سید تسنیم عباس نقوی منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھتے ہیں، یہ عرف عام میں بوگے شاہ کہلاتے ہیں، بوگے شاہ نے 25 سال قبل ائیرپورٹس کی پارکنگ کے ٹھیکے لینا شروع کیے، اس زمانے میں پارکنگ کے سسٹم اچھے نہیں ہوتے تھے لہٰذا یہ لوگ "ڈنڈا مار" مشہور ہو گئے، یہ پھینٹا لگا کر پارکنگ فیس وصول کرتے تھے، بوگے شاہ کا کام چل پڑا اور پاکستان کے تمام ائیرپورٹس کی پارکنگ کے ٹھیکےآہستہ آہستہ بوگے شاہ کی کمپنی تسنیم شاہ نقوی اینڈ کو نے لے لیے، ان کی اس کام میں مناپلی ہو گئی اور یہ کروڑوں میں کھیلنے لگے، یہ اس دوران برطانیہ کے دورے کرنے لگے اور انہوں نے انویسٹمنٹ کی بیس پر برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر لی، آپ اگر خوش حال ہیں تو آپ آج بھی یورپ، برطانیہ یا امریکا کے بینکوں میں دس بیس کروڑ روپے ٹرانسفر کر کے فیملی امیگریشن لے سکتے ہیں، بوگے شاہ نے بھی یہ راستہ استعمال کیا اور یہ کام یاب ہو گئے۔
نقوی صاحب ائیرپورٹس پر کام کرتے تھے چناں چہ انہیں 2008ء میں معلوم ہو ا حکومت ائیرپورٹس پر فائیو سٹار اور فور سٹار ہوٹل بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ ایک اچھی بزنس اپارچیونٹی تھی لہٰذا نقوی فیملی نے فوری طور پر برطانیہ میں یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کے نام سے کمپنی رجسٹر کرا دی، کمپنی کے پانچ ڈائریکٹرز ہیں اور یہ تمام بوگے شاہ کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، کمپنی 2009ء میں رجسٹر ہوئی، لاہور میں 2009ء میں ائیرپورٹ پر فائیو سٹار ہوٹل کے پلاٹ کی نیلامی ہوئی، نقوی فیملی یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کے نام سے نیلامی میں شریک ہوئی، ہوٹل کا پلاٹ خریدا، قبضہ لیا اور ہوٹل کی تعمیر شروع کر دی، یہ خود کوفارن کمپنی اور فارن انویسٹر ڈکلیئر کرتے تھے جب کہ یونی کارن پریسٹیج کے تمام ڈائریکٹرز پاکستانی ہیں اور ان کے مستقل اور سابقہ پتے منڈی بہائوالدین کے ہیں، یوکے میں کمپنی صرف رجسٹر ہوئی تھی، آج بھی یونی کارن کے سی ای او سید جمیل عباس نقوی ہیں۔
نقوی برادرز نے ہوٹل کی تعمیر کے دوران سوئٹزرلینڈ کی ہوٹل اینڈ ریزارٹس کی کمپنی سوئس انٹرنیشنل کی فرنچائز لے لی اور اپنے ہوٹل کو "ہوٹل رائل سوئس" کا نام دے دیا، یہ 302 کمروں کا ہوٹل ہے اوریہ لاہور ائیرپورٹ پر واقع ہے۔ یہ سلسلہ اس حد تک ٹھیک تھا لیکن پھر نقوی فیملی نے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو شراب کے لائسنس کیدرخواست دے دی، صوبوں میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ ایک بدنام محکمہ ہوتا ہے، کیوں؟ کیوں کہ صوبے کے زیادہ تر ٹیکس اکٹھے کرناایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ محکمہ پراپرٹی ٹیکس بھی جمع کرتا ہے، ہوٹل ٹیکس بھی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس بھی لہٰذا ایمان دار اور سمجھ دار حکومتیں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی انتہائی سوچ سمجھ کر لگاتی ہیں۔
