Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wehshatnaak Na-ahli

Wehshatnaak Na-ahli

تاریخ تھی 19 اپریل 2016ء اور چک کا نام تھا 105۔ یہ گاؤں لیہ شہر کے شمال میں 22 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، عمر حیات کے بیٹے محمد سجاد کے گھر شادی کے 10 سال بعد بیٹا پیدا ہوا، وہ بیٹے کی ولادت کی خوشی میں چک 111 گیا، طارق ہوٹل اینڈ سویٹ شاپ سے 5 کلو لڈو خریدے اور یہ لڈو رشتے داروں اور عزیزوں میں تقسیم کر دیے، اہل خانہ نے لڈو کھانے کے چند منٹ بعد قے کرنا شروع کر دی۔

عمر حیات نے اسے معمولی بات سمجھا، گرم علاقوں میں قے اور اسہال عام بیماریاں ہوتی ہیں لیکن جب خواتین اور بچوں کی حالت خراب ہونے لگی تو اس نے ہمسایوں کو پکارا، لوگ اکٹھے ہوئے، الٹیاں کرتے لوگوں کو اٹھایا اور انھیں لیہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال لے گئے، یہ لوگ ابھی بمشکل وہاں پہنچے تھے کہ لڈو کھانے والے دوسرے لوگ بھی اسپتال پہنچنا شروع ہو گئے، اسپتال انتظامیہ نے علاج شروع کیا تو پتہ چلا خادم اعلیٰ کی خدائی میں معدہ صاف کرنے والی مشینیں ہیں، ڈرپیں ہیں اور نہ ہی معدے کے ایکسپرٹ ڈاکٹر ہیں چنانچہ اسپتال میں افراتفری مچ گئی، لوگوں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ اپنے اپنے مریضوں کو موٹر سائیکلوں، ویگنوں، ٹریکٹروں اور ٹرکوں میں لاد کر ملتان، بھکر، کہروڑ پکا، فتح پور اور فیصل آباد چلے گئے، یہ لوگ ان اسپتالوں میں پہنچے تو وہاں بھی لیہ جیسی صورتحال تھی، بدنصیب لوگ مرنا شروع ہو گئے۔

یہ صورتحال ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی، ملک بھر میں کہرام برپا ہوا، پنجاب حکومت نے نوٹس لیا، تخت لاہور کے ہرکارے دوڑے لیکن ہیلتھ کیئر ایک ایسا شعبہ ہے جسے آپ فوری طور پر ڈویلپ نہیں کر سکتے، اسپتال کو بننے، آلات خریدنے، ڈاکٹروں کے بندوبست اور ادویات کی ترسیل کے لیے کم از کم دو سال درکار ہوتے ہیں چنانچہ ہرکاروں کے دوڑنے اور خادم اعلیٰ کے نوٹس کا کوئی فائدہ نہ ہوا، لوگ مرتے چلے گئے، آج شام تک چک 105 کے 32 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں عمر حیات کے خاندان کے 12 افراد بھی شامل ہیں، ان افراد میں عمر حیات کے 8بیٹے، ایک بیٹی، دو پوتیاں اور ایک پوتا شامل ہیں یوں عمر حیات کا پورا خاندان قبروں میں جا سویا، اس کے گھر میں اب دو بیوہ بہوؤں اور تین پوتے پوتیوں کے سوا کوئی نہیں بچا، پولیس نے مٹھائی بنانے والے دونوں بھائیوں اور ان کے 12 سالہ ملازم کو گرفتار کر لیا ہے، ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری لاہور نے مٹھائی میں Chlorfinappyer زہر کی تصدیق کر دی ہے، یہ کیمیکل ہے اور یہ عموماًکیڑے مار ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ واقعہ جہاں افسوسناک ہے وہاں اس نے ایک ہی جھٹکے میں خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کی قلعی بھی کھول دی، یہ درست ہے، لیہ جیسے واقعات ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور دنیا کی کوئی حکومت ایکسیڈنٹ نہیں روک سکتی، کسی بستی پر پہاڑ گر جائے، دریا کسی شہر کو صفحہ ہستی سے مٹا دے، زلزلہ آئے، لاکھوں لوگوں کو زمین نگل جائے، آئل کا کوئی ٹینکر گرے، پھٹے اور پورے گاؤں کو جلا کر راکھ کر دے یا پھر خوراک میں زہر مل جائے اور درجنوں لوگ مارے جائیں، دنیا کی کوئی حکومت یہ واقعات نہیں روک سکتی لیکن حکومت ان واقعات کے بعد کیا کرتی ہے، کیا اس کے پاس ریسکیو کے باقاعدہ انتظامات ہیں، کیا یہ مریضوں اور زخمیوں کو وقت پر اسپتال پہنچاتی ہے اور کیا اسپتالوں میں آلات، ڈاکٹر اور ادویات موجود ہیں؟

