کچھ چیزیں نوشتۂ دیوار ہوتی ہیں، مگر ہم انھیں پڑھ نہیں پاتے یا پھر پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ سب سامنے ہے کہ سیاست کروٹ بدل چکی ہے مگر ہم ہیں بے خبر۔ کورونا بے لگام ہو چکا، اب چاہے آپ کتنے ہی لاک ڈاؤن کریں اور ان لاک ڈاؤنز کے نام بھی بدل دیں، اسمارٹ لاک ڈاؤن یا پھر کچھ اور، پھر آپ ٹائیگر فورس بھی بنا لیں اور پھر بھلے ہی آپ یہ بھی کہتے رہیں کہ یہ ریاست مدینہ ہے، کرپشن نے ملک کو تباہ کردیا اور آپ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
آپ نے جس احتساب کے بارے میں کہا تھا، اس احتساب کے بارے میں سپریم کورٹ نے بھی کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کچھ کہا ہے۔ دنیا میں چینی سستی ہورہی ہے مگر یہاں مہنگی، آٹا یوٹیلٹی اسٹورز سے غائب اور ہونا بھی چاہیے جب مارکیٹ سے اتنا سستا ہوگا تو خود یوٹیلٹی اسٹور کے ملازمین خرید کر باہر بیچتے ہوں گے۔ مارکیٹ فورسز سے لڑتے نہیں ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ پٹرول اتنا سستا ہوا کہ پٹرول بیچنے والوں نے پٹرول ذخیرہ کرلیا اس امید پر کہ اب یہ دوبارہ مہنگا ہوگا۔
یقینا فرق ہے کرکٹ کا کپتان ہونے اور ملک کا کپتان ہونے میں۔ اور اگر 1992 کی ٹیم میں وہ کھلاڑی نہ ہوتے جو ورلڈ کپ جیتے تو کپتان کی کپتانی بے سود تھی مگر کپ لے کر جیتنے کا سارا اعزاز اپنے سر لے لیا۔ تو پھر جو ہار ہوئی اس کا ذمے دار کون تھا؟ اور اب جب آپ ملک کے کپتان ہیں تو کیا آپ کی ٹیم اتنی مضبوط ہے۔
اسٹور کی دوائیاں غائب، آکسیجن کے سلینڈر غائب، اسپتالوں نے کورونا کے کیسز لینا چھوڑ دیے ہیں۔ نجی اسپتال منہ مانگی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ آپ کے آنے سے سندھ حکومت کی نالائقیاں دب سی گئی ہیں جو کل تک بہت نمایاں نظرآتی تھیں۔
غربت کئی اقسام کی ہوتی ہیں سب پر قابو پایا جاسکتا ہے سوائے ذہنی غربت کے۔ آپ پہلے یہ کہتے رہے کہ کورونا ایک فلو ہے جان لیوا نہیں اور چار دن میں بندہ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت لاکھ بری صحیح مگر ان کو حالات کا ادراک ضرور تھا۔ ان کو سب کچھ نظر آرہا تھا کہ اسپتال بھر جائیں گے، ہیلتھ سسٹمز بیٹھ جائیں گے مگر آپ کہتے رہے کہ معیشت برباد ہوجائے گی، لوگ بے روزگار ہوجائیں گے حکومت کے محصولات کم ہوجائیں گے۔ وہ کہتے رہے کہ معیشت کو تو پھر بھی سنبھال لیں گے، مگر لوگ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ ٹڈی دل کا حملہ، فصلوں کی تباہی، زراعت کا نقصان مگر آپ کے پاس کوئی واضع پالیسی نہیں۔
بجٹ آگیا اور اب ہمارا حملہ صوبوں کے پیسوں پر ہے ہم نے ان کی این ایف سی ایوارڈ میں کٹوتی کردی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہ صوبے ہیں جن کے دائرہ کار میں صحت کا شعبہ آتا ہے اور اس شعبے کے لیے اس وقت زیادہ بجٹ درکار ہے۔ وہ پاور جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں وہ اسی فیصد صوبوں کے پاس ہیں اور صوبوں کے اسی فیصد اخراجات سوشل اخراجات ہیں جب کہ وفاق کے اخراجات قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے لیے ہیں۔
