو کر رہا تھا، میرے باتھ روم کا دروازہ بجا کر بتایا گیا "بچی کی طبیعت زیادہ خراب ہے" مجھے باہر سے افراتفری اور بھاگ دوڑ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں، میں نے شیو درمیان میں چھوڑی، کپڑے تبدیل کیے اور باہر آگیا، بیٹی نیم بے ہوش تھی، میں نے بچی کو اٹھایا، باہر کی طرف دوڑا لیکن اچانک گھر کے سارے فون بجنے لگے، میں نے دوڑتے دوڑتے فون اٹھایا، یہ دوسری بری خبر تھی، میری دوسری بیٹی اسکول میں بے ہوش ہو گئی تھی۔
مجھے بتایا گیا، بیٹی کے پیٹ میں خوفناک درد ہوا، وہ گری اور تڑپنا شروع کر دیا، میں نے ڈرائیور کا پتہ کیا، وہ عموماً بچوں کو اسکول چھوڑ کر گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے، وہ اس وقت اسکول سے دور تھا، میں نے بیٹے کو اٹھایا، اسے اپنی گاڑی دی اور بچی کے اسکول کی طرف دوڑا دیا، اب صورتحال یہ تھی، میری گیارہ سال کی ایک بیٹی درد سے تڑپ تڑپ کر اسکول میں بے ہوش پڑی تھی اور دوسری چار سال کی بچی میرے کندھے پر نیم بے ہوش لیٹی تھی اور میں بے بسی سے ٹہل رہا تھا، میں گھر سے باہر آ گیا، میں جہاں رہتا ہوں وہاں ٹیکسیاں ملنا محال ہے۔
میں نے سوچا میں بچی کو پیدل اسپتال لے جاتا ہوں لیکن کون سے اسپتال؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میرے ذہن میں میرے ایک دوست کا خیال آیا، میں نے اسے فون کیا، وہ بھی واش روم میں تھا، میں نے اسے ایمرجنسی بتائی، وہ سلیپنگ سوٹ میں ڈرائیو کرتا ہوا پہنچ گیا، ہم بچی کو لے کر اسپتال روانہ ہو گئے، میں نے مختلف اسپتالوں میں فون کرنا شروع کیے لیکن اس دن ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے، پمز اور پولی کلینک دونوں میں ڈاکٹر موجود نہیں تھے، پرائیویٹ اسپتالوں میں رابطے شروع کیے۔
میرے گھر کے قرب و جوار میں موجود پرائیویٹ اسپتالوں میں اس وقت کوئی چائلڈ اسپیشلسٹ نہیں تھا، میں رابطے کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے شفاء اسپتال سے مثبت جواب مل گیا، ہم شفاء انٹرنیشنل کی طرف چل پڑے، میں نے بیٹے سے رابطہ کیا، اسے ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بارے میں بتایا اور بیٹی کو شفاء اسپتال لانے کا مشورہ دیا، ہم زیرو پوائنٹ سے فیض آباد کی طرف مڑے تو وہاں سڑک زیر تعمیر تھی اور سی ڈی اے نے آئی ایٹ کا وہ موڑ بند کر دیا تھا جو شفاء اسپتال جاتا ہے، ہم پھنس گئے، واپس جانے کا راستہ نہیں تھا اور یوٹرن بہت آگے تھا، ہم بہر حال آگے بڑھتے رہے۔
بچی اس دوران مسلسل قے کرتی رہی، ہم پانچ کلو میٹر کا چکر لگا کر واپس اسپتال کے روڈ پر آئے، رش بھی تھا اور اس رش اور افراتفری نے بے تحاشہ وقت ضایع کیا، ہم بمشکل اسپتال کے گیٹ پر پہنچے، گیٹ پر پہنچ کر معلوم ہوا گاڑی اندر لے جانے کے لیے پچاس روپے کی پارکنگ سلپ ضروری ہے اور ہم دونوں افراتفری میں پرس گھر ہی بھول آئے تھے، میں نے اپنے دوست اور گاڑی کو وہیں چھوڑا اور بچی کو اٹھا کر پیدل اندر آ گیا، ایمرجنسی میں بچی کا علاج شروع ہو گیا۔
بیٹا بھی تھوڑی دیر میں دوسری بیٹی کو لے کر اسپتال پہنچ گیا، وہ درد سے تڑپ رہی تھی، پتہ چلا، وہ پہلی کلاس لے رہی تھی تو اسے اپینڈکس کا شدید درد اٹھا، اس نے ٹیچر کو بتایا لیکن ٹیچر نے اسے مشورہ دیا، آپ تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، درد شدید تھا، بچی نے سر ڈیسک پر رکھا، آنکھیں بند کیں اور بے ہوش ہو گئی، کلاسیں ہوتی رہیں، ٹیچرز آتی رہیں، جاتی رہیں لیکن بچی ڈیسک پر بے ہوش پڑی رہی، کسی نے اس کا نوٹس تک نہ لیا یہاں تک کہ بریک ہو گئی۔
