Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Alvida 2020

    Alvida 2020

    کتناعجیب تھا یہ سال!بہت ہی عجیب۔ جون ایلیا کی سطروں کی طرح۔

    میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

    خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

    نہ کوئی جنگ ہوئی، نہ جنگ کے طبل بجے لیکن پھربھی لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جیسے کوئی جنگِ عظیم ہو یا پھر کوئی ناگہانی آفت۔ دنیا سنسان، گلیاں ویران جیسے کوئی کرفیو نافذ ہو۔ شہر کے شہر خاموش، قہوہ خانے خالی، ہوائی جہاز ہوں یا پھر ریل گاڑیاں سب ویران۔ ہاں بس اسپتال تھے، جو بھرے ہوئے تھے، جہاں ایک بستر تک خالی نہ تھا۔ اس تمام مدت میں تیل کی عالمی قیمتیں اس قدر گریں کہ کہیں شاید مفت میں بھی تیل خریدنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔

    گاڑیوں کی آلودگی کم ہونے کی وجہ سے آسماں اتنا نیلگوں ہو گیا کہ شاید کہیں بچپن میں ایسا آسمان میں نے ا پنے گاوٌں میں دیکھا تھا یا پھر دیو سائی پلوٹو پر، ریگ زاروں کی لامتنائی ترتیب کی اور دیکھا تھا۔ چار مہینے تک میں نے(Self Quarantine) قرنطینہ کیا اپنے گھر کے بیسمنٹ میں، وہ میری دشتِ تنہائی تھی۔ میں میرے بیٹے اور میری بیوی ہم سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ تھے۔

    گھر کے ملازموں پر بھی یہی پابندی لاگو تھی کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جائیں اور اگر جائیں تو ان پر یہ لازم تھا کہ واپس آکر اپنے پہنے ہوئے کپڑے الگ تھیلی میں ڈالیں اور گرم پانی سے نہائیں۔ بڑا ذہنی اضطراب تھا جس سے ہم سب گذرے۔ یہ وقت گذر گیا لیکن جاتے جاتے بھی یہ موجود ہے، اپنی بے رحمی کے ساتھ۔ نئے سال کی آمد کے ساتھ کورونا وائرس کا توڑ بھی ایجاد ہو چکا ہے۔ اس وائرس کی ہیجانی کیفیت وہ تو نہ رہی مگر یہ اب بھی زندہ ہ، ے اپنی شدت کے ساتھ، ہاں مگر اس کے خاتمے کا سامان ہو چکا ہے۔

    ہم سب فطرت سے لڑ رہے تھے، ارتقاء کی تمام منزلیں پار کرنے لگے تھے۔ خود ہم فطرت اور ما حول کے لیے مسا ئل پیدا کر رہے تھے۔ ہم انسان بنیادی طور پر گوشت خور ہیں، ہم نے طرح طرح کے جانوروں اور پرندوں کا گوشت کھا یا، لیکن نسل انسانی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چوہوں، بندروں اور چمگادڑوں کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور ریسرچ یہی بتاتی ہے کہ کہ کورونا وائرس کا پھیلاوٌچمگادڑوں سے ہوا ہے۔

    اس ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے جو درجہ حرارت بڑھا ہے، اس کی وجہ سے انٹار ٹیکا اور الاسکا میں برف جو ہزار سال سے جمی ہوئی تھی میلوں تک، اب پگھلنے لگی ہے۔ سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اس جمی ہوئی برف میں کورونا جیسے وائرس کے جراثیم موجود ہیں اور خدشہ یہی ہے کہ دنیا ہر دس سال بعد کسی نہ کسی مہلک وائرس کا شکار ہوگی جو چیز پہلے صدیوں میں ہوتی تھی، اب ہمیں ان بیماریوں کا مسلسل سامنا کرنا ہوگا۔

    میں نے جتنے ناول پڑھے، گارشیا مارکیز سے لے کر چی گوف تک یا پھردنیا کی مختلف تاریخوں میں، روم کی تاریخ میں، لندن کی تاریخ یا پھر میکسکو کی کتھا میں یا پھر دنیا کے مختلف ادوار میں، فرعون کا دور ہو یا پھر رومن دور ان تمام ادوار میں اس طرح کی بیماریاں موجود رہیں اور بنی نوع انسان ان بیماریوں سے دوچار ہوا۔ جب اسٹیم انجن کے ذریعے بحری جہازوں کا سفر عام ہواتو ہجرتوں کا سلسلہ بھی عام ہوا۔ یہاں سے بھی لوگ حج کے فریضے کے لیے اسی طرح بحری جہاز کے ذریعے جایا کرتے تھے۔ یہ جو سیلانی تھے یا پھر ہجرت کرنے والے پرندے یا جانور تھے ان جانوروں کے آنے جانے سے یہ بیماریاں پھیلیں۔ ایڈز سے لے کر چیچک تک۔

    سال 2020 ایک انوکھا سال تھا میری زندگی کا کہ کس طرح میں نے اپنے پیاروں کو اس مرض میں دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا۔ پت جھڑ کے موسم نے اس سال پر جیسے قبضہ جما لیا اور میں جیسے ایک راہ گذر جس نے اپنے آغوش میں سب کچھ سما لیا۔ اس پر ستم یہ کہ ہم اپنے پیاروں کی نمازِ جنازہ میں بھی شرکت نہ کرسکے، ان کو آخری بار دیکھ بھی نہ سکے۔ اس بیماری سے بچنے کے لیے جو اصول مجھے اپنانے چاہیے تھے وہ میں نے اپنائے کیونکہ زندگی قیمتی تھی، ایک امانت تھی۔