یہ سوال اور ان کے جواب حکومتی کارکردگی کا اصل ٹیسٹ ہوتے ہیں، حکومتیں اچھی ہیں یا بری، یہ کارآمد ہیں یا نالائق اس کا فیصلہ حادثوں کے بعد کی صورتحال کرتی ہے اور ہمیں یہ ماننا ہوگا راجن پور میں چھوٹو گینگ اور لیہ میں لڈو گینگ نے میاں شہباز شریف کی 8 سالہ کارکردگی کا پول کھول دیا، یہ دونوں واقعات گواہ بن گئے میاں شہباز شریف کی گورننس سڑکوں، انڈر پاسز، میٹرو اور اورنج لائین ٹرین سے شروع ہوتی ہے اور یہیں پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔

میاں شہباز شریف نے 8 برسوں میں پنجاب پولیس پر اربوں روپے خرچ کیے لیکن یہ اربوں روپے 9 کلو میٹر لمبے جزیرے سے چھوٹو اور اس کے 12 ساتھیوں کو گرفتار نہ کر سکے، میاں شہباز شریف کے 8 اضلاع کی پولیس 21 دن کچا جمال کے سامنے کھڑی رہی لیکن یہ چھوٹو کو گولی مار سکی اور نہ ہی پکڑ سکی، چھوٹو نے الٹا پولیس کے 25 اہلکار یرغمال بنا لیے، چھوٹو کو گرفتار اور یرغمالی پولیس اہلکاروں کی رہائی، یہ نیک کام فوج کو کرنا پڑ گیا، فوج نے جب 20 اپریل کی شام چھوٹو کو گرفتار کیا تو دیہاتیوں نے باہر نکل کر جنرل راحیل شریف زندہ باد اور پاک فوج پایندہ باد کے نعرے لگائے، یہ نعرے پنجاب پولیس اور اس میاں شہباز شریف کے لیے لگنا چاہیے تھے جو مسلسل 8 برسوں سے پنجاب کے والی ہیں، میرا ذاتی خیال ہے چھوٹو نے جس وقت فوج کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے میاں شہباز شریف کو اسی وقت اپنی ناکامی تسلیم کر کے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، میاں شہباز شریف کل جب لیہ پہنچے اور انھوں نے عمر حیات کے 8 بیٹوں کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھائے تو انھیں اس وقت بھی اپنی ناکامی تسلیم کر کے اپنی گاڑی سے چیف منسٹر کا جھنڈا اتار دینا چاہیے تھا لیکن پنجاب کا خادم یہ جرأت نہ کر سکا۔

اللہ کی پناہ آپ آٹھ برس سے بلا شرکتِ غیر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن آپ آٹھ برسوں میں پولیس کے اندر ایک بھی ایسی پلٹن یا یونٹ نہیں بنا سکے جو چھوٹو جیسے مجرموں کا مقابلہ کر سکے اور آپ پنجاب کے 36 اضلاع میں ایسے اسپتال بھی نہیں بنا سکے جن میں زہر خورنی کا علاج ہو سکے، جن میں تیس چالیس لوگوں کے معدے صاف کیے جا سکیں، آپ اضلاع، شہروں اور قصبوں کے لیے اچھی ایمبولینس سروسز کا بندوبست بھی نہیں کر سکے، صوبے کی حالت یہ ہے، ڈینگی10سال سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے لیکن حکومت آج تک سپرے کرنے والوں کو ٹرینڈ نہیں کرسکی، مجھے یقین ہے اس سال بھی جب اسکولوں میں سپرے ہوگا تو طالب علم پچھلے سال کی طرح بے ہوش ہوں گے اور اسپتالوں میں ان کے علاج کی سہولتیں نہیں ہوں گی، پنجاب پولیس خادم اعلیٰ کی آٹھ سالہ خدمات کے بعد بھی کرپٹ ہے۔

