وہ لوگ بنگال میں بہاری کہلاتے تھے، کیوں کہلاتے تھے؟ اس کی وجہ پٹنہ تھا، وہ لوگ پٹنہ سے کلکتہ آئے تھے، صوبہ اور زبان تبدیل ہو گئی لیکن لہجہ نہ بدل سکا چنانچہ بنگالی بولنے کے باوجود بنگالی انھیں بہاری کہتے تھے، وہ اس بہاری بنگالی خاندان میں 6 جولائی 1935ء کو پیدا ہوئے، وہ خاندان کے سب سے بڑے بچے تھے۔
والد کثیر الاولاد تھے چنانچہ ان کے 11 بہن بھائی تھے، پاکستان بنا تو یہ لوگ کلکتہ سے ڈھاکا شفٹ ہو گئے، ملک اپنا تھا لیکن یہ اپنے ملک میں بنگالی بن گئے، ڈھاکا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل ہوئے، 1952ء میں پاکستان ائیرفورس جوائن کی، 1953ء میں کمیشن مل گیا، والد فوج کی نوکری کے خلاف تھے، کیوں خلاف تھے؟ وجہ خاندان کا پس منظر تھا، خاندان میں کسی شخص نے کبھی فوجی ملازمت نہیں کی تھی، والد کی خواہش تھی یہ پڑھیں لکھیں، سی ایس ایس کریں اور اعلیٰ سرکاری عہدہ حاصل کریں۔
وہ فوجی سروس میں جان لینے اور جان دینے کے خلاف تھے لیکن یہ ڈٹ گئے اور یوں ان کا ائیر فورس کا کیریئر شروع ہو گیا، شادی کی عمر ہوئی تو شادی سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا، میرے کندھوں پر گیارہ لوگوں کی ذمے داری ہے، میں جب تک یہ ذمے داری پوری نہ کر لوں میں شادی نہیں کروں گا، 1965ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہوئی، بھارت نے 6 ستمبر کو لاہور پر حملہ کر دیا، پاک فضائیہ کو 7 ستمبر کو بھارت پر حملے کا حکم ہوا، وہ اس وقت اسکواڈرن لیڈر تھے اور پی اے ایف سرگودھا میں تعینات تھے، وہ بھی حملے کے لیے روانہ ہوئے، وہ بھارتی سرحد پر پہنچے تو ان کی مڈ بھیڑ بھارت کے پانچ ہنٹر طیاروں سے ہو گئی۔
بھارتی طیارے ان کے ایف 86 سیبر پر پل پڑے، اس حملے نے انھیں جرأت، بہادری، دانش مندی اور مہارت کا آسمان چھونے کا موقع دے دیا، انھوں نے دس سیکنڈ میں بھارت کا پہلا طیارہ گرایا اور پھر صرف تیس سیکنڈ میں بھارت کے باقی چار طیارے بھی مار گرائے، یہ پورا آپریشن صرف 45 سیکنڈ پر محیط تھا، اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے 45 سیکنڈ میں بھارت کے پانچ طیارے گرائے اور اطمینان سے سرگودھا ائیر بیس پر اتر گئے۔
یہ ورلڈ ریکارڈ تھا، یہ آج بھی ورلڈ ریکارڈ ہے، بنگال کا بیٹا پاکستان کا ہیرو بن چکا تھا، بنگال کا وہ بیٹا آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں کا ہیرو ہے لیکن پھر اس ہیرو کے ساتھ کیا ہوا، یہ کہانی ہمارے اجتماعی ضمیر اور ہماری قومی نفسیات کا مکمل اور جامع ڈاکومنٹ ہے، یہ کہانی کیا تھی؟ آپ اس کہانی کی طرف جانے سے قبل اس ہیرو کا وہ نام بھی جان لیں جس سے اسے دنیا یاد کرتی ہے، جی ہاں! وہ ہمارے ایم ایم عالم ہی ہیں، ہمارے اصلی ہیرو۔
ایم ایم عالم نڈر تھے، بے باک تھے، جرأت مند اور کھرے تھے لہٰذا ان کی اڑان روکنا بھی مشکل تھا اور زبان بھی۔ وہ بڑی سے بڑی بات منہ پر دے مارتے تھے، یہ جرأت مندی آہستہ آہستہ اس قومی ہیرو کو نگل گئی، وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے دل برداشتہ تھے، وہ ببانگ دہل کہتے تھے، بنگالیوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہو رہا لیکن ان کے خیالات کو لسانیت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا، وہ 1969ء میں اسٹاف کالج میں تھے لیکن ان کے "باغیانہ" خیالات کی وجہ سے انھیں اسٹاف کالج سے فارغ کر دیا گیا، 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ایم ایم عالم کا خاندان ڈھاکا میں تھا، ان کے ساتھیوں کا خیال تھا، ایم ایم عالم ائیر فورس چھوڑ کر بنگلہ دیش چلے جائیں گے لیکن وہ ایک سچے پاکستانی تھے۔
