ہم توکل میں جب تک امام الانبیاء ؐ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی پیروی نہیں کریں گے، ہم شاید اس وقت تک دنیا اور آخرت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے لیکن سوال یہ ہے نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدینؓ کا توکل تھا کیا؟ توکل کی بے شمار قسمیں ہیں مثلاً توکل ہجرت بھی تھی، جب دیکھا مکہ میں رہنا مشکل ہے، کفار اہل ایمان کو بے مقصد لڑائیوں میں الجھا رہے ہیں اور یہ لڑائیاں وقت اور توانائی کا ضیاع ہیں تو ایک ایسے شہر مدینہ کی طرف ہجرت فرما لی جو جغرافیائی اور تجارتی لحاظ سے اہم تھا، توکل غزوہ بدر بھی تھا، دوہجری میں مکہ کے کفار نے مدینہ پر حملے کا فیصلہ کیا، ایک ہزار کا لشکر تیارہوا، مدینہ میں اطلاع ہوئی تو دو آپشن تھے۔
وہ لوگ مدینہ میں بیٹھ کر دعا کرواتے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوبؐ کی کوئی بات نہیں ٹالتا تھا چنانچہ وہ دعا فرماتے اور کفار کے لشکر میں وباء پھوٹ پڑتی یا مکہ میں سیلاب آ جاتا اور کافر مصیبتوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے لیکن اللہ کے نبیؐ نے ساتھی گنے، مدینہ میں 313 ایسے مرد نکلے جو جنگ کے قابل تھے، تلواریں گنیں، وہ8 تھیں، سواریاں دیکھیں، 70 اونٹ اوردو گھوڑے تھے اور زرہیں جمع کیں، یہ تین یا چھ تھیں، یہ سامان اور یہ مجاہد لیے اور بدر پہنچ گئے، میدان بدر میں دشمن سے پہلے پانی کے کنوئیں کا کنٹرول لے لیا، بہترین مقام پر خیمے لگائے اور ایسی جگہ صف آراء ہوئے جو جنگی نکتہ نظر سے بہترین تھی، ان تمام انتظامات کے بعد اللہ سے عرض کیا، یا باری تعالیٰ میرے پاس صرف یہ لوگ ہیں۔
اگر آج یہ لوگ بھی شہید ہو گئے تو پھر دنیا میں تمہارا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت بھجوا دی، توکل غزوہ احد بھی تھا، آپؐ نے دیکھا، احد کی ایک چوٹی جنگی نکتہ نظر سے اہم ہے، اگر یہاں تیر انداز بٹھا دیے جائیں تو جنگ جیت جائیں گے، اللہ کے رسولؐ نے وہاں تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو حکم دیا جنگ کی صورتحال کچھ بھی ہو تم نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی، مسلمان ابتدائی مرحلے میں جنگ جیت گئے، تیر اندازوں نے جذباتی ہو کر وہ مقام چھوڑ دیااور پھر اس غلطی کا کیا خمیازہ بھگتا؟ یہ چودہ سو سال سے تاریخ کا حصہ ہے۔
70مسلمان اور دندان مبارک شہید ہوگیا، غزوہ احد نے مسلمانوں کو پیغام دیا اللہ تعالیٰ کا معتبر اور مقدس ترین لشکر بھی اگر جنگ میں غلطی کرے گا، اگریہ حکمت عملی کے دائرے سے باہر قدم رکھے گا تو یہ بھی نقصان اٹھائے گا، توکل غزوہ خندق بھی تھا، کفار نے پانچ ہجری کو مسلمانوں پر فیصلہ کن حملے کا فیصلہ کیا، پانچ قبائل اکٹھے ہوئے، دس ہزار جوان جمع ہوئے، لشکر کو کیل کانٹے سے لیس کیا گیا اور مدینہ پر حملہ آور ہو گئے۔
مسلمانوں نے محسوس کیا ہمارے لیے کھلے میدان میں ان کا مقابلہ مشکل ہو گا، اللہ کے رسولؐ نے اپنے احباب سے مشورہ کیا، حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا، مشورہ پسند آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان تمام صحابہ ؓ کو ساتھ لیا جن کے روحانی مقام تک دنیا کا کوئی ولی، کوئی صوفی، کوئی قطب، کوئی صاحب دعا اور کوئی متوکل آج تک نہیں پہنچ سکا، وہ سب اٹھے اور مدینہ کے گرد خندق کھودی، دشمن کا لشکر آیا، خندق کے سامنے پہنچ کر بے بس ہوا، اللہ کے نبیؐ نے نصرت کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے خیمے اکھاڑ دیے۔