یہ آج بھی لوگوں کو پولیس مقابلے میں قتل کر رہی ہے، آپ کسی تھانے کے اہلکاروں کو باہر نکال کر دوڑ لگوا لیں یہ اگر بے ہوش نہ ہوں تو آپ میاں شہباز شریف کو سر کا خطاب دے دیجیے گا، آپ صرف لاہور کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں چلے جائیں، آپ کو اگر کسی ایک اسکول، کسی ایک کالج میں وہ ساری سہولتیں مل جائیں جو کالج اور اسکول کے لیے ضروری ہوتی ہیں تو آپ میاں شہبا زشریف کو "نائیٹ" ڈکلیئر کر دیجیے گا، میاں شہباز شریف آف شور کمپنیوں کے ایشو پر بھتیجوں کی مدد کے لیے میدان میں آ گئے ہیں۔

یہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی کرپشن تک بھی پہنچ گئے ہیں لیکن یہ آج تک چھوٹو جیسے مجرموں کے لیے میدان میں اترے اور نہ ہی ان کی وہ ایڑھیاں لیہ پہنچیں جنھیں رگڑ رگڑ کر یہ وطن کی مٹی سے چشمے نکالنا چاہتے ہیں، کیوں؟ اس کا حساب کون دے گا؟ میاں برادران چوہدری پرویز الٰہی کے دور کو برا کہتے ہیں، یہ ان کے دور کی ادھوری سڑکوں، پلوں، انڈر پاسز اور سرکلر روڈز کا رونا روتے ہیں، یہ مونس الٰہی کی کرپشن کا واویلا بھی کرتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں چوہدری پرویز الٰہی نے سڑکیں ادھوری چھوڑ دیں لیکن انھوں نے 1122 جیسی سروس اور ٹریفک وارڈن جیسے ادارے بنائے تھے مگر آپ نے پولیس سروس اور صحت کے میدانوں میں کیا کیا؟ مجھے یقین ہے آپ اپنی خدمات کا انبار لگا دیں گے۔

آپ پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کے اشتہاروں کا ڈھیر لگا دیں گے لیکن اس ڈھیر، اس انبار کو لیہ اور راجن پور جیسے واقعات کی دو دیا سلائیاں جلا کر راکھ بنانے کے لیے کافی ہیں اور باقی کسر ایل ڈی اے کے سابق ڈی جی احد چیمہ پوری کر دیں گے، یہ وہ شخص ہے جس نے خادم اعلیٰ کے دور میں ایک صاحبزادے اور ایک وفاقی وزیر کی دل کھول کر خدمت کی، اس خدمت نے اسے بھی ارب پتی بنا دیا اور صاحبزادے اور وفاقی وزیر کی خدمات بھی وسیع ہوگئیں، احد چیمہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ اس ادارے سے ڈرتا ہے جس نے کرپشن کے الزام میں اپنے تھری اسٹار ساتھیوں کو بھی نہیں چھوڑا، یہ شخص جس دن گرفتار ہوگیا اس دن خدمت کے باقی راز بھی کھل جائیں گے۔

آپ پانامہ لیکس پر بے شک استعفے نہ دیں، آپ اس پر کمیشن بناتے چلے جائیں، ٹی او آرز پر ٹی او آرز تراشتے چلے جائیں، آپ کمیشنوں کی رپورٹس کا انتظار بھی کریں اور آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جتنا چاہیں مخالفین کی مٹی بھی پلید کرتے رہیں لیکن آپ لیہ کے سانحے اور کچا جمال میں اپنی نااہلی سے انکار نہیں کر سکتے، آپ کو یہ ماننا ہوگا، آپ پنجاب کو آٹھ برسوں میں اچھے اسپتال دے سکے، اچھی پولیس اور نہ ہی اچھے اسکول۔ آپ آٹھ برسوں میں پنجاب کے لیے مناسب ہوم منسٹر اور ماہر وزیر صحت بھی تلاش نہیں کر سکے، آپ صرف لاہور شہر! جی ہاں صرف ایک شہر کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجیے ان نااہلیوں کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا حساب کون دے گا؟ آپ پانامہ لیکس کو دشمنوں کی سازش سمجھتے ہیں، آپ سمجھتے رہیں لیکن چھوٹو لیکس اور لیہ لیکس تو آپ کی اپنی نااہلی ہے، یہ تو کسی دوسرے کی سازش نہیں، آپ کو یہ ذمے داری تو قبول کرنی چاہیے، آپ کو اپنی اس وحشت ناک نااہلی پر تو استعفیٰ دینا چاہیے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.