Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pahar Rote Nahe Hain Janab Sadar

Pahar Rote Nahe Hain Janab Sadar

ذوالفقار علی بھٹو آخری وقت تک اعتماد کی آخری سیڑھی پر بیٹھے تھے، وہ سمجھتے تھے میں ایشیا کا سب سے بڑا لیڈر ہوں، سعودی عرب کے شاہ خالد بن عبدالعزیز میرے ذاتی دوست ہیں، کرنل قذافی میرے جگری یار ہیں، کابل میں محمد دائود خان میرے دوست ہیں اور ایران کا شاہی خاندان بھی میرا فیملی فرینڈ ہے، چین میرے ساتھ کھڑا ہے، میں مشرقی یورپ کا ہیرو ہوں، میں نے 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کو بھارت کی قید سے رہائی دلائی، میں ان فوجیوں اور ان کے خاندانوں کا محسن ہوں اور میں لیاری سے لے کر خیبر تک قائد عوام بھی ہوں، پاکستان کے دس کروڑ عوام میری ہاں پر جان قربان کرتے ہیں اور میں فخر ایشیا بھی ہوں، جنرل ضیاء الحق جیسا کمزور مولوی مجھے پھانسی نہیں دے سکے گا، بھٹو صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے تھے"مجھے پھانسی دی گئی تو ہمالیہ روئے گا" ذوالفقار علی بھٹو کے یہ خیالات درست تھے، ان کے اندازے اور تجزیے بھی ٹھیک تھے مگر وہ ایک بات بھول گئے اور وہ بات "وقت" تھی، وہ وقت کے عنصر کو فراموش کر بیٹھے تھے، ہماری زندگی کا سب سے بڑا عنصر وقت ہوتا ہے، وقت بدل جائے تو ہر چیز اپنے اپنے مقام پر ہونے کے باوجود اپنی وقعت، اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے، بھٹو صاحب حقیقتا فخر ایشیا تھے، یہ بین الاقوامی لیڈر بھی تھے۔

یہ قائد عوام بھی تھے اور یہ ہمالیہ کے رشتے دار بھی تھے لیکن یہ سب ماضی کی باتیں تھیں، ان کا مقام، ان کا مرتبہ ماضی کا قصہ بن چکا تھا، دنیا بدل چکی تھی، سوویت یونین افغانستان میں داخل ہو چکا تھا، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو روس سے نبٹنے کے لیے پاکستان میں ایک طاقتور آمر کی ضرورت تھی اور جنرل ضیاء الحق اس کردار کے لیے بہترین اداکار تھے، سعودی عرب اور عرب امارات بھی افغان جہاد کا فیصلہ کر چکے تھے، ایران میں انقلاب آ چکا تھا، شاہ اپنی جان بچاتا پھر رہا تھا، چین سرمایہ دار بننے کا فیصلہ کر چکا تھا اور بھٹو جیسے کردار اس فیصلے کو زخمی کر سکتے تھے، مشرقی یورپ کساد بازاری اور معاشی زوال کا شکار تھا اور اس زوال نے بھٹو صاحب جیسے تمام کردار اس کے ذہن سے محو کر دیے تھے، افغانستان میں تیزی سے حکومتیں تبدیل ہو رہی تھیں، بھٹو کی جاگیردارانہ سوچ اور آمرانہ فطرت اقتدار کے دنوں میں ان کے ساتھیوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بوتی آئی تھی، یہ بیج 1978ء تک تناور درخت بن چکے تھے اور یہ لوگ اب ان درختوں کے سائے میں بیٹھ کر بھٹو فیملی کے دکھوں کو انجوائے کر رہے تھے۔

پارٹی کے قائدین خود ساختہ جلاوطنی میں چلے گئے تھے یا پھر انھوں نے آمر سے صلح کر لی تھی اور عوام نے روٹی، کپڑے اور مکان کی تلاش میں اپنے قائد کو فراموش کر دیا اور یوں بھٹو صاحب اکیلے رہ گئے، یہ تھے، ان کا مقدمہ تھا، ان کے نالائق وکیل تھے اور جیل کی سلاخیں تھیں، وہ انڈرسٹینڈنگ اور رئیلائزیشن کا وقت تھا، بھٹو صاحب کو ٹھنڈے دل ودماغ سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے تھا، یہ انا کے بانس سے ذرا سا نیچے اترتے اور جان بچانے کے لیے کوئی درمیانہ راستہ نکالتے مگر انسان جب تکبر کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی مت ماری جاتی ہے اور یہ سامنے پڑی اشیا اور دیوار پر لکھی تحریر تک نہیں پڑھ پاتا، بھٹو صاحب کو بھی اپنا انجام نظر نہیں آ رہا تھا، وہ باہر وقوع پذیر تبدیلیوں سے آنکھیں بند کر کے جیل کی دیواروں کو سمجھاتے رہے "میں فخر ایشیا ہوں اور مجھے پھانسی دی گئی تو ہمالیہ روئے گا" وغیرہ وغیرہ۔

