جس طرح سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی چھائوں میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں ہی مسافروں کے لیے سرائے بنتی ہیں۔ دکھوں کا مداوا بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، جس کو جیسے چین آتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ بالکل یہی بات سردار جی کو بھی پتا تھی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا، ہر ملک کی دارو چکھی تھی، صرف زباں پر رکھ کر بتا سکتے کہ تھے دارو کہاں اور کس ملک سے آئی ہے۔ اتنا بھی گرپتا نہ چلے تو پھر بھی سردار جی کہہ دیتے ہیں کہ دارو بِکے گی نہیں۔
ہماری ہائبرڈ جمہوریت کا بھی یہی حال ہے، پینے والوں کی ہچکیاں بندھ چکی ہیں اور ساقی ہیں کہ زبردستی پلائے جا رہے ہیں۔ یہ نہ گرمیوں کی چھاوٌں ہے نہ سردیوں کی دھوپ بلکہ یہ ہے گرمیوں کی کڑھتی دھوپ اور سردیوں کی برفباری! ہزارہ کے لوگ منفی آٹھ ڈگری میں کھلے میدان میں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ انتظار میں بیٹھے رہے؟ ایسی ہی ایک صورتحال دیکھ کر ہمارے فیض صاحب کے پا س ایک بندہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ دوڑتا ہوا آیا کہ " ًفیض صاحب ایہہ ملک ہن نئیں چل سکدا " فیض صاحب نے کہا کہ" میرے کول اس توں وڈی خبر اے کہ اس نے ایویں چلدے رہنا اے"
آمریت اور جمہوریت کے اس دنگل میں مرا کون؟ بے چارہ غریب، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے، بھوک وافلاس بڑھی، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے آگئے، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے او ر یہ نام نہاد جمہوریت جیسے آغا طارق کی پانی والی گاڑی بس چلائے جائو، چلائے جائو۔ اب پردہ نہ رکھیے، خدارا حقائق کھول دیجیے۔ انڈہ جو تیس روپے میں ملتا ہے، آٹا اسی روپے کلو، بجلی بیس روپے فی یونٹ، پیٹرول فی لیٹر پر پچاس روپے ٹیکس اور دوائیاں تین سو فیصد مہنگی۔
اتنے یو ٹرن لیے ہیں اور اس بیمار قوم کو پتا ہی نہیں دن ڈھلے کہاں جانے کا رخ کیا تھا۔ کبھی فرماتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائوں گا، کبھی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنائوں گا تو کبھی کہتے ہیں کہ گورنر ہائوس کی دیواروں کو گرائوں گا اور اب یہ بھی کہتے ہیں کہ چین کی طرح اس ملک میں بھی انقلاب لائوں گا جب کہ جناب سادہ اکثریت بھی نہیں رکھتے۔ اگر اتحادی ادھر یا ادھر بکھر جائیں تو حکومت زمیں بوس ہوجائے۔
دو تہائی اکثریت اس ملک میں اگر کسی لیڈرکے پاس آئی وہ یا تو بھٹو تھے یا پھر نواز شریف۔ پھر یہ بھی دیکھیں کس قدر بوجھ تھا ان کے کاندھوں پر کہ سنبھل نہ سکے۔ حقیقت میں ان کی دو تہائی اکثریت بھی ایک پانی کا بلبلہ ہی تھی۔ خان صاحب کی سادہ اکثریت بھی پانی کا ایک بلبلہ ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اس بلبلے کو پھوڑ سکے گی؟ ہے تو یہ پانی کا ہی بلبلہ مگر اس بلبلے کے پیچھے طاقتور ہیں۔ اگر اس بلبلے کو پھوڑنا ہے تو زرداری صاحب کے پاس بہترین حکمتِ عملی ہے۔ آٹے میں سے بال نکالنے کے برابر کی۔ مگر تاریخ رقم کرنے کے ماجرے کا کیا ہو گا کہ کل تک پورا پنجاب زرداری صاحب تھا، میرا مطلب ہے کہ "مٹی پائو جی، مٹی پائو کی بات کرتا تھا۔"