ہمیشہ اس عہدے پر ایمان دار اورتگڑے افسر لگائے جاتے ہیں لیکن عثمان بزدار کیوں کہ وسیم اکرم پلس ہیں چناں چہ آج پنجاب کے زیادہ تر محکمے دیہاڑی داروں کے قبضے میں ہیں، وزیراعلیٰ کے ایک افسر پوری پنجاب بیوروکریسی میں ٹیکا کہلاتے ہیں، یہ روز شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان سے درجن درجن تعیناتیاں کرا کر واپس آتے ہیں، آپ پنجاب کے کسی افسر سے صوبے میں تعیناتی کا ریٹ پوچھ لیں وہ آپ کو انگلیوں پر گن کر بتا دے گا بس اس خریدوفروخت سے صرف ایک بندہ ناواقف ہے اور وہ ہے عمران خان! پولیس کی تعیناتیاں لاہور کی ایک خاتون کراتی ہیں، یہ ایس ایچ او تک لگوا دیتی ہیں اور ڈی ایم جی کے اختیارات ٹیکا کے پاس ہیں، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ بھی اس لوٹ مار کا شکار ہو گیا اور وزیراعلیٰ نے اکرم اشرف گوندل نام کے ایک پروموٹی افسر کو ڈی جی بنا دیا، اکرم اشرف کو چودھری برادران نے بھرتی کرایا تھا، میں آپ کو اس تعیناتی کا مقصد آگے چل کر بتائوں گا، بہرحال اکرم اشرف گوندل ڈی جی ایکسائز تعینات ہو گئے اور چند دن بعد یونی کارن پریسٹیج لمیٹڈ کی طرف سے شراب کے لائسنس کی درخواست آ گئی۔
لاہور کے چار ہوٹلوں کے پاس اس وقت یہ لائسنس موجود ہے لیکن یہ تمام لائسنس پرانے ہیں، 1997ء کے بعد ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نےکسی ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس جاری نہیں کیا، اکرم اشرف گوندل کم زور افسر بھی ہیں اور یہ وزیراعلیٰ کے ممنون بھی تھے لیکن شراب کا لائسنس ان کے قد کاٹھ سے بھی بڑا کام تھا لہٰذا یہ فائل روک کر بیٹھ گئے، اس دوران انہیں وزیراعلیٰ کے آفس کی طرف سے "ہدایات" موصول ہونا شروع ہو گئیں لیکن یہ حکم ٹالتے رہے، وزیراعلیٰ کے سٹاف نے انہیں چھ مرتبہ سی ایم آفس بلایا، دو دو گھنٹے بٹھائے رکھا اور پھر وزیراعلیٰ نے انہیں خود لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا مگر یہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے، یہ وزیراعلیٰ کو سمری بھی پُٹ کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعلیٰ نے انہیں سختی سے روک دیا، اکرم اشرف کو حکم دیا گیا یہ اپنی اتھارٹی استعمال کر کے لائسنس جاری کر دیں، ڈی جی دبائو میں آگیا اور اس نے یونی کارن پریسٹیج کو شراب فروشی کا لائسنس جاری کر دیاتاہم اس نے ایک چالاکی کی، اس نے سمری لکھ کر وزیراعلیٰ کے آفس بھجوا دی "میں نے یہ لائسنس جاری کر دیا ہے، صرف وزیراعلیٰ کو اطلاعاً مطلع کر رہا ہوں"۔
وزیراعلیٰ آفس نے جواب میں لکھا "یہ آپ کی اتھارٹی ہے آپ نے یہ فائل ہمیں کیوں بھجوائی" اور فائل واپس بھجوا دی، شراب کا لائسنس دو پارٹنرز کو جاری کیا گیا تھا، یونی کارن پریسٹیج اور گوربچن سنگھ، پنجاب میں کوئی شخصگوربچن سنگھ کو نہیں جانتا، شراب کا لائسنس صرف فور اور فائیو سٹار ہوٹلز کو دیا جا سکتا ہے کسی فرد کو نہیں لہٰذا اس کیس میں یہ خلاف ورزی تھی، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا خیال ہے گوربچن سنگھ لائسنس جاری کرانے والے طاقت ور شخص کا فرنٹ مین ہے اور وہ کون ہے؟ یہ قوم کو نیب بتائے گا، یونی کارن پریسٹیج نے لائسنس کے لیے یہ دعویٰ بھی کیا تھا یہ ہوٹل انٹرنیشنل چین ہے اورکمپنی برطانیہ سےتعلق رکھتی ہے جب کہ کمپنی کے تمام مالکان منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھتے ہیں اور ہوٹل انٹرنیشنل چین کی بجائے سوئس انٹرنیشنل کی فرنچائز ہے اور سوئس انٹرنیشنل بھی زیادہ پرانی کمپنی نہیں۔