یہ بریک کے دوران اپنی سیٹ سے نہ اٹھی تو اس کی دو کلاس فیلوز متوجہ ہوئیں، انھوں نے اسے ہلایا جلایا، اس نے آنکھیں کھولیں اور انھیں بتایا " میں شدید بیمار ہوں " یہ بچیاں اسے اٹھا کر وائس پرنسپل کے آفس لے گئیں لیکن چپڑاسی نے انھیں اندر نہیں جانے دیا، یہ بتاتی رہیں یہ بچی بیمار ہے، ہم وائس پرنسپل سے سلپ لے کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی ہیں لیکن چپڑاسی نہ مانا، بچی کو چپڑاسی کی کرسی پر بٹھا دیا گیا، معاون بچیاں دائیں بائیں بھاگتی رہیں لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی، اسکول کی ایک آیا بچی کی حالت دیکھ رہی تھی، اس نے بچی کو اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی، ڈاکٹر نے اس کے منہ میں "پین کلر" ٹھونسی اور کلاس کی طرف روانہ کر دیا، بچیاں اسے لے کر کلاس کی طرف روانہ ہوئیں لیکن یہ سیڑھیوں پر گر گئی۔
بچیاں گھر فون کرنے کے لیے دوڑیں، پتہ چلا فون پر کوڈ لگا ہے اور کلرک کوڈ کھولنے کے لیے تیار نہیں، یہ بھاگ کر گیٹ پر گئیں، کسی ڈرائیور سے فون لیا اور یوں ہم تک اطلاع پہنچی، میرا بیٹا بھاگ کر اسکول پہنچا اور بچی کو لے کر اسپتال آ گیا لیکن اس وقت تک اپینڈکس کو خراب ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔
ڈاکٹر پریشان تھے، آپریشن کا فیصلہ ہوا، چائلڈ سرجن تلاش کیا گیا، بچی کا آپریشن ہوا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، بچی کی جان بچ گئی تاہم میں تین دن اسپتال کا چکر لگاتا رہا، میں نے ان تین دنوں میں چند نئی باتیں سیکھیں، میں یہ باتیں بچوں، والدین، اسکولوں کی انتظامیہ، حکومت اور اسپتالوں کی مینجمنٹ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، میرا خیال ہے ہم اگر ذرا سی توجہ دیں تو ہم کم از کم اس نوعیت کے مسائل ضرور حل کرسکتے ہیں۔
ملک کے مختلف اسکولوں میں بچوں کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں، یہ اجازت ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس سے بے راہ روی بھی پھیلتی ہے اور بچوں کی پڑھائی کا ہرج بھی ہوتا ہے لیکن اگر والدین اور اسکول اس پالیسی میں ذرا سی نرمی کر لیں تو بچے ایمرجنسی میں گھر سے رابطہ کر سکیں گے، والدین اور اساتذہ اگر بچوں کو ایسے سستے موبائل فون اسکول لانے کی اجازت دے دیں جو صرف فون کرنے کے کام آئیں، جن میں کیمرہ اور دوسرے ماڈرن فیچرز نہ ہوں اور یہ فون بھی بند ہوں اور بیگ میں ہوں اور بچے یہ فون صرف ایمرجنسی میں استعمال کر سکیں اور فون کے کنکشن والدین کے نام ہوں۔
یہ پوسٹ پیڈ ہوں اور والدین بل دیکھ کر بچوں کے فون کو مانیٹر کر سکیں تو اس سے بچے ایمرجنسی میں والدین سے رابطہ کر سکیں گے، یہ اگر ممکن نہ ہو تو ملک کے تمام شہری اسکولوں میں فوری طور پر ایک ایک پی سی او یا پے فون لگا دیا جائے تا کہ بچے ایمرجنسی میں اپنے گھر رابطہ کر سکیں، حکومت فوری طور پر اسکولوں میں ایک میڈیکل روم کا اضافہ بھی کرائے اور اسکولوں کے لیے ایک ڈاکٹر اور ایک نرس بھی بھرتی کی جائے، اس اقدام سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی نوکریاں ملیں گی اور بچے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔
ملک کے تمام بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اسکول بچوں کی ہیلتھ انشورنس کرائیں، یہ رقم فیس میں ایڈجسٹ کر لی جائے، اسکول بچوں کو قریب ترین اسپتالوں میں بھی رجسٹر کرائیں، بچوں کا ماہانہ میڈیکل چیک اپ بھی لازم قرار دے دیا جائے، بچوں کی باقاعدہ میڈیکل فائل بنے اور یہ فائل میٹرک کی سند کی طرح پوری زندگی بچوں کے ساتھ رہے، اسکول چھ ماہ بعد ڈاکٹروں کی ٹیم بلائیں، یہ ٹیم اساتذہ کو مختلف بیماریوں اور ان کی علامات کے بارے میں بریفنگ دے تا کہ اساتذہ کو جب کسی بچے میں یہ علامتیں نظر آئیں تو یہ فوراً بچے کے والدین کو بھی اطلاع کریں اور ڈاکٹر کو بھی مطلع کریں۔