    زندگی کی ان مسافتوں میں ابھی بہت سے کام ہیں جو میرے ذمے ہیں، بہت کچھ لکھنا ہے، پڑھنا ہے، سوچنا ہے اور ان مسا فتوں کو رقم بھی کرنا ہے بالکل دوستووسکی کے اس جملے کی مانند "زندگی موت کے بستر پر آخری سانسیں بھی کیوں نہ لیتی ہو مگر موت سے بہتر ہے۔" اس سال جیسے موت کو گھر کی دہلیز پر روکا ہے میں نے، شیخ ایاز کی طرح جیسے انھوں نے کہا کہ کہ تو چلی جا کہ مجھے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ کتنے کنبے تھے جو ان لمحات سے گذرے جب ان کے پیارے وینٹیلیٹرز پر چلے گئے۔

    نجی اسپتالوں نے ان لوگوں سے خوب کمایا اور سرکاری اسپتالوں کے بھید کھل گئے۔ خان صاحب کی حکومت نے اور چیزوں کے ساتھ ساتھ دوائیاں بھی مہنگی کردیں۔ سال 2021 میں کورونا کا خاتمہ تو نظر آرہا ہے مگر جو کورونا ہماری سیاست کو لگ گیا ہے اس کا کیا؟ کل جو کام نواز شریف صاحب کرتے تھے کہ جمہوریت کو روند کرچلے جاتے تھے آج وہ زرداری صاحب کررہے ہیں۔ گڑھی خدا بخش جو جمہوریت کے امینوں کا مکان ہے، جمہوریت کے شہیدوں کا الم ہے، آج اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

    جمہوریت کے اس کارواں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ پنجاب کی ایک بیٹی اور سندھ کی بیٹی کا فرق ختم ہوا۔ کل ہم سندھی جب 1983 کی ایم آر ڈی تحریک میں یہ کہہ رہے تھے کہ پنجاب ہمیں دھوکا دے کے کر بھاگ گیا تو آج وہ بھی ہمیں کہہ سکتے ہیں کہ سندھ ہمیں دھوکا دے کر بھاگ گیا۔ ہماری جمہوریت بھی ہماری طرح ہے بے بس اور معذور جمہوریت۔ ایسی جمہوریت جو ہندوستان اور بنگلہ دیش میں رائج ہے، افسوس وہ ہمیں نہ مل سکی۔ جمہوریت ہونے کے باوجود بھی ہم آمریتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

    سال2021 میں کورونا تو چلا جائے گا مگر یہ سال ہماری جمہوریت کے لیے بہت اہم ہے۔ ہمیں ابھی بہت سے پاپڑ بیلنے ہیں۔ لانگ مارچ اور جلسوں سے خاطر خواہ حل نہ مل سکا۔ پیپلز پارٹی بھی کہاں جائے آخر۔ ان کے پاس اب کہاں رہے وہ جیالے، اب تو بس وڈیرے ہیں جن کے اپنے اپنے ڈیرے ہیں۔ ایک متحدہ بھی سندھ کی پارٹی ہے جس میں کسی وڈیرے کا وجود نہیں، یہ الیکٹبلز تو نہیں لیکن ہمیشہ جمہوریت کے خلاف استعمال ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ آمریتوں کے کے ہاتھوں کھیلناان کا اولین فرض رہا، تبھی تو آج ان کا یہ حال ہے! تنہا تنہا پورے پاکستان سے جدا ان کا بیانیہ ہے۔

    سال 2020 یوں نہیں جانا تھا، کچھ ایسی یادیں چھوڑے جا رہا ہے کہ آج اس کو الوداع کہتے ہوئے کوئی افسوس نہیں۔ کوئی دکھ نہیں بلکہ شاید خوشی ہے۔ 2021 نے کورونا ویکسین کی خوشخبری سنادی ہے مگر جس طرح 2020 میں میرے وطن کے لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا اسی طرح 2021 پربھی سیکڑوں سوالیہ نشان ہیں کیونکہ ہماری سیاست میں جو کورونا پھیلی ہے اس کی کوئی ویکسین ابھی ایجاد نہیں ہوئی۔

    سال 2020 کی آخری شام جب میں نے ڈوبتے سورج کو سمندر کی لہروں کے پار الوداع کیا تو یہ آنکھیں نم سی ہو گئیں۔ کتنے پیارے دوست تھے جو اس سال ہم سے بچھڑ گئے۔ میرے بہت ہی اچھے دوست ایڈووکیٹ ایس ایم اقبال گھنٹوں میرے ساتھ ہائی کورٹ بار میں بیٹھ کر سیاسی تبصرے کرتے، وہ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ میرے بہت ہی اچھے دوست تھ، ے واجد کانگو جن کے ساتھ میں نے بینک میں ایک ہی ڈیسک پر کئی سال بتائے وہ اس سال اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرتضی بلوچ جن کے ساتھ میں نے اپنا لڑکپن گزارا پٹارو کالج میں اور سب سے بڑا زخم ہے میر حا صل بزنجو کی موت جو شاید تا عمر تازہ رہے گا۔ ہاں مگر اس سال سے یہ امید کرتے ہیں کہ یہ کارواں رواں رہے اس تسلسل کے ساتھ کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی ہو۔

    غالب خستہ کے بغیر کو ن سے کام بند ہیں

    روئیے زار زارکیا کیجیے ہائے ہائے کیوں

    (مرزا غالب)