اقتدار انسان سے ایسی ایسی غلطیاں کروا دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، بھٹو صاحب نے بھی اپنے اقتدار کے سوا نیزے پر غیر پاکستانی وکلاء کے پاکستان آنے اور مقدمے لڑنے پر پابندی لگا دی تھی، یہ جب خود پھنس گئے اور ان کا اپنے وکلاء سے اعتماد اٹھ گیا تو انھوں نے انٹرنیشنل لائرز بلوانے کا فیصلہ کیا مگر اس وقت ان کا اپنا فیصلہ ان کے پائوں کی بیڑی بن گیا، یہ اپنے ہی پاس کردہ قانون کے مطابق اب کوئی غیر ملکی وکیل نہیں بلوا سکتے تھے اور یوں یہ ان وکلاء پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے جن سے ان کا اعتماد اٹھ چکا تھا، ہم اگر بھٹو صاحب کے مقدمے کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا، ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی نہیں چڑھایا تھا، بھٹو صاحب اپنے تکبر، اپنی ضد اور اپنی انا کے ہاتھوں موت کے پھندے تک پہنچے تھے، کاش بھٹو صاحب وقت کی تبدیلی کو سمجھ جاتے اور یہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی انا کا جھنڈا نیچے کر لیتے تو آج ہماری زخمی تاریخ سے لہو نہ ٹپک رہا ہوتا، ہم آج تک ماضی کا ماتم نہ کر رہے ہوتے۔

جنرل پرویز مشرف بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسی غلطی کر رہے ہیں، یہ ابھی تک 2001ء اور 2006ء کے سیاسی خمار سے باہر نہیں آئے، یہ آج بھی خود کو بین الاقوامی سطح کا لیڈر سمجھ رہے ہیں، یہ آج بھی خود کو وائیٹ ہائوس، کیمپ ڈیوڈ، بکنگھم پیلس، چین کے صدارتی محل اور سعودی شاہ کے دستر خوان پر دیکھ رہے ہیں، یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں، دنیا مجھے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیلڈ مارشل سمجھ رہی ہے، یہ آج بھی افواج پاکستان کو اپنے جوان، اپنے بچے سمجھتے ہیں اور یہ آج بھی یہ خیال کرتے ہیں ملک کے 90 فیصد سیاستدان بھٹکی ہوئی بھیڑیں ہیں اور یہ جس دن لاٹھی لے کر ریوڑ کے قریب پہنچیں گے، یہ تمام بھٹکی ہوئی بھیڑیں ان کے گرد جمع ہو جائیں گی اور یہ پاکستان کو اس کے سنہری ترین دور میں لے جائیں گے، یہ غلط فہمی جنرل پرویز مشرف کو آہستہ آہستہ پھانسی گھاٹ کے قریب لے جا رہی ہے کیونکہ یہ بھی بھٹو صاحب کی طرح وقت کی تبدیلی کو نہیں سمجھ رہے، یہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ وردی آمر کی کھال ہوتی ہے اور یہ کھال جب تک مگر مچھ کے بدن پر رہتی ہے مگرمچھ، مگر مچھ رہتا ہے اور یہ کھال جس دن اتر جاتی ہے یہ ڈسٹ بن بن جاتا ہے، مشرف یہ بھی بھول گئے۔

