آپ دوبارہ شجاعت عظیم کی مثال لیجیے، یہ پاکستان ائیر فورس میں ملازم تھے، یہ 1979ء میں فلائیٹ لیفٹیننٹ تھے، یہ پڑھنے کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے لیکن انھیں اجازت نہ ملی، ان کے ساتھیوں میں ائیر چیف کا بیٹا بھی شامل تھا، اس نے اپلائی کیا، محکمے نے اسے چھٹی دے دی، شجاعت عظیم نے اس دوہری پالیسی پر احتجاج کیا، سینئر ناراض ہو گئے چنانچہ ان کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی، 1979ء میں ان پر الزام لگا، یہ سواسات کے بجائے ساڑھے آٹھ بجے ڈیوٹی پر آئے ہیں، اس الزام میں ان کا کورٹ مارشل ہوا اور انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔
شجاعت عظیم نے شکر ادا کیا، یہ ملک سے باہر چلے گئے، تعلیم بھی حاصل کی، کاروبار بھی کیا اور لبنان کے حکمران خاندان "الحریری فیملی" کے پاس نوکری بھی کی، یہ ان کے خاندانی پائلٹ تھے، شجاعت عظیم نے زندگی کے ان ادوار میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کمائے، لاہور میں"سکھ چین" کے نام سے ہاؤسنگ اسکیم بنائی، کینیڈا اور امریکا میں کاروبار کیا، پاکستان کے ائیر پورٹس کو سروسز دیں، فارما سوٹیکل کمپنی بھی بنائی اور گلف کے شاہی خاندانوں اور شہزادوں کے ساتھ تعلقات بھی بنائے، یہ زندگی کی ایک طویل اور کامیاب اننگز کے بعد 2013ء میں ملکی نظام میں واپس آ گئے، وزیراعظم نے سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع سے الگ کیا، پی آئی اے، ائیر پورٹ سیکیورٹی فورس اور محکمہ موسمیات کو سول ایوی ایشن کے ساتھ اکٹھا کیا اور یہ چاروں شعبے شجاعت عظیم کے حوالے کر دیے۔
یہ وزیراعظم کے مشیر بن گئے، اللہ تعالیٰ نے انھیں دولت اور خوش حالی سے نواز رکھا تھا چنانچہ شجاعت عظیم نے ان خدمات کے عوض کسی قسم کامعاوضہ، مراعات اور سہولتیں لینے سے انکار کر دیا، یہ سرکار کے "مفت ملازم" ہو گئے، یہ 8 اپریل 2016ء تک اس عہدے پر فائز رہے، وزیراعظم نے توہین عدالت سے بچنے کے لیے 8 اپریل کو ان کا استعفیٰ قبول کر لیا، اس فیصلے سے قبل اسلام آباد میں یہ خبر گردش کر رہی تھی سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی توہین پر وزیراعظم کے ساتھ وہ سلوک کر سکتی ہے جس کاشکار ہو کر یوسف رضا گیلانی گھر چلے گئے تھے، وزیراعظم کے ساتھیوں نے انھیں سمجھایا " آپ شجاعت عظیم کا استعفیٰ منظور کر کے کم از کم یہ محاذ تو بند کر دیں" وزیراعظم مان گئے اور یوں شجاعت عظیم کا استعفیٰ قبول ہوگیا اور یہ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے گھر چلے گئے لیکن یہ بعد کی کہانی ہے، ہم پہلے 2013ء میں جائیں گے۔
شجاعت عظیم نے 7 جون 2013ء کو عہدہ سنبھالا، اس وقت سول ایوی ایشن کی پالیسی کو ختم ہوئے 13 سال گزر چکے تھے اور پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جس کی کوئی سول ایوی ایشن پالیسی نہیں تھی، یہ ایک خطرناک صورتحال تھی کیونکہ یہ بات اگر دنیا کے نوٹس میں آ جاتی تو پاکستان کو ہائی رسک کنٹری قرار دے دیا جاتا اور ملک کا رہا سہا وقار بھی مٹی میں مل جاتا، ائیر پورٹس کی صورتحال بھی خراب تھی، ملتان ائیر پورٹ اور اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا کام رکا ہوا تھا، ملک کے باقی ائیر پورٹوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، ریڈار سسٹم 25 سال پرانا تھا، یہ اپنی طبعی زندگی پوری کر چکا تھا، سکیننگ مشینیں پرانی اور خراب تھیں، لاؤنجز کی حالت قابل رحم تھی، ائیر پورٹس کے باتھ روم بس اڈوں کے بیت الخلاء لگتے تھے۔