یہ 30 سال قبل بنی تھی اور یہ ہوٹل کی ٹاپ100 چینز میں بھی شمار نہیں ہوتی لہٰذا یہ ہوٹل غیر ملکی ہے، نہ ہوٹل چلانے والی کمپنی اور نہ اس کے مالکان، دوسرا اس ہوٹل میں ٹھہرنے والے ننانوے فیصدلوگ پاکستانی اور مسلمان ہوتے ہیں چناں چہ سوال یہ ہے یہ لائسنس پھر کیوں جاری کیا گیا اور عثمان بزدار جیسے وسیم اکرم پلس مدینہ کی ریاست میں اس کے لیے کریز سے باہر کیوں نکلتے رہے؟ اس سوال کے دو جواب ہیں، نیب کی اطلاعات کے مطابق یہ لائسنس پانچ کروڑ روپے یا سات کروڑ روپے ادا کر کے لیا گیا تھا، یہ رقم کس نے، کس کو کہاں اور کس وقت دی یہ بھی معلوم ہو چکا ہے، ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہیں، یہ نیب کو ان تمام لوگوں کے نام بھی بتانے کے لیے رضا مند ہیں جنہوں نے لائسنس کے لیے ان پر دبائو ڈالا تھا، یہ صاف کہہ رہے ہیں "مجھے جب چیف منسٹر خود بلا کر کہے گا تو میں کیسے انکار کر سکتا ہوں "دوسرا یہ کام کسی پارٹنر نے کرایا اور گوربچن سنگھ جیسا نامعلوم شخص اس کا فرنٹ مین ہے چناں چہ میرا خیال ہےیہ کیس عثمان بزدار کو لے کر بیٹھ جائے گا، یہ ایشو اگر کھل گیا تو وزیراعلیٰ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور اگر نیب یہ فائل بند کر دیتا ہے تو ثابت ہو جائے گا نیب حکومت کی فائلیں جان بوجھ کر نہیں کھولتا لہٰذا خطرہ دونوں طرف موجود ہے، اس ایشو میں وزیراعلیٰ یا نیب دونوں میں سے کسی ایک کو نقصان ہوگا۔
تاریخ میں اگر کسی نے کسی دن عثمان بزدار کے بارے میں لکھنا شروع کیاتو وہ ایک فقرے میں ساری کہانی بیان کر دے گا "عمران خان کی ضد" عثمان بزدار عمران خان حکومت کا سب سے بُرا فیصلہ تھے لیکن عمران خان اپنی افتاد طبع کی وجہ سے اس غلط فیصلے پر ڈٹ گئے اور یوں یہ فیصلہ حکومت کے گلے کا ڈھول بن گیا، آپ کسی دن تحقیق کر لیں آپ وزیراعلیٰ آفس اور ہائوس کی حماقتیں سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، پس ماندہ علاقہ، ناتجربہ کاری یا کمذہانت طعنہ نہیں ہوتی، دنیا میں بے شمار ایسے نابغہ روزگار لوگ موجود ہیں جن کا تعلق پس ماندہ علاقوں سے تھا لیکن انہوں نے کمال کر دیاتاہم پوری دنیا حیران ہے عمران خان کو عثمان بزدار میں کون سا ایسا ٹیلنٹ نظر آگیا جس سے بزدار صاحب خود بھی ناواقف ہیں؟
پنجاب ساڑھے گیارہ کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے، پورے یورپ میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہو اور آپ نےیہ پورا صوبہ اٹھا کر ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جس نے آج تک کراچی نہیں دیکھا، جس کا کوئی انتظامی تجربہ نہیں تھا، جو پڑھ سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے، جو ایس ایچ او تک کی پوسٹنگ میں انوالو ہو جاتا ہے اور جس پر دھڑا دھڑ کرپشن کے الزامات بھی لگ رہے ہیں، وزیراعظم کو پہلے دن سے سب سمجھا رہے ہیں آپ اس فیصلے پر نظرثانی کر لیں، پنجاب کنگ میکر ہے، اگرپارٹی پنجاب میں مار کھا گئی تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی لیکن عمران خان کا صرف ایک ہی جواب ہے "یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہو گی" چناں چہ آج بات اس موڑ تک آ پہنچی ہے جہاں یہ پتھر پوری کشتی کے لیے خطرہ بن گیا لہٰذا آج اگر عمران خان اپنے وسیم اکرم پلس سے دست بردار نہیں ہوتے تو کشتی کے اندر کا پانی پوری کشتی کو ڈبو دے گا، میں نجومی نہیں ہوں لیکن اب اندھوں کو بھی دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے، آنے والے چند ہفتے عثمان بزدار اور عمران خان دونوں کے کیریئر کا مشکل ترین دورثابت ہوں گے، مدینہ کی ریاست میں شراب کا لائسنس انہیں لے کر بیٹھ جائے گا۔