جارج بش ماضی کا قصہ بن چکا ہے، ٹونی بلیئر فارغ ہو چکا ہے، یو اے ای اپنے آپ کو معاشی دہشت گردی سے بچانے کے لیے کوشاں ہے، سعودی رائل فیملی نئے تعلقات استوار کر چکی ہے، افغانستان 2014ء میں داخل ہو رہا ہے، دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عذاب عظیم سمجھ رہی ہے، ان کی سیاسی ٹیم کو اپنا قبلہ تبدیل کیے چھ سال ہو چکے ہیں، فوج جنرل مشرف کی غلطیوں کی کرچیاں سمیٹ سمیٹ کر تھک چکی ہے، فوج بھی آج عوام کی طرح یہ سمجھتی ہے، جنرل پرویز مشرف غلطیاں نہ کرتے تو آج پاکستان کے پچاس ہزار شہری شہید ہوتے اور نہ ہی فوج کو چھ ہزار جوانوں اور افسروں کی لاشیں اٹھانا پڑتیں اور پیچھے رہ گئی عدلیہ اور حکومت تو ان کے بارے میں ہر شخص پیش گوئی کر سکتا ہے، جنرل پرویز مشرف اور عدلیہ کی لڑائی آج بھی بیدار ذہنوں میں زندہ ہے چنانچہ جنرل مشرف کا انجام دیوار پر لکھا ہے، دیوار کی یہ تحریر پوری دنیا پڑھ رہی ہے ماسوائے جنرل پرویز مشرف کے، جنرل مشرف کو صرف دو چیزیں بچا سکتی تھیں۔

یہ باقی زندگی جلاوطنی میں گزار دیتے، کسی ملک میں انسانی بنیادوں پر پناہ لیتے اور وہاں سوئمنگ، ٹینس اور برج کھیل کر زندگی گزار دیتے یا پھر جنرل پرویز مشرف کے بعد جمہوری حکومتیں پرفارم کرتیں، یہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچا دیتیں مگر یہ نہ ہو سکا، پاکستان پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس نے جنرل مشرف کے لیے پھندا بنایا اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی نااہلیت اب جنرل مشرف کی گردن اس پھندے میں پھنسا رہی ہے، یہ دونوں جماعتیں جانتی ہیں، ہم پرفارم نہیں کر سکے، لوگ ہمارے خلاف ہو چکے ہیں اور یہ نئے آمروں کے لیے آئیڈیل وقت ہوتا ہے اور ہم نے اگر کسی آمر کو عبرت کی نشانی نہ بنایا تو ملک میں نیا مارشل لاء لگ جائے گا اور اس مارشل لاء کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہوگی چنانچہ سیاسی حکومت کے پاس مستقبل کے خطرات سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، یہ جنرل پرویز مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزا دے دیں اور یہ لوگ ایسا کر گزریں گے مگر جنرل مشرف ابھی تک تکبر کے گھوڑے پر بیٹھے ہیں، یہ وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے، ان کا خیال ہے یہ ٹریبونل کے سامنے ان تمام لوگوں کے نام پیش کر دیں گے جو 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی میں ان کے شریک جرم تھے اور یوں عدالت کے لیے جنرل کیانی اور جنرل طارق مجید سمیت بیس پچیس اعلیٰ ترین عہدیداروں کو سزا دینا ممکن نہیں رہے گا اور یہ بچ جائیں گے۔

جنرل مشرف غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ عدالت جس شریک جرم کو بھی بلائے گی وہ جنرل مشرف کے خلاف سلطانی گواہ بن جائے گا اور یہ گواہیاں انھیں سزا کی طرف لے جائیں گی، جنرل مشرف کے بچائو کا اب صرف ایک طریقہ بچا ہے، ملک میں ایک نیا مارشل لاء لگ جائے اور یہ مارشل لاء ماضی کے تمام فیصلوں کو گودام میں پھینک دے اور جنرل مشرف آئین کے سیدھا ہونے سے پہلے پہلے اپنی طبعی عمر پوری کر جائیں، یہ حقیقت ہے مگر جنرل مشرف اس حقیقت کو نہیں سمجھ رہے، یہ روز اپنے کسی کتے کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں اور یہ تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں، یہ تصویریں ان کے انجام کی دھار کو تیز کر رہی ہیں مگر یہ اس دھار کو محسوس کرنے کے بجائے بھٹو بنتے جا رہے ہیں، یہ بھی ہمالیہ کے رونے کا بندوبست کر رہے ہیں، بھٹو صاحب خود کو فانی سمجھتے تھے اور نہ ہی جنرل مشرف، بھٹو صاحب بھی بھول گئے تھے، انسانوں کے آنے پر کوئی پہاڑ تالیاں بجاتا ہے اور نہ ہی جانے پر بین کرتا ہے، پہاڑ صرف بدلتے وقتوں کے خاموش گواہ ہوتے ہیں، بھٹو صاحب اس حقیقت کو سمجھ سکے اور نہ ہی جنرل مشرف، کاش انھیں کوئی سمجھائے، جناب صدر! پہاڑ روتے نہیں ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.