پی آئی اے صرف 18 جہازوں تک محدود ہو چکی تھی، سالانہ خسارہ 42 ارب 98 کروڑ تک پہنچ چکا تھا، فلائیٹوں کی تاخیر معمول تھی، مسافروں کو لاؤنج سے جہاز تک لے جانے والی گاڑیاں ناقابل استعمال تھیں، عملہ دنیا جہاں میں منشیات اور اسمگلنگ کے الزامات میں پکڑا جا رہا تھا اور ٹریننگ اور سیکیورٹی کی صورتحال بھی پوری دنیا کے سامنے تھی، شجاعت عظیم نے کام شروع کیا اور اڑھائی سال میں صورتحال بدل کر رکھ دی، آپ آج کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس پر جائیں، آپ کو 2013ء اور 2016ء کی صورتحال میں واضح فرق نظر آئے گا، پی آئی اے کے جہاز 18 سے 44 ہو چکے ہیں، سول ایوی ایشن پالیسی بھی آ چکی ہے، ملک کے تمام بڑے ائیرپورٹس پر نئے ٹرمینلز بھی بن چکے ہیں، وہ ملتان ائیر پورٹ جسے یوسف رضا گیلانی پورا زور لگانے کے باوجود اپنے دور میں مکمل نہیں کرا سکے، وہ نہ صرف مکمل ہے بلکہ چل بھی رہا ہے۔
اسلام آباد ائیرپورٹ کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہے، یہ اب معزز ائیر پورٹ دکھائی دیتا ہے، لاہور ائیرپورٹ کا نیا حج لاؤنج بھی قابل تعریف ہے، اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ کا 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، کوئٹہ اور پشاور کے ائیر پورٹ "اپ گریڈ" ہو رہے ہیں، فیصل آباد اور گوادر کے ائیر پورٹس پر دھڑا دھڑ کام جاری ہے، پرانے نیوی گیشن سسٹم کی جگہ کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں نیا ریڈیو نیوی گیشن سسٹم لگ چکا ہے، شجاعت عظیم نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے قطر حکومت سے اڑھائی ارب روپے کا لینڈنگ سسٹم (آئی ایل ایس) بھی لے لیا، یہ سسٹم لاہور ائیر پورٹ پر نصب ہے اور یہ قطر حکومت کی طرف سے پاکستان کے لیے تحفہ ہے، نیا ریڈار سسٹم بھی لگ چکا ہے، کراچی ائیر پورٹ کا نیا ائیرو برج بھی مکمل ہو چکا ہے۔
ائیر پورٹس کی سیکیورٹی بھی ٹھیک ہو چکی ہے، نئی سکیننگ مشینیں بھی آ چکی ہیں، بحرین نے 360 ڈگری ائیرو ڈروم سیمولیٹرز بھی پاکستان کو گفٹ کر دیے ہیں، پی آئی اے کا خسارہ بھی 54فیصد کم ہوگیا ہے، جہازوں کی اندرونی حالت بھی تیزی سے بدل رہی ہے اور ملک کی 84 فیصد فلائیٹس بھی وقت پر آتی اور جاتی ہیں، یہ ان درجنوں خدمات میں سے چند خدمات ہیں جو اس مفت کے سرکاری خدمت گار نے اڑھائی برسوں میں سرانجام دیں، یہ تمام خدمات قابل تعریف ہیں، ملک کے زیادہ تر ادارے اور فضائی مسافر بھی ان خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، بس شجاعت عظیم میں ایک خرابی تھی یہ 1979ء میں کورٹ مارشل ہوئے تھے، یہ کورٹ مارشل ان کے لیے سنگین جرم بن گیا اور یہ عدالتوں میں دھکے کھانے کے بعد عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
ملک میں قانون، اداروں کے ضابطے اور اخلاقیات تینوں سپریم ہونی چاہئیں، میں دل سے اس کا حامی ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں، قانون وہ واحد طاقت ہے جو جنگل کو معاشرے میں تبدیل کرتی ہے، جس معاشرے میں ضابطہ، قانون اور اخلاقیات نہ ہوں اس معاشرے کو معاشرہ کہنا معاشرے کی توہین ہے، کورٹ مارشل عسکری اداروں کا خوفناک ترین ضابطہ ہے، افسر اس سزا کے بعد معاشرے میں اچھوت بن کر رہ جاتے ہیں، یہ سزا عسکری اداروں میں سیکڑوں سال سے جاری ہے اور یہ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں موجود ہے، ہم بھی معاشرہ ہیں چنانچہ یہ سزا ہمارے ملک میں بھی ہونی چاہیے کیونکہ عسکری اداروں میں اس کے بغیر ڈسپلن ممکن نہیں لیکن ہمیں شجاعت عظیم جیسے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر اس سزا میں چند ترامیم بھی کرنی چاہئیں۔