ملک کا بنیادی مسئلہ نان ڈاکیومنٹڈ معیشت ہے۔ وہ معیشت جو ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ ہمارے ٹیکس کی مجموعی پیداوار کی نسبت جو شرح ہے وہ دس فیصد بھی نہیں جو ہمیں دنیا کے ان چند بدترین ممالک کی فہرست میں شامل کرتی ہے جن کے ٹیکس کی محصولات بہت کم ہیں۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ایف بی آر میں انقلابی اصلاحات لائیں گے۔ معیشت مزید بیٹھ گئی۔
ہم نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے سود کی شرح بڑھا دی، معیشت اور بیٹھ گئی۔ ہم نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، قرضہ چین سے لیں گے، سعودی عرب سے لیں گے۔ چین کے قرضے بہت مہنگے پڑے لہذا ہمیں آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا اور تب تک ڈالر بہت بڑھ چکا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط یہ طے پائیں کہ پہلے چین کے مہنگے قرضے اتارو، اپنی آمدنی بڑھاؤ بجلی مہنگی کرو، پٹرول مہنگا کرو۔ ہاں البتہ ہماری امپورٹ ضرور کم ہوئیں اور اس طرح ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ بڑے سالوں بعد توازن میں آیا۔ آپ کے زمانے میں لیے گئے بیرونی قرضوں نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اس وقت ہماری مجموعی پیداوار کی نوے فیصد کے برابر اب ہم پر قرضے ہیں۔
ہندوستان کے پاس پانچ سو ارب ڈالر بیرونی کرنسی کے ذخائر موجود ہیں۔ بنگلہ دیش کے پاس اسی ارب ڈالر کے برابر اور ہمارے پاس مشکل سے آٹھ ارب ڈالر بیرونی کرنسی کے مجموعی ذخائر ہوں گے جو ہماری چھ مہینے کی امپورٹ بل کے برابر ہوں گے۔ کورونا کی وجہ سے ہماری مجموعی پیداوار منفی ایک فیصد ہوگئی۔ لیکن پھر بھی کورونا کی وجہ سے معیشت کے اعتبار سے ہمیں اتنا بڑا دھچکا نہیں لگا جتنا بنگلہ دیش اور ہندوستان کو لگا ہے۔ کورونا کے باعث ہمیں بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں ایک سے ڈیڑھ سال تک کی چھوٹ مل گئی۔ لیکن غلطیاں در غلطیاں ہیں جو سر زرد ہوتی جارہی ہیں۔ خود اعتمادی کچھ حد سے بڑھ چکی ہے۔ لچک نام کی چیز نہیں اور اتحادی ہیں کہ روٹھتے جارہے ہیں۔
سندھ کی تاریخ کا کوئی انوکھا دورہ تھا جو وزیر اعظم نے حال ہی میں کیا۔ وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ کہیں نظر نہ آئے پتا یہ چلا کہ ان کو وزیراعظم کے دورۂ سندھ کے کسی پروگرام میں مدعو تک نہیں کیا گیا۔ صحیح کہتے ہیں وزیر اعلیٰ کہ یہ دورہ وزیر اعظم کا نجی دورہ تھا۔ آپ کی بالنگ پر پیپلز پارٹی والے چھکے اور چوکے لگا رہے ہیں اور آپ کو معلوم ہی نہیں۔ انھی لمحوں کے لیے غالب نے کہا تھا کہ "جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ"
جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی لینے کے دینے پڑ گئے۔ آخر ان تمام رسوائیوں کا خمیازہ بھلا عام آدمی کیوں بھگتے، وہ آپ سے اچھی حکمرانی کی امید کرتا ہے اس کا جینا مرنا اس بات سے ہے کہ ان کے بچوں کو اچھی اور سستی تعلیم ملے، اسپتال ہوں جہاں ان کا بہتر علاج ہو سکے، ان کو پینے کا صاف پانی ملے۔
حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی تباہیوں کے حوالے سے پاکستان کے لیے جو پیش گوئیاں کی گئی تھیں حقیقت اس سے زیادہ ہولناک ہے۔ پاکستان اس وقت تباہی کی زد میں ہے اور ہمیں لڑنے سے فرصت ہی نہیں۔ وقت بہت تیزی سے گذرتا جارہا ہے۔ خان صاحب کے حکومتی پراجیکٹ یا اس طرح کے مصنوعی کام صحت مند نتائج نہیں دے سکیں گے اور اقتدار میں دوبارہ توازن پیدا کرنے کے لیے خان صاحب کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