ضیاء الحق کی حکومت میں جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تووہ بھی پنجابی، سندھیوں کی طرح روئے مگر سراپا احتجاج نہ بن سکے، سڑکوں پر نہ آئے۔ بھٹو کے لیے سڑکوں پر سندھی آئے 1983 میں ایم آرڈی تحریک کی صورت میں۔ پھر جب ضیاء الحق کی آمر حکومت کو دس سال ہونے لگے تو 10 اپریل 1986 کو بے نظیر کا پر جوش استقبال کیا، ایسا استقبال جو اب تک برصغیر میں کسی کا نہ ہو سکا۔ بھٹو جب زندہ تھے تو پنجاب کے تھے مگر جب پھانسی چڑھے تو سندھ کے ہوئے "واہ رے پنجاب تیرا انصاف "۔
اب جاگ اٹھا ہے پنجاب! ڈی چوک کی سیاست میں زرداری صاحب جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ستر کی دہائی میں بھٹو جمہوریت کے ساتھ نہ تھے اور 2017 میں زرداری صاحب بھی نہ تھے جمہوریت کے ساتھ۔ بھلا کیا کرتے زرداری صاحب بھی جب اس بار جمہوریت پر آمریت کا وار حاوی ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ دنیا میں رائٹ ونگ کا راج تھا۔ ٹرمپ صاحب ڈ الی پر بیٹھے تھے۔ رومی کی اس بات کی مانند " جب چوہے باغ میں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں تو بلبلیں اڑ جاتی ہیں۔"
زرداری صاحب اسٹریٹ اسمارٹ ہیں اور ان کا بیٹا گڑھی خدا بخش کے شہدائوں کی قبروں کا وارث ہے۔ پنجاب اب جاگ اٹھا ہے مگر "ہنوزدلی دور است"۔ دوسری جانب تنہا ہیں خاں صاحب، متحدہ بھی جا رہی ہے، اختر مینگل صاحب تو کب کے جا چکے اور باقی رہ گئی جی ڈی اے تو ان کی ٹوپی کو آجکل محمد علی درانی صاحب پہن کر جیل اور ریل کے مسافروں سے مل رہے ہیں۔ بالکل اس ہائبرڈ جمہوریت کی مانند۔ پردے کے اس پار ایک بیانیہ پر ہیں۔
جیسا بھی ہے لیکن اب جاگ اٹھا ہے پنجاب کہتے ہیں نہ کہ دیر آید درست آید۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے سندھی قوم پرستوں کی توپوں کا رخ پنجاب کی طرف تھا مگر اب نہیں۔ ایسا ہی کچھ ماجرہ خیبر پختونخوا اور بلو چوں کا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے پنجاب کی سول بیوروکریسی کا لوہا منوایا جب یوپی سے آئی مسلم لیگ تنہا رہ گئی اور جمہوریت رسوا ہو چلی۔ پھرگورنر جنرل غلام محمد کو یہ بھی علم تھا کہ طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے، وہ اسوقت کی ہائبرڈ جمہوریت تھی جس کو بلاخر آمریت نے براہِ راست ہاتھ میں لیا۔ کل تک بھی پنجاب میں الیکٹبلز تھے اور اسٹیبلشمنٹ تھی مگر اب بیانیہ تو لے گئیں مریم نواز صاحبہ اور الیکٹبلز اب کچھ پی ٹی آئی میں، کچھ پرویز الٰہی کے ساتھ اور کچھ شہباز شریف کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کی سوچ زرداری صاحب کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا بھی بیانیہ ہے مگر وہ یرغمال ہے دیکھا جائے تو اس پارٹی میں الیکٹبلز نہیں۔ کراچی کے علاوہ تمام سندھ الیکٹبلز کی لپیٹ میں ہے۔
پاکستان ارتقاء کی وہ منزلیں طے کررہا ہے، کشمیر پر ہمارا موقف بہت کمزور ہے۔ ہمارے دو بڑے اتحادی سعودی عرب اور یو اے ای ہمارے ساتھ اب نہیں اور ہم قرضوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ بس مگر ہم ایٹمی طاقت ضرور ہیں۔ سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ " اماں میں سونے کی بالی کان میں نہیں ڈالوں گی کہ میرے کان چھل جاتے ہیں۔"
ہمارے مسائل ہمارے اندر ہی ہیں۔ آمریت اور جمہوریت کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے اور یہ وہ ہی جنگ ہے جو ہونی تھی اور ہو گئی۔ خان صاحب آپ کا شکریہ کے آپ نے پردے چاک کردیے اور اب رفو سے کام نہیں چلے گا۔ یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے، ایک وفاق ہے اور اس کا وجود صرف جمہوریت سے ہی برقرار رہ سکتا ہے۔ اب باغ سے ان کو جانا ہی ہوگا کہ اس چمن کی بلبلیں واپس لوٹ آئیں۔