تھائی لینڈ میں صرف ایک خرابی ہے، اس کی شہرت اچھی نہیں، آپ جب کسی کو بتاتے ہیں " میں تھائی لینڈ جا رہا ہوں " یا "میں تھائی لینڈ گیا تھا" تو وہ آپ کو شرمندہ کر دینے والی نظروں سے دیکھتا ہے، شریف لوگ تھائی لینڈ جانے والے اپنے والد، بھائی، بیٹے اور خاوند کے بارے میں بھی بتاتے ہوئے شرمندہ ہو جاتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں " آپ کے والد صاحب کہاں گئے ہیں " تو وہ چند لمحے آپ کو پریشان نظروں سے دیکھے گا اور اس کے بعد "وہ ملک سے باہر گئے ہیں " کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش کرے گا، میں بھی تھائی لینڈ کے بارے میں یہی سوچتا تھا مگر تھائی لینڈ آ کر اس ملک کے بارے میں میری رائے یکسر تبدیل ہو گئی، بنکاک میں "فریڈم آف ایکسپریشن" پر تین روزہ کانفرنس تھی، کانفرنس میں جنوب مشرقی ممالک کے صحافی شریک تھے۔
پاکستان سے 18 صحافی، سول سوسائٹی ایکٹویسٹ اور ماہرین کانفرنس میں شامل ہوئے، ابصار عالم، ضمیر حیدر، فاروق فیصل خان اور افضل بٹ جیسے سکہ بند صحافی کانفرنس میں شریک ہوئے، میں نے دو راتیں بنکاک میں گزاریں اور دودنوں کے لیے پھوکٹ چلا گیا، تھائی لینڈ مساج اور تھائی فوڈ پوری دنیا میں مشہور ہیں، تھائی کھانے میں خاص قسم کی کھٹاس اور مصالحے ہوتے ہیں، یہ لوگ مچھلی کو لیموں کے پانی میں ابالتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں، اس مچھلی میں مصالحہ یا مرچ نہیں ہوتی لیکن یہ بھی آپ کو سی سی پر مجبور کر دیتی ہے، تھائی سوپ پوری دنیا میں مشہور ہے، تھائی لینڈ کا انناس، کیلا اور پپیتا بھی لاجواب ہیں، تھائی مساج بھی کھانے کی طرح دنیا میں تھائی لینڈ کی پہچان ہے، یہ مساج دبانا اور کھینچنا دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، تھائی عورتیں اور مرد ماہر دائیوں کی طرح آپ کے جسم کا ایک ایک عضو دباتے ہیں اور بعد ازاں کھینچتے یعنی سٹریچ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ کے جسم کا درد اور تھکاوٹ غائب ہو جاتی ہے۔
مساج ان کے مذہب کا حصہ ہے، ان کے بھکشو بھی مساج کے ماہر ہوتے ہیں، آپ کسی ٹمپل میں چلے جائیں، آپ کو وہاں مساج کے ماہر مل جائیں گے، ان کے ہاتھ میں پنسل جتنی ڈنڈی ہوتی ہے، یہ اس پنسل کے ذریعے آپ کے تلوؤں کے مختلف حصے دباتے ہیں اور آپ تازہ دم ہو جاتے ہیں، آپ بنکاک کی کسی گلی، کسی بازار، کسی شاپنگ سینٹر میں چلے جائیں آپ کو وہاں مساج پارلر ضرور ملے گا، تھائی لوگ بھی مساج کے رسیا ہیں، یہ لوگ دفتروں یا کام سے واپسی پر سیدھے مساج سینٹر جاتے ہیں، مساج کرواتے ہیں اور اس کے بعد گھر جاتے ہیں، یہ اگر بازاری مساج افورڈ نہیں کر سکتے تو یہ گھر پہنچ کر اپنی بیگم، والدہ، بیٹے یا بیٹی سے مساج کراتے ہیں، گھر والے ان کا سر دباتے ہیں یا پانی کی بالٹی میں گرم پانی ڈال کر ان کے پاؤں دھوتے ہیں، مساج کی اس عادت کی وجہ سے یہ لوگ ہر وقت چست اور الرٹ نظر آتے ہیں، آپ کو کسی تھائی مرد یا عورت کے چہرے پر بیزاری یا تھکاوٹ نظر نہیں آتی، آپ کسی کی طرف دیکھیں یا آپ کسی دکان میں داخل ہوں، وہ دونوں ہاتھ جوڑے گا، یہ جڑے ہوئے ہاتھ ٹھوڑی کے قریب لائے گا اور گردن جھکا کر آپ کو خوش آمدید کہے گا، ہاتھ جوڑنے کی یہ روایت مشرق کے درجنوں ممالک میں موجود ہے لیکن تھائی لوگ جس طرح ہاتھ جوڑتے ہیں اور یہ آپ کو جس گرم جوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں یہ آپ کو دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی، آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے یہ آپ کو ویل کم نہیں کہہ رہے ہیں، یہ آپ کی پرستش کر رہے ہیں، یہ مہمان کو دیوتا سمجھتے ہیں، شاید اسی لیے ان کا ویل کم عبادت ہوتا ہے۔