انھوں نے نہ صرف پاکستان چھوڑنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ اپنے خاندان کو بھی بنگلہ دیش سے پاکستان لے آئے یوں خاندان نے سو سال میں تین ہجرتوں کے دکھ سہے، پہلی ہجرت پٹنہ سے کلکتہ تھی، دوسری ہجرت کلکتہ سے ڈھاکا تھی اور تیسری ہجرت دوسری ہجرت سے محض 26 برس بعد ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان کی طرف تھی، مشرقی پاکستان کے سانحے نے ایم ایم عالم کے ذہن پر دو اثرات مرتب کیے، پہلا اثر ان کی زبان پر ہوا، ان کی زبان کی کڑواہٹ میں اضافہ ہو گیا، وہ پاکستان کے نام پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔
دوسرا اثر ان کے ذہن پر ہوا، وہ مذہبی ہو گئے اور وہ اپنا زیادہ وقت دینی کتابوں اور عبادت کو دینے لگے، جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء لگایا، ایم ایم عالم مارشل لاء کے خلاف تھے، وہ بار بار کہتے تھے، ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا، ہم نے اگر یہ غلطیاں جاری رکھیں تو ہم باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے، وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف تھے، وہ انھیں ایسے ایسے القابات سے نوازتے تھے جو تحریر میں نہیں لائے جا سکتے، خفیہ ادارے ان کی گفتگو ریکارڈ کرتے تھے، 1982ء میں انور شمیم ائیر فورس کے چیف تھے، یہ صدر جنرل ضیاء الحق کے دوست بھی تھے۔
یہ دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے، ائیر مارشل انور شمیم شاندار انسان تھے لیکن وہ اپنی بیگم کے زیر اثر تھے، بیگم صاحبہ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے، ایم ایم عالم ائیر فورس کے میس میں ان الزامات کا ببانگ دہل ذکر کرتے تھے، وہ بار بار کہتے تھے، جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں، خفیہ ادارے نے یہ گفتگو ٹیپ کر کے چیف آف ائیر اسٹاف کو پہنچا دی، انور شمیم یہ ٹیپ لے کر جنرل ضیاء الحق کے پاس چلے گئے۔
جنرل ضیاء الحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کے ہسٹری کے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ایم ایم عالم کو 1982ء میں قبل از وقت ریٹائر کر دیاگیا، وہ اس وقت ائیر کموڈور تھے، ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں، وہ درویش صفت انسان تھے، دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا، شادی انھوں نے کی نہیں تھی لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائیر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے، وہ ایک کمرے تک محدود تھے، کتابیں تھیں، عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں۔
حکومت کوشش کر کے نوجوان افسروں کو ان سے دور رکھتی تھی لیکن اس کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی جوان افسر ان تک پہنچ جاتا تھا تو اس کے کوائف جمع کر لیے جاتے تھے اور بعد ازاں اس پر خصوصی نظر رکھی جاتی تھی چنانچہ نوجوان افسر بھی ان سے پرہیز کرنے لگے، جنرل ضیاء الحق کے بعد ائیر فورس نے انھیں پنشن اور دیگر مراعات دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا، وہ خوددار انسان تھے، وہ دس دس دن فاقہ کاٹ لیتے تھے لیکن کسی سے شکایت نہیں کرتے تھے، مدت بعد ایک ایسا شخص ائیر چیف بن گیا جس نے ان کی کمان میں کام کیا تھا۔
اس نے ان کے تمام دوستوں کو درمیان میں ڈالا، دو درجن لوگوں نے ان کی منت کی اور یوں وہ ریٹائرمنٹ کی طویل مدت بعد صرف پنشن لینے پر رضا مند ہوئے، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم ایم عالم صاحب نے ان پر بھی تنقید شروع کر دی، وہ فوج کے سیاسی کردار اور کرپشن کو ملک کی تباہی کا اصل ذمے دار قرار دیتے تھے، وہ کہتے تھے، جنرل مشرف اور ان کے ساتھی کرپٹ بھی ہیں اور یہ ہوس اقتدار کے شکار بھی ہیں، یہ لوگ ملک کو تباہ کر دیں گے، خفیہ ادارے پھر ایکٹو ہوئے، ایک بار پھر ان کی گفتگو ٹیپ ہوئی، یہ ٹیپ صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دی گئی۔