یہ زیادتی ہے کہ آپ کسی شخص کو کسی جرم کے بعد پوری زندگی کے لیے ملک کی خدمت سے روک دیں اور آپ اس پر پابندی لگا دیں کہ وہ آخری سانس تک تنخواہ، مراعات اور سہولتوں کے بغیر بھی ملک کے لیے کام نہیں کر سکتا، یہ نہیں ہونا چاہیے، شجاعت عظیم کا 1979ء میں کورٹ مارشل ہوا، انھوں نے گزشتہ 35 برسوں میں ملک کے اندر اور باہر بے شمار کاروبار کیے اور ان سے کروڑوں روپے کمائے، ریاست کو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن جوں ہی انھوں نے نفع نقصان سے بالاتر ہو کر ملک کے لیے مفت کام کرنا شروع کیا تو معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا اور وزیراعظم اپنی کرسی بچانے کے لیے شجاعت عظیم کا استعفیٰ قبول کرنے پر مجبور ہوگئے، ہماری عدالتوں کو چاہیے تھا، یہ فیصلے سے پہلے ان کے کورٹ مارشل کی تفصیلات کا مطالعہ بھی کر لیتیں، یہ دیکھ لیتیں ان کو کرپشن، ملک دشمنی یا جہاز کے غلط استعمال پر فارغ کیا گیا یا پھر انھیں دفتر لیٹ پہنچنے پر نوکری سے نکالا گیا تھا، یہ مطالعہ یقینا فیصلے کو آسان بنا دیتا۔
شجاعت عظیم اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، ہم انھیں جانے دیتے ہیں لیکن ہمیں کم از کم مستقبل کے لیے اپنا سسٹم ضرور ٹھیک کر لینا چاہیے، ہم کورٹ مارشل کی سزا کی مدت طے کیوں نہیں کر دیتے، ہم قانون میں ترمیم کر کے یہ شق ڈال دیں کہ ملزم بیس سال تک کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھال سکتا، یہ بیس سال یا تیس سال بعد سرکاری خدمات کا اہل ہو جائے گا اور ہم قانون میں یہ شق بھی ڈال سکتے ہیں کہ عدالتوں، کورٹ مارشلز اور اخلاقی ضابطوں کے ملزم سرکاری خدمات انجام دے سکتے ہیں لیکن یہ اس کے عوض کسی قسم کا معاوضہ، مراعات، سہولتیں یا پنشن نہیں لے سکیں گے، ہم ان لوگوں کو کام سے تو نہ روکیں، انسان کو اصلاح کا موقع تو اللہ تعالیٰ بھی دیتا ہے۔
یہ بھی آخری سانس تک اس کے لیے توبہ، اس کے لیے معافی کے دروازے کھلے رکھتا ہے جب کہ ہمارا نظام نکالے ہوئے لوگوں کو 35 برس بعد بھی ملک کی خدمت، ملک کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیوں؟ ہمارے ملک میں بے ایمان اور نااہل لوگ پوری زندگی قوم کا خون چوستے ہیں، ہمارا نظام ان کا احتساب نہیں کرتا، ہمارے ملک میں ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک آئین سے غداری، قانون شکنی اور پورے سسٹم کو آئین سمیت لپیٹے جانے کے ثبوت گلیوں میں بکھرے پڑے ہیں، ہم آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکے، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں۔
جس میں ملک توڑنے والوں کا کورٹ مارشل نہیں ہواتھا، جس میں بھٹو آج بھی زندہ ہے اور جس میں جنرل پرویز مشرف آرٹیکل چھ کی ہتھکڑیاں ساتھ لے کر دوبئی چلے گئے ہیں لیکن ہم شجاعت عظیم کو کام کرنے کے باوجود، ڈیلیور کرنے کے باوجود مجرم سمجھتے ہیں، کیوں؟ اس کا جواب کون دے گا، ہم جواب نہیں دے سکتے تو ناں دیں لیکن ہم کم از کم نظام میں موجود خامیاں تو ٹھیک کرلیں، ہم نے جتنی رعایتیں جنرل نیازی، جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کو دی تھیں ہم کم از کم ان میں سے دس فیصد شجاعت عظیم جیسے لوگوں کو بھی دے دیں اور اگر ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم ازکم ان کی خدمات کا اعتراف تو کر لیں اور ہم جب ائیر پورٹوں میں داخل ہوں یا باہر نکلیں تو ہم کم از کم یہ تو کہہ دیں"ویل ڈن شجاعت عظیم" اس کے لیے تو قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیا ہمارے دل میں اتنی بھی گنجائش نہیں۔