یہ لوگ صاف ستھرے بھی ہیں، یہ گلیوں اور بازاروں میں گند نہیں ڈالتے، بنکاک کراچی جیسا مصروف شہر ہے لیکن آپ کو اس کی گلیوں اور بازاروں میں گند دکھائی نہیں دیتا، یہ لوگ جوتے گھر سے باہر اتارتے ہیں، یہ کھلی جگہوں پر تھوکتے نہیں ہیں، یہ قدرتی آرٹسٹ ہیں، یہ پھل بھی کاٹیں گے تو آپ کو اس میں خاص نفاست اور سلیقہ دکھائی دے گا، ٹھیلوں اور ریڑھیوں پر باقاعدہ شیشے اور جالیاں لگی ہیں، آپ کو کھانے کی کسی چیز پر مکھیاں بھنبھناتی نظر نہیں آئیں گی، عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہیں، یہ آپ کو ہر قسم کا کام کرتی دکھائی دیتی ہیں، بنکاک میں آپ کو بیسیوں فلک بوس عمارتیں ملتی ہیں، پورا شہر شاپنگ مال ہے، ریستوران ہزاروں کی تعداد میں ہیں، لوگ گھروں کے بجائے کھاناباہر کھانا پسند کرتے ہیں، لوگ کسی سے سروکار نہیں رکھتے، کون کیا کر رہا ہے، کہاں جا رہا ہے اور کیوں جا رہا ہے، کسی کو غرض نہیں ہوتی، یہ بے انتہا مذہبی ہیں، شہر کی ہرگلی میں مندر یا ٹمپل ہے، لوگوں نے گھروں اور دکانوں کے سامنے مہاتما بدھ کا مجسمہ لگا رکھا ہے، یہ جہاں ٹمپل یا مجسمہ دیکھتے ہیں، یہ ہاتھ جوڑ کر دعا کرتے ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھتے ہیں، بادشاہ کو اس ملک میں بھگوان کا درجہ حاصل ہے۔
لوگ اس کی توہین برداشت نہیں کرتے، سکے پر بادشاہ کی تصویر بنی ہے چنانچہ کوئی شخص سکہ نیچے نہیں گرنے دیتا، یہ بادشاہ کی توہین پر کسی کو قتل تک کر سکتے ہیں، قانون کا دور دورہ ہے، ٹریفک قاعدے سے چلتی ہے، راہگیروں کو راستہ دیا جاتا ہے، پولیس چوکیاں جگہ جگہ بنی ہیں اور ان چوکیوں میں مانیٹر لگے ہیں، پولیس اہلکار مانیٹرز کے ذریعے گلیوں اور بازاروں کو مانیٹر کرتے ہیں، بنکاک میں سکائی ٹرین چلتی ہے، یہ ٹرین سڑک سے اوپر فضا میں چلتی ہے اور یہ پورے شہر کا احاطہ کرتی ہے، آپ ٹکٹ لے کر شہر کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں، لوگ مہمان نواز، ہمدرد اور کوآپریٹو ہیں، یہ سیاحوں کا خصوصی احترام کرتے ہیں، انگریزی زیادہ نہیں جانتے لیکن آپ کی بات آسانی سے سمجھ جاتے ہیں، چوری چکاری اور فراڈ کم ہیں، شہروں میں امن ہے اور لوگوں کے چہروں پر اطمینان، ہماری طرح لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں نہیں اڑتیں اور یہ لوگ دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں۔
بنکاک کمرشل شہر ہے لیکن پھوکٹ تفریحی مقام، یہ سرسبز جزیرہ ملک کے جنوب میں واقع ہے، 1967ء تک اس کا خشکی کے ساتھ کوئی کنکشن نہیں تھا، حکومت نے سمندر پر دو پل بنا کر اسے خشکی سے جوڑ دیا ہے، یہ بنکاک سے 850 کلو میٹر دور ہے چنانچہ پھوکٹ پہنچنے کے لیے فلائٹ زیادہ بہتر ذریعہ ہے، یہ چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا پہاڑی علاقہ ہے، بارش اور دھوپ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں، آپ چند لمحے قبل دھوپ میں جھلستے ہیں اور چند لمحے بعد اس قدر طوفانی بارش آتی ہے کہ آپ جرابوں تک شرابور ہو جاتے ہیں، آپ بمشکل چھتری تک پہنچتے ہیں توبارش رک جاتی ہے، درجہ حرارت بارہ ماہ 30 سینٹی گریڈ سے زیادہ رہتا ہے، پورے جزیرے میں بیچز ہیں، آپ سمندر میں نکل جائیں تو آپ کودرجنوں سرسبز جزیرے ملیں گے، یورپ، امریکا اور جاپان سے جہاز بھر بھر کر پھوکٹ پہنچتے ہیں، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جگہ نہیں ملتی، آپ جدھر دیکھتے ہیں، آپ کو لوگوں کا میلہ دکھائی دیتا ہے، سیاح سارا دن بیچ پر لیٹے رہتے ہیں یا دور دراز جزیروں کی سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں، واٹر اسپورٹس کرتے ہیں، آکسیجن کا سلینڈر باندھ کر پانی کی تہوں میں اتر جاتے ہیں یا گھونگوں کے جزیروں میں دوڑ لگاتے ہیں لیکن شام کو واپس آجاتے ہیں۔