صدر نے ائیر چیف کو طلب کیا، ٹیپ سنائی اور ان سے کہا، چک لالہ حساس علاقہ ہے، یہ شخص ہماری ناک کے نیچے بیٹھ کر ہمارے خلاف گفتگو کر رہا ہے، اس سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہے، آپ اسے راولپنڈی سے کہیں دور بھجوا دیں، صدر کا حکم تھا چنانچہ ایم ایم عالم صاحب کا سامان باندھا گیا اور انھیں راولپنڈی سے کراچی پہنچا دیا گیا، ان کا اگلا ٹھکانہ فیصل بیس تھا، یہ انتقال تک فیصل بیس میں رہے۔
دسمبر 2012ء میں ان کی طبیعت خراب ہوئی، انھیں نیوی کے اسپتال شفاء میں منتقل کیا گیا، یہ وہاں 18 مارچ 2013ء تک داخل رہے، 18 مارچ کو جب انھوں نے آخری سانس لی تو ان کی شجاعت اور بہادی کے نغمے گانے والوں میں سے کوئی شخص ان کے سرہانے موجود نہیں تھا، وہ پاکستانی تھے، وہ پوری زندگی پاکستان کے لیے لڑتے رہے اور یہ لڑائی لڑتے لڑتے خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
آپ ایم ایم عالم کے کردار کی عظمت ملاحظہ کیجیے، اس مجاہد نے پوری زندگی پاکستان کے لیے وقف کر دی، ملک کے لیے دو ہجرتوں کا دکھ سہا، وہ 1971ء میں بنگلہ دیش چلے جاتے تو وہ یقینا بنگلہ ائیر فورس کے چیف ہوتے لیکن انھوں نے پاکستان چھوڑنا گوارہ نہ کیا، وہ پوری زندگی ان لوگوں کے دیے دکھ سہتے رہے جنھوں نے پاکستان کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، کیا یہ حقیقت نہیں، جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان کو افغان وار میں جھونک دیا تھااور اس کے نتیجے میں ملک نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں جنرل پرویز مشرف نے امریکا اور یورپ سے اپنی یونیفارم تسلیم کرانے کے لیے ملک کو دہشت گردی کی اس جنگ میں دھکیلاجس کے نتیجے میں 60 ہزار پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔
ملک 80ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہو رہا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں، ہم نے جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوجیوں کی اتنی لاشیں اٹھائیں جتنی ہم نے جنگوں میں نہیں اٹھائیں اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں جرنیلوں کی ہوس اقتدار اور کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا؟ اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو پھر ایم ایم عالم نے پوری زندگی کیا غلط کہا جس کی ہم انھیں سزا دیتے رہے؟ ہمیں آج 8 ستمبر کے دن یہ ماننا ہوگا، ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے ہیروز کے منہ سے بھی اصل سچ سننے کے لیے تیار نہیں، ہمارے ملک میں دو سچ ہیں۔
اصل سچ اور سرکاری سچ اورملک میں ہمیشہ اصل سچ ہارتا اور سرکاری سچ جیتتا ہے اور ہم ایک ایسی قوم ہیں جو قائداعظم کی تصویر نوٹ پر چھاپ دیتی ہے لیکن ان کی کسی بات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، ہم علامہ اقبال کو قومی شاعر ڈکلیئر کر دیتے ہیں لیکن ان کی کتابیں شایع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ہم ایم ایم عالم کو اپنا ہیرو مانتے ہیں لیکن انھیں پوری زندگی بولنے کی آزادی نہیں دیتے اور ہمیں اس سرزمین پر صرف اور صرف سرکاری سچ چاہیے اور اگر ایم ایم عالم جیسے ہیروز بھی غیر سرکاری سچ بولنے کی گستاخی کر بیٹھیں تو ہم انھیں بھی ریٹائر کرتے، ان کی پنشن روکتے اور انھیں بھی راولپنڈی سے کراچی پھینکتے دیرنہیں لگاتے، ہم کس قدر سچے اور کھرے لوگ ہیں۔