آپ حیات طیبہ کا مطالعہ کریں، آپ کو پورا توکل سمجھ آ جائے گا، اللہ کے رسولؐ نے غزوہ بدر میں گرفتار ہونے والے کفار کی رہائی کے لیے کیا شرائط رکھی تھیں؟ کیا ان میں یہ شامل نہیں تھا؟ آپ مدینہ کے ان پڑھوں کو پڑھنا سکھا دیں اور اپنے گھر واپس چلے جائیں اور کیا بدر میں گرفتار کفار دینی علم کے ماہر تھے؟ نہیں، ہرگز نہیں! وہ صرف اور صرف دنیاوی علم جانتے تھے اور اللہ کے رسولؐ نے انھیں اپنے صحابہؓ کو دنیاوی علم سکھانے کی ہدایت فرمائی، اللہ کے رسولؐ جب بھی علیل ہوتے آپ ؐ دواء استعمال کرتے اور پھر اللہ سے شفاء کی دعا فرماتے، پوری طب نبوی ان جڑی بوٹیوں کی گواہ ہے جو اللہ کے رسولؐ نے خود بھی استعمال کیں اور اپنے اصحابؓ کو بھی کروائیں۔
آپ حضرت عمرؓ کی دو جنگی حکمتیں بھی ملاحظہ کیجیے، اسلامی تاریخ نے آج تک حضرت عمر فاروقؓ سے بڑا حکمران اور بڑا متوکل شخص پیدا نہیں کیا، حضرت عمرؓ کے دور میں ایران فتح ہوا، ایران کے دو حکمران تھے رستم اور فیروزان۔ ان ایرانی حکمرانوں نے مہران ہمدانی کی سرپرستی میں خوفناک لشکر بنایا اور یہ لشکر عراق بھجوادیا، عراق میں بویب کے مقام پر اسلامی اور ایرانی لشکر کا آمنا سامنا ہوا، مثنیٰ بن حارثہ مسلمان لشکر کے سالار تھے، اسلامی لشکر میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بنو نمر اور بنو تعلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور قبیلہ بجیلہ کے وہ مرتد بھی جو اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام سے منحرف ہو ئے اور پھر معاف کر دیے گئے۔
اسلامی تاریخ کے عظیم مورخ محمد حسین ہیکل کے بقول حضرت عمرؓ نے قبیلہ بجیلہ کے تائبین ارتداد کو مال غنیمت کے علاوہ خمس کا چوتھائی حصہ دینے کا وعدہ کیا، یہ لوگ مان گئے اور یہ جرید بن عبداللہ بجلی کی قیادت میں مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے کے لیے عراق پہنچ گئے، (کتاب حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ مصنف محمد حسین ہیکل اورصفحات 160 تا 165)، کیا حضرت عمر فاروقؓ (نعوذ باللہ) متوکل نہیں تھے یا انھیں اللہ کی نصرت پر یقین نہیں تھا؟ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تاریخ نے حضرت عمرؓ جیسا متوکل انسان آج تک پیدا نہیں کیا، پھر مسئلہ کیاتھا؟ مسئلہ یہ تھا حضرت عمر فاروق ؓ اللہ کے نظام کو سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے، توکل تین عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے، تیاری، حکمت اور دعا۔ وہ جانتے تھے تیاری کے لیے علم چاہیے، حکمت کے لیے عمل درکار ہے اور دعا کے لیے اللہ پر پختہ یقین چاہیے، آپ تاریخ اسلام کے صرف ابتدائی سو سال کا مطالعہ کر لیجیے۔
آپ کو اسلامی لشکر کئی مقامات پر ہارتا ہوا، پسپا ہوتا ہوا اور بکھرتا ہوا بھی نظر آئے گا، آپ جب ان لشکروں کے سالاروں کا پروفائل نکالیں گے تو آپ کے سامنے ایسے ایسے نام آئیں گے جن کا ثانی دنیا آج تک پیدا نہیں کر سکی، وہ لوگ حکمت اور توکل دونوں میں یکتا تھے مگر پھر وہ کیوں ہارے، وہ کیوں پسپا ہوئے اور ان کے لشکر کیوں بکھرے؟ آپ جب تاریخ سے یہ سوال پوچھیں گے تو تاریخ آپ کو وجوہات بھی بتائے گی اور یہ وجوہات غزوہ احد جیسی ہوں گی جس میں اہل ایمان نے جنگی حکمت عملی کے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تھا، آپ صرف خلفائے راشدین کی جنگی تاریخ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو توکل میں حکمت اور تیاری دونوں کی سمجھ آ جائے گی۔
یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک اور زمین کی ساتویں تہہ سے لے کر ساتویں آسمان تک حقائق ہی حقائق ہیں، ہم اگر اپنی سستی، اپنی کم علمی، اپنی کم فہمی اور اپنی نالائقی کو تصوف کا نام دے کر ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہیں تو الگ بات ہے ورنہ یہ حقائق چیخ چیخ کر بتاتے ہیں اللہ کے زیادہ تر نبیوں کو جنگ کے میدانوں میں بھی اترنا پڑا اور سکون اور امن کی تلاش میں ہجرتیں بھی کرنا پڑیں، حضرت عثمانؓ کو جب شہید کیا گیا تھا تو وہ قرآن مجید پڑھ رہے تھے، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ پر جب دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ تمام تر روحانیت، تصوف اور توکل کے باوجود مجروح ہوئے اور انھیں دواء اور حکیم کی ضرورت بھی پڑی اور وہ دوائیں دنیاوی تھیں اوروہ اس وقت بھی یونانی، ہندی اور چینی کہلاتی تھیں۔
وہ ہستیاں جب دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم کو تسلیم کرتی تھیں تو آج ہم دین اور دنیا کے علم کو توکل کے خلاف کیوں قرار دے رہے ہیں؟ ہم جس دن ٹھنڈے دل سے علم، ٹیکنالوجی اور توکل اور صرف توکل کا تقابل کریں گے تو ہمارے لیے طالبان اور اسامہ بن لادن کی مثال ہی کافی ہو گی، یہ متوکل لوگ تھے لیکن جب جنگ ہوئی تو ٹیکنالوجی فضا سے حملے کرتی رہی اور یہ لوگ زمین پر دشمن کا انتظار کرتے رہے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے! پوری اسلامی دنیا تورا بورا جیسے انجام سے خوفزدہ ہو کر کفار کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور بوریا نشین بیچارے اکیلے رہ گئے۔
نیٹو نے 14 برسوں میں صرف ساڑھے تین ہزارنعشیں اٹھائیں، افغانستان کے 20لاکھ بے گناہ لوگ مارے گئے جب کہ امیر المومنین آج تک روپوش ہیں اور شیخ اسامہ یمنی نے ایبٹ آباد میں پناہ لے لی اور سات برس تک اپنا سر باہر نہیں نکالا، یہ لوگ اگر متوکل تھے، یہ اگر اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے تھے تو یہ میدان میں کھڑے کیوں نہیں رہے؟ اور 20 لاکھ بے گناہ افغان کیوں مارے گئے! کیاافغانوں کی یہ 20 لاکھ لاشیں ہمارے اس فکری قحط کا نتیجہ نہیں ہیں جس کی گرفت میں آ کر ہم علم اور عمل دونوں سے دور ہو چکے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو بہرحال یہ ماننا ہو گا، اللہ کی مدد مانگنے سے پہلے بدر میں آنا پڑتا ہے، جنگ کے لیے بہترین جگہ کا تعین کرنا پڑتا ہے، پوری تیاری کرنا پڑتی ہے اور آپ اگر 313 ہیں تو آپ کو وہ 313 میدان میں لانے پڑتے ہیں، ہمیں اس مغالطے سے بھی باہر آنا ہو گا، ہم پر دواء سے لے کر میزائل اور گاڑی سے لے کر جہاز تک مغرب کی تمام مصنوعات حلال ہیں لیکن ان مصنوعات کی ایجاد حرام ہے، ہمیں یہ طریقہ بھی ترک کرنا ہو گا جس میں پیر صاحب، حضرت صاحب، امام صاحب اور مولانا صاحب پوری زندگی لوگوں کو تعویذ دیتے ہیں۔
ان کے پانی میں شفاء کی پھونک مارتے ہیں اور ان کے کندھے پر تھپکی دے کر انھیں توکل کے راستے پر روانہ کرتے ہیں لیکن جب خود زکام میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہودیوں اور عیسائیوں کی دوائیں کھاتے دیر نہیں لگاتے، یہ لوگ اپنے لیے جرمن گاڑیاں پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو فاقہ مستی اور اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا درس دیتے ہیں، ہم کتنے بدنصیب ہیں، ہم علم کے بغیر مچھر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ہم جاہل رہ کر اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں؟ اور کیا ہمیں اب تضاد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے؟