اسکول ایک ایک ایمبولینس بھی خریدیں، یہ ایمبولینس ہر وقت اسکول میں رہے اور ورکنگ پوزیشن میں ہو تا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بچے کو بروقت اسپتال منتقل کیا جا سکے، آپ بے شک والدین سے بعد ازاں ایمبولینس چارجز وصول کر لیں لیکن بچے کو فوری ریلیف ملنا چاہیے، اسکول اگر یہ افورڈ نہیں کر سکتے تو یہ کم از کم کسی ایمبولینس سروس سے ایمرجنسی کا معاہدہ تو کر سکتے ہیں، یہ معاہدہ کریں اور ایمبولینس سروس کا فون نمبر تمام کلاس رومز میں لکھ کر لگا دیں یا بچوں کو لکھوا دیں، بچے ایمرجنسی میں خود ہی ایمبولینس کو کال کر لیں، ایمبولینس کے اخراجات بعد ازاں والدین سے وصول کر لیے جائیں۔
بچوں اور اساتذہ کے لیے فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ بھی لازم قرار دے دی جائے، آپ پہلی کلاس کے بچوں کو ابتدائی طبی امداد سکھائیں اور یہ سلسلہ میٹرک تک جاری رکھیں، یہ سلسلہ بچوں کو ذمے دار بھی بنائے گا اور طبی لحاظ سے خود کفیل بھی۔ اسکولوں میں موجودہ صورتحال میں معمولی ایمرجنسی کے بعد بچے اور اساتذہ دونوں ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اسکولوں میں پرنسپل، وائس پرنسپل اور پرووائس پرنسپل کے دفاتر کے باہر ایمرجنسی بیل لگا دی جائے۔
بچے کو اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو یہ ایمرجنسی گھنٹی بجا کر اسکول انتظامیہ کو اپنی طرف متوجہ کر لے کیونکہ آج کل اسکولوں میں بھی میٹنگز عام ہیں اور بچے ایمرجنسی کے عالم میں بھی ان میٹنگز کے خاتمے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، حکومت کو ملک بھر کے پرائیویٹ اسکولوں کے لیے بھی کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے، حکومت کیمپس کا سائز بھی طے کرے، اسکول کے لیے لازم سہولتوں کی فہرست بھی بنائے اور فیس کا سٹرکچر بھی طے کرے۔
ملک بھر میں اس وقت والدین فیسوں میں اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، آپ یہ آوازیں سن کر کوئی پالیسی کیوں نہیں بناتے؟ میری حکومت سے درخواست ہے، آپ جب کوئی سڑک بنانے لگیں تو یہ معلوم کر لیں راستے میں کوئی اسپتال یا تعلیمی ادارہ تو نہیں آ رہا، اگر آ رہا ہو تو آپ سڑک بند کرنے سے قبل تعلیمی ادارے اور اسپتال کو متبادل راستہ دیں یا پھر آپ اسپتال اور اسکول کی طرف مڑنے والا حصہ آخر میں بنا لیں، اس سے لوگوں کی تکلیف کم ہو جائے گی۔
میری پرائیویٹ اسپتالوں کی انتظامیہ سے بھی درخواست ہے، آپ ایمرجنسی گیٹ پر پارکنگ فیس چارج نہ کریں کیونکہ بے شمار لوگ ایمرجنسی میں پرس کے بغیر اسپتالوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، یہ لوگ جب ایمرجنسی میں گیٹ پر پہنچتے ہیں تو ان سے پارکنگ فیس طلب کرنا اور انھیں جیبیں ٹٹولنے پر مجبور کرنا زیادتی ہے اور یوں مریض کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے، ہم نے بدقسمتی سے ملک میں ہیلتھ انشورنس کا کلچر بھی ڈویلپ نہیں کیا، ملک میں ڈاکٹروں، لیبارٹریوں، اسپتالوں اور ادویات کی صورتحال شہریوں کے سامنے ہے، آپ پرائیویٹ اسپتالوں میں چلے جائیں تو آپ کو وہاں بھی وقت اور بستر نہیں ملتا، ملک میں جب یہ حالات ہوں تو حکومت کو ہیلتھ انشورنس لازم قرار دے دینی چاہیے، بالخصوص بچوں کی انشورنس ضروری ہونی چاہیے، والدین سالانہ یا ماہانہ چند ہزار روپے دے کر بچوں کے علاج معالجے کے دکھ سے آزاد ہو سکتے ہیں، حکومت، اسکول اور والدین کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
بچے والدین کی سب سے بڑی کمزوری ہوتے ہیں، والدین کو انھیں کانچ کے برتنوں کی طرح سنبھالنا چاہیے کیونکہ یہ اگر ایک بار ہاتھ سے پھسل جائیں تو پھر یہ کانچ کی طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور یہ اگر ایک بار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیں تو پھر دنیا کا کوئی سائنس دان کانچ کے ان ٹکڑوں کو دوبارہ نہیں جوڑ سکتا، آپ کانچ کو کانچ کی طرح سنبھالیں، اسے ٹھوکروں سے بچائیں۔