یہ سوئمنگ پول میں لیٹ جاتے ہیں، ہوٹل کے اسٹیم باتھ اور سوانا میں گھس جاتے ہیں اور رات کے وقت شو دیکھتے ہیں، ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں یا پھر بازار میں نکل جاتے ہیں، بازار میں سیکڑوں بیئر بار سج جاتے ہیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں میزوں پر چڑھ کر ڈانس کرتے ہیں اور لوگ تالیاں بجا کر انھیں داد دیتے ہیں، پھوکٹ میں ہوٹل ہوٹل نہیں ہیں، ریزارٹ ہیں، ان ریزارٹ کی پرائیویٹ بیچز بھی ہیں اور شپس بھی، شہر میں کرائے پر دو پہیوں والی موٹر سائیکل بھی ملتی ہیں اور چار پہیوں کی موٹر سائیکل بھی، سیاح ان موٹر سائیکلوں پر پورے شہر کا گشت کرتے ہیں، تھائی لینڈ کے شہروں میں موٹر رکشے چلتے ہیں، یہ لوگ انھیں ٹک ٹک کہتے ہیں، ایک ٹک ٹک پر چھ سات سواریاں بیٹھ سکتی ہیں اور یہ کھلی سواری میں شہر کا نظارہ کرتی ہیں، پھوکٹ پہاڑ بھی ہے، جنگل بھی، بیچ بھی اور شہر بھی، آپ کسی طرف نکل جائیں آپ کو یہ چاروں چیزیں ملیں گی، لاء اینڈ آرڈر مضبوط ہے، شہر میں ٹورسٹ پولیس اور ٹورسٹ پولیس اسٹیشن ہیں، آپ رات کے کسی بھی وقت شہر کے کسی حصے میں نکل جائیں آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا تاہم آپ لڑکیوں کے بھیس میں سڑکوں پر پھرتے کھسروں سے بچ کر رہیں، یہ شکل اور شباہت میں سو فیصد خاتون نظر آتے ہیں مگر یہ عورت ہوتے نہیں ہیں۔
تھائی لینڈ میں نارمل مردوں کو کھسرا بنانے کے کئی اسپتال اور کلینک ہیں، دنیا بھر کے نیم خواجہ سرا اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لیے تھائی لینڈ آتے ہیں اور یہ عورت بننے کے بعد اپنی نسوانیت چیک کرنے کے لیے سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اناڑی مرد ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں، پھوکٹ میں ربڑ، کیلے اور انناس کے سیکڑوں ذخیرے ہیں، بانس سفیدہ جیسا باریک اور بلند درخت ہوتا ہے، یہ درخت چار ساڑھے چار سال میں تیار ہو تا ہے، زمیندار اس کے تنے پر سیاہ رنگ کا پیالہ باندھ دیتا ہے، درخت پر چھری سے گہری لکیریں لگا دی جاتی ہیں، ان لکیروں سے دودھ رستا ہے، چوبیس گھنٹوں میں دودھ سے پیالہ بھر جاتا ہے، زمیندار صبح پانچ اور چھ کے درمیان یہ پیالے خالی کر دیتے ہیں، اس دودھ سے بعد ازاں ربڑ بنایا جاتا ہے، ربڑ کا درخت اوسطاً بیس سال دودھ دیتا ہے، اس کے بعد اسے کاٹ کر اس کا فرینچر بنا لیا جاتا ہے، میں اتوار تک یہ سمجھتا تھا انناس درختوں پر لگتا ہے لیکن پھوکٹ سے واپس آتے ہوئے لوگوں کو انناس صاف کرتے دیکھا تو معلوم ہوایہ گاجر اور مولی کی طرح زمین میں اگایا جاتا ہے اور یہ گاجر اور مولی کی طرح اکھاڑا جاتا ہے، انناس کے پودے ربڑ کے درختوں کے سائے میں لگائے جاتے ہیں، انناس کو کاٹنے کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہے اور یہ لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں۔
میں تھائی لینڈ میں چار دن گزار کر آیا ہوں، ان چار دنوں نے اس ملک کے بارے میں میری ساری رائے بدل دی، میں دوبارہ بلکہ سہ بارہ تھائی لینڈ جانا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے اگر تھائی لینڈ نہیں دیکھا تو اس کا مطلب ہے آپ نے ابھی تک آنکھیں ہی نہیں